تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     28-04-2015

ٹوٹے

وہی حیلے ہیں پرویزی...!
اخباری اطلاع کے مطابق احتساب عدالت نمبر 1 کے جج راجہ اخلاق حسین کو تبدیل کردیا گیا ہے‘ جنہوں نے تین روز قبل سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف زیر التواء اثاثہ جات ریفرنس ری اوپن کر کے انہیں نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت طلب کیا تھا۔ انہیں فوری چارج چھوڑ کر ہائیکورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی جگہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج خالد رانجھا کی تعیناتی کی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ تبدیلی ایک روٹین ہی کا عمل ہو‘ لیکن حکومت ایسے نازک معاملات کے حامل مقدمات اور تحقیقات کو قبل از وقت تبدیل کرنے کے سلسلے میں اس قدر بدنام ہو چکی ہے کہ اس کی کسی سچی بات پر بھی یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ ابھی چند ہی روز پہلے اس تفتیش کار کا اچانک تبادلہ کردیا گیا جو سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف 17 ارب روپے کے رشوت سکینڈل کی تحقیقات کر رہا تھا اور جس کے لیے سابق وزیراعظم نے میاں نوازشریف سے ملاقات بھی کی تھی اور جس کے تبادلے پر وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اس ایڈیشنل سیکرٹری پر اظہارِ ناراضی بھی کیا تھا کہ اُن کی اجازت اور ایماء کے بغیر وزیراعظم سیکرٹریٹ کے اشارے پر اُسے کیوں
تبدیل کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود چودھری صاحب کی طرف سے اس تفتیش کار کو بحال کرنے کی بھی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اثاثہ جات کیس کا دلچسپ ترین حصہ غالباً سرے محل کا معاملہ ہے‘ سوئس عدالت میں جس پر کارروائی ہونے کے گمان پر سابق صدر اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے بیان دیا تھا کہ سرے محل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور جس کا جی چاہے اُس پر قبضہ کر لے۔ لیکن سوئس عدالت میں یہ گرد بیٹھتے ہی زرداری صاحب نے یہ جائداد چپکے سے فروخت کردی۔ اب اس سے بڑی احمقانہ سوچ تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی کہ مفاہمت کے اس زریں زمانے میں موجودہ حکومت سابق صدر کے خلاف‘ خاص طور پر کرپشن کے حوالے سے‘ کوئی کارروائی کرے گی کیونکہ یہ سب نہ صرف ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے کانے بھی ہیں کیونکہ یہ اپنے حواریوں سمیت اس بہتی گنگا میں نہا نہا کر بالکل پوتّر ہو چکے ہیں اور ان کے نزدیک اقتدار حاصل کرنے کا واحد مقصد کرپشن کا کھلا لائسنس ہے اور قوم کا اربوں روپے کا لوٹا ہوا مال ان کے بیرون ملکی اثاثوں اور بینک اکائونٹس کی شکل میں پڑا
ہوا ہے جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق پاک و ہند کے سیاستدانوں کا دو ہزار ارب ڈالر سوئس اور دیگر بینکوں میں اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ اس لیے اگر خالد رانجھا صاحب نے بات ماننے سے انکار کردیا تو انہیں تبدیل کردیا جائے گا‘ خاطر جمع رکھیں!
جناب سعید پرویز کا کالم
ہمارے دوست سعید پرویز اپنے کالم بعنوان ''ڈاکٹر انور سدید سے ملاقات‘‘ مورخہ 27 اپریل‘ میں لکھتے ہیں... ''پھر اچانک وہ بولے، ''زیست‘‘ نامی رسالے میں ظفر اقبال نے جالب کے خلاف لکھا ہے‘ میں اس کا جواب لکھ رہا ہوں‘‘۔
یہ ایک فرمائشی مضمون تھا جو میں نے جریدہ ''ماہِ نو‘‘ کے ایڈیٹر جناب صفدر بلوچ کی فرمائش پر لکھا تھا‘ جیسا کہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے کہ وہ اس رسالے کا حبیب جالب نمبر شائع کر رہے ہیں‘ لیکن وہ نمبر چھپا‘ نہ میرا مضمون‘ جو میں نے ''زیست‘‘ میں چھپوا دیا اور جس میں میں نے جالبؔ کی شاعری کو سیاسی شاعری قرار دیتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ میرے ساتھ ہر شخص‘ حتیٰ کہ ڈاکٹر انور سدید کو بھی اختلاف رائے کا حق حاصل ہے‘ البتہ جو کچھ موصوف لکھیں گے‘ میں اس کا جواب نہیں دوں گا کیونکہ میں جواب دینے سے پہلے یہ طے کرتا ہوں کہ شخص مذکور جواب کے قابل بھی ہے یا نہیں اور‘ جس کے اپنے اسباب ہیں۔ مثلاً ایک زمانے میں انہوں نے کسی کی نظم اپنے نام سے چھپوا دی۔ میں نے اپنے کالم میں اس کا نوٹس لیا تو کوئی جواب آیا‘ نہ وضاحت۔ چند سال پہلے بھارت کے ممتاز نقاد وارث علوی نے کراچی کے ایک رسالے میں اپنے ایک مضمون میں موصوف کے ادبی گُرو ڈاکٹر وزیر آغا کے حوالے سے مثالیں دے دے کر لکھا کہ انہوں نے کن کن مغربی مصنفین کی تحریریں اردو میں ترجمہ کر کے اپنے نام سے چھپوا دی تھیں۔ جس پر میں نے لکھا تھا کہ ڈاکٹر صاحب تو مرحوم ہو چکے ہیں‘ ان کے دسترخوان سے مستفید ہونے والوں کو چاہیے کہ اس کا جواب دیں‘ لیکن موصوف سمیت کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے کہ دھرم شالہ (بھارت) سے شائع ہونے والے کرشن کمار طُور کے رسالے ''سرسبز‘‘ میں میرا ایک خط شائع ہوا تھا جس میں جدید غزل کو ڈسکس کیا گیا تھا جو ڈاکٹر انور سدید صاحب نے اٹھا کر من و عن اپنے نام سے رسالہ ''چہارسُو‘‘ راولپنڈی میں چھپوا دیا۔ میں نے اس پر اپنے کالم میں شور مچایا تو حسبِ معمول جواب میں وہی خاموشی‘ واضح رہے کہ ''چہار سُو‘‘ کے ایڈیٹر جناب گلزار جاوید کافی عرصہ میرے سر رہے کہ وہ ظفر اقبال نمبر شائع کرنا چاہتے ہیں اس لیے ان کے ساتھ تعاون بھی کیا جائے اور اس کی اجازت بھی دی جائے۔ میں نے دونوں سے معذرت کردی۔ ڈاکٹر موصوف شاعری بھی فرماتے ہیں اور ''شجر‘‘ کو ''صبر‘‘ کے وزن پر باندھتے بھی پکڑے گئے ہیںموصوف اپنی مذکورہ کار گزاریوں سے مکرنہیں سکتے کیونکہ ساراموادشائع شدہ اور ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس کاجواب ان کے پاس صرف خاموشی ہے، جو انہوں نے اختیار کر رکھی ہے اور اب وہ میرے مضمون کا جواب لکھیں گے ع
تو برونِ در چہ کردی کہ درونِ خانہ آئی!
آج کا مقطع
امیدِ وصل غلط بھی نہیں کہ اس میں‘ ظفرؔ
کہیں ہمیشہ تو یوں بے وفا نہیں رہنا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved