تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     28-04-2015

بلاول کی آزمائش

تاریخ حیرت انگیز واقعات سے بھری ہے۔ تھوڑی سی تلاش کے بعدمیں نے ان بادشاہوں کے نام دیکھے‘ جنہوں نے اپنی زندگی میں فرزندوں کی تاجپوشی کر دی۔ ایسے کل 11 بادشاہ سامنے آئے۔ سب نے اپنے فرزندوں کو بچپن ہی میں بادشاہت سونپ دی تھی۔ ایسا کوئی بادشاہ نہیں ملا‘ جس نے اپنے جوان بیٹے کو جیتے جی تاج پہنایا ہو۔ یہ عجیب و غریب تلاش تھی‘ لیکن جو کچھ سامنے آیا‘ وہ یہی ہے۔ صرف بابر ایک ایسا بادشاہ ہے‘ جس نے اپنے بیٹے ہمایوں کی بیماری پر‘ اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اس کی زندگی بیٹے کو دے دی جائے۔ دعا قبول ہوئی۔ ہمایوں صحت یاب ہوا اور بادشاہ بن گیا۔ بابر نے جان دے دی‘ بادشاہت نہیں دی۔بلکہ بعض بادشاہوںپر تو میری نگاہ گئی بھی کہ شاید انہوںنے اپنے بیٹے کو بذات خود تاج و تخت کا مالک بنایا ہو؟ مگر تصدیق نہیں ہوئی۔ ہو سکتا ہے‘ ایسے بادشاہ ہو گزرے ہوں‘ بلکہ ایک سے زیادہ ہوں‘ مگر میں نہیں ڈھونڈ سکا۔ مزیدتسلی کے لئے فرخ سہیل گوئندی کو فون کر کے پوچھا‘ تو انہوں نے خوداعتمادی سے بھرپور‘ اپنی روایتی گرج دار آواز میں جواب دیا ''ایک بھی نہیں۔‘‘ بلاول بھٹو زرداری کو میرا مشورہ ہے کہ وہ بھی تاریخ نکال کر پڑھ لیں کہ کسی بادشاہ نے زندگی میں‘ اپنے بیٹے کی تاجپوشی کی ہو؟ اگر ایسا کوئی نہیں تو پھر بلاول کو یقین کر لینا چاہیے کہ ان کے والد گرامی بھی ایسے نہیں۔ جب انہوں نے شہید بے نظیربھٹو کی وراثت پر قبضہ کر کے‘ پارٹی کی قیادت سنبھالی تھی‘ تو دو چیزیں سامنے آئی تھیں۔ ایک بی بی شہید کی وصیت‘ جسے بہت سے لوگ مصدقہ تسلیم نہیں کرتے اور دوسرا ان کا وعدہ کہ پارٹی کی قیادت بلاول کی امانت ہے اور جیسے ہی وہ بالغ ہوں گے‘ پارٹی کی قیادت سنبھال لیں گے۔ انتخابات ہوئے۔ پارٹی کے کوچیئرمین کی حیثیت میں‘ انہوں نے بطور صدر مملکت بلاول کی کرسی سنبھالی۔ پانچ سال‘ اس سے لطف اندوز ہوئے اور اب قریباً دو سال سے بطور قائم مقام چیئرمین ‘ پارٹی کی سربراہی کے مزے لے رہے ہیں۔
چند روز پہلے‘ جب ان سوالوں میں شدت آنے لگی کہ بلاول کی وراثت کب اس کے سپرد ہو گی تو قائم مقام چیئرمین بطور خاص لندن گئے۔ صاحبزادے کے ساتھ ایک تصویر بنوائی اور بیان جاری کر دیا کہ ''بلاول ابھی سوچ کے لحاظ سے ناپختہ ہیں۔‘‘ اللہ کی شان ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور بے نظیر شہید کے بیٹے کی سوچ کو‘ 24 سال کی عمر میں‘ناپختہ قرار دیا جا رہا ہے اور یہ فیصلہ کرنے والا کون ہے؟ حاکم علی زرداری کا بیٹا۔دوسرے الفاظ میں ابھی وہ قیادت سنبھالنے کے اہل نہیں۔ جب ان کی سوچ میں پختگی آ جائے گی‘ تو وہ قیادت سنبھال لیں گے۔ اس پر میں نے لکھا تھاکہ بھٹو خاندان میں نوعمری کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ بھٹو صاحب صرف 28سال کے تھے‘ جب وہ پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے‘ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے گئے۔ بینظیر 24سال کی تھیں‘ جب ان کے عظیم والد پر مقدمہ چل رہا تھا۔ انہیں مقدمے کے معاملات کی دیکھ بھال کرنا پڑی اور پارٹی بھی سنبھالی۔ ان دنوں اردن کے کرائون پرنس الحسین بن عبداللہ دوئم سکیورٹی کونسل کے نوجوان ترین ممبر ہیں اور اپنی باری پر‘ سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت بھی کرتے ہیں۔ ان کی عمر صرف 22سال ہے۔ بلاول اعلیٰ ترین یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہیں۔ بینظیرشہید کے زیرسایہ تعلیم و تربیت سے فیضیاب ہوئے۔ ان کی والدہ کو مطالعے کا گہرا شوق تھا۔ یقینا انہوں نے مطالعے میں اپنی ماں کا انتخاب بھی دیکھا ہو گا۔ ایک ایسا نوجوان‘ جس نے بینظیرشہید جیسی ذہین ترین خاتون کی گود میں پرورش پائی ہو‘ برطانیہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی میں پڑھا ہو‘ وہ ناپختہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مختلف اوقات میں بدلتے ہوئے بیانات کو یاد کر کے بھی شک پڑتا ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔ ابھی چند روز پہلے‘ جب زیادہ افواہیں پھیلیں‘ تو پارٹی کی طرف سے یہ اعلان آیا کہ لیاری کے جلسے میں بلاول بھٹو بھی تقریر کریں گے۔ جلسہ ہو گیا۔ حاضرین انتظار میں رہے۔ بلاول کی تقریر نہ ہو سکی اور جلسے میں ایک نیا اعلان کر دیا گیا کہ ''بلاول اور آصفہ کے آنے تک پارٹی کا پرچم سنبھالوں گا۔‘‘ گویا بی بی کی شہادت کے فوراً بعد‘ ووٹ بٹورنے کے لئے‘ قیادت بلاول کے سپرد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اب بلاول کو اس حق سے محروم کر کے‘ آصفہ کو قیادت کا حصے دار بنا دیا گیا ہے۔ گویا والد محترم‘ کو چیئرمین رہیں گے اور آصفہ کو چیئرپرسن بن جائیں گی۔ بلاول کو پارٹی کی پوری چیئرمین شپ نہیں ملے گی۔ میں نہیں جانتا بلاول کو سیاست میں کتنی دلچسپی ہے ؟ لیکن ان کے نانا اور والدہ محترمہ نے‘ کبھی کسی کو اپنا حق چھیننے کی اجازت نہیں دی۔ اقتدار ختم ہونے کے بعد جب بھٹو صاحب کو جیل میںڈالا گیا‘ تو طرح طرح کی تجاویز آئیں کہ پارٹی کی قیادت عارضی طور پر کسی سینئرلیڈر کے سپرد کر دی جائے‘ لیکن بھٹو صاحب نے یہ تجویز نہیں مانی۔ جب انہیں پھانسی کی سزا سنا دی گئی‘ تو اس وقت یہی تجویز زوروشور سے دوبارہ سامنے آئی۔ بھٹو صاحب پھانسی چڑھ گئے لیکن قیادت پرکسی دوسرے کو قبضہ کرنے کا موقع نہیں دیا۔
ستائیس اٹھائیس سالہ بینظیر بھٹو نے‘ پارٹی کی قیادت سنبھالی‘ تو کئی سینئر لیڈرز نے قیادت پر قبضے کا منصوبہ بنایا۔ بینظیر کے بارے میں کہانیاں پھیلائی گئیں کہ وہ سیاست سے نابلد ہیں۔ وہ پارٹی کے لیڈروں کو نہیں جانتیں۔ پاکستانی سیاست کا انہیں علم نہیں۔ کئی بزرگ اپنا دست شفقت لے کر بی بی کے پاس گئے اور نصیحت کی کہ پارٹی پر کڑی آزمائش کا وقت ہے۔ سیاست کو سمجھنے کے لئے انہیں ابھی وقت درکار ہے۔ دوچار برس کے لئے وہ یہ ذمہ داریاں سینئرلیڈروں کے سپرد کر دیں۔ بی بی کئی مہینوں تک بزرگوں کی یہ نصیحتیں سنتی رہیں۔ اس کے بعد اچانک انہوں نے ساری کی ساری سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی توڑ کے‘ نئی کمیٹی بنا دی اور پارٹی کی قیادت کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ یہ فیصلہ انہوں نے جلاوطنی کے دور میں کیا۔ سارے بابے فارغ کر کے‘ پارٹی کو اپنی قیادت میں منظم کیا اور پھر ساری قوم نے دیکھا کہ نوجوان بی بی نے‘ کس طرح ایک بے حوصلہ اور منتشر پارٹی کو منظم کر کے‘ سیاست میں اسے متحرک کیا۔ پاکستان واپس آ کر مثالی احتجاجی تحریک کی قیادت کی۔ حکومت کی تمام تر مخالفت کے باوجود‘ انتخابات میں قابل ذکر نشستیں حاصل کیں اور مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب رہیں۔ اس مخلوط حکومت کو بھی ختم کرنے کی سازشیں ہوئیں‘ لیکن بی بی نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور عدم اعتماد کی قرارداد کو ناکام بنا کر وزارت عظمیٰ پر فائز رہیں۔
بلاول بے شک نوجوان ہیں‘ لیکن ان کی رگوں میں جس ماں اور نانا کا خون دوڑ رہا ہے‘ وہ نوعمری میں ہی فہم و فراست سے مالا مال ہو گئے تھے‘ انہوں نے تمام تر سیاسی سازشوں کا مقابلہ کر کے اپنا مقام خود حاصل کیا اور پاکستان جیسے ملک میں نہ صرف صف اول کے سیاستدان بنے بلکہ اقتدار بھی حاصل کیا۔
بلاول کے سامنے دو ہی مثالیں ہیں۔ ایک ان کی شہید والدہ اور شہید نانا اور ایک ان کے والد محترم۔ سیاست میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اپنی بیوی کی شہادت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ انہوں نے بی بی کی خاندانی وراثت کو جہیز سمجھ کر اس پر قبضہ کر لیا اور پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ جس وعدے پر انہوں نے پارٹی کی قیادت اور اقتدار حاصل کیا تھا‘ اسے پورا کرنے کا وقت اب آ چکا ہے۔ جیسے ہی بلاول کی باری آئی‘ زرداری صاحب نے حیلے بہانے اور پہلوتہی شروع کر دی۔ کبھی کچھ کہا اور کبھی کوئی بہانہ بنایا اور آخر میں انہوں نے یہ کہہ کر سارا معاملہ ہی کھوہ کھاتے میں ڈال دیا کہ بلاول کی سوچ ناپختہ ہے اور ساتھ ہی آصفہ کو قیادت کا حصے دار بنا کر سامنے کر دیا۔ ان کا تازہ ترین فرمان یہ ہے کہ ''وہ بلاول اور آصفہ کے آنے تک پارٹی پرچم سنبھالیں گے۔‘‘ یہ پارٹی حاکم علی زرداری کا ورثہ نہیں‘ بلاول کے نانا اور والدہ کی قربانیوں کی نشانی ہے۔ اس پارٹی کے لئے‘ ان گنت شہادتیں دی گئیں۔ کارکنوں نے جلاوطنیاں برداشت کیں۔ کوڑے کھائے۔ قیدوبند کی صعوبتیں سہیں۔ ایسے لوگ یہ کس طرح قبول کر سکتے ہیں کہ بلاول کو آسانی سے پیچھے دھکیل کر‘ حاکم علی زرداری کے صاحبزادے اقتدار پر قبضہ کر لیں؟ پارٹی ایک نئے دورابتلا میں داخل ہونے جا رہی ہے۔ ناہید خان اور صفدر عباسی پہلے ہی سے‘ پارٹی کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں۔ بھٹو اور بینظیر کے پیروکاروں کو کبھی نہ کبھی‘ خود ہی آگے بڑھ کر پارٹی کا شیرازہ سنبھالنا ہوگا‘ ورنہ بھٹو اور بی بی کے نام پر جناب آصف زرداری کے جو مصاحبین‘ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں‘ بلکہ بہت کچھ لوٹ رہے ہیں‘ کم از کم وہ بھٹوز اور ہزاروں پارٹی لیڈروں کی قربانیوں کے ثمرات پرقبضہ کرنے کے تو بہرحال حق دار نہیں۔ بلاول اپنا حق لینے کے لئے آگے بڑھیں گے‘ تو کروڑوں عوام‘ انہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ جن لوگوں نے ان کے عظیم نانا اور والدہ محترمہ کی وراثت پر قبضہ کیا ہے‘ بے شک وہ بلاول کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کریں گے۔ وہ مرتضیٰ بھٹو کو راستے سے ہٹا بھی چکے ہیں۔ بلاول اگراپنے تحفظ کی ذمہ داری عوام کے سپرد کر دیں‘ تو عوام میں اتنی طاقت ضرور ہے کہ وہ ان کا تحفظ کر سکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved