عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی چن پنگ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے بعد جب وزراء اور سیا سی جماعتوں کے سربراہان سے مل رہے تھے‘ اس وقت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنا ہاتھ چینی صدر کی جانب بڑھا یا تو پاکستان کے وزیر اعظم کی بجائے میاں نواز شریف نے مسلم لیگ نواز کے صدر کی حیثیت سے اپنی سب سے بڑی متحارب جماعت کے سربراہ پر سیا سی حملہ کرتے ہوئے کہا'' یہ ہیں وہ دھرنے والے جن کی وجہ سے چینی صدر کو یہاں آنے میں چھ ماہ کا انتظار کرنا پڑا‘‘۔ ردعمل میں عمران خان نے جو جواب دیا وہ اپنی جگہ لیکن چینی صدر کا دورۂ پاکستان ملتوی ہونے کی اصل وجہ کیا تھی؟ حقائق سامنے لانے کی کوشش کروں گا‘ لیکن اس سے پہلے آپ کو د ومصدقہ خبروں کو بھی سامنے رکھنا ہو گا تاکہ جو کچھ میں کہنے جا رہا ہوں‘ اسے سمجھنے میں سب کو آسانی ہو۔ پہلی خبر افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ‘ جو آئی ایس پی آر کے نام سے جانا جاتا ہے‘ کی جاری کردہ ایک پریس ریلیز ہے جو روزنامہ 'دنیا‘ میں سُپر لیڈ کے طور پر شائع ہوئی ہے۔ اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے جو بھی پروجیکٹس شروع کیے جائیں گے‘ ان پر کام کرنے والے چینی انجینئرز اور کارکنوں کی سکیورٹی کی ذمہ داری افواج پاکستان کے سپرد ہو گی اور اس کے لیے افواج پاکستان ایک علیحدہ مکمل ڈویژن تشکیل دے رہی ہے ۔ پاک فوج کے اس خصوصی ڈویژن میں فوج کی9 بٹالینز اور سول آرمڈ فورسز( ایف سی) کے6 ونگز شامل کیے جا رہے ہیں اور اس ڈویژن کا سربراہ پاک فوج کا ایک میجر جنرل ہو گا جو براہ راست فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز کو جواب دہ ہو گا۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف دو ماہ قبل جب چین کے دورے پر گئے تھے تو وہاں چینی ماہرین اور کارکنوں کی سکیورٹی کا مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔ حکومت نے پہلی دفعہ چینی صدر کی آمد کا اعلان کیا تو اس وقت چینی حکومت نے اپنے کارکنوں کے تحفظ کے بارے میں تحفظات ظاہر کیے تھے اور ان کے دورے کے ملتوی ہونے کی ایک وجہ یہ تھی‘ لیکن وزیر اعظم نے سیا سی پوائنٹ سکورنگ کیلئے معزز چینی مہمان کی موجودگی میں عمران خان پر یہ جملہ کسا '' یہ ہیں دھرنے والے‘ جنہوں نے دورہ چھ ماہ لیٹ کرا دیا‘‘۔ کیا حکمران یہ سننا پسند کریں گے کہ چینی حکومت نے آپ کے سامنے جو دو بڑے سوال رکھے تھے‘ ان میں سے ایک ان کے کارکنوں کی بھر پور سکیورٹی اور دوسرا اپنے ہر منصوبے کی مکمل ٹرانسپیرنسی تھا؟ کیونکہ گذشتہ چھ ماہ میں چین کے ساتھ دستخط کیے جانے والے ہرایم او یو کے بارے میں ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں جس طرح کے خدشات کا مسلسل اظہار کیا جاتا رہا‘ وہ سب کچھ چینی حکومت کے نوٹس میں تھا اور وہ ان خبروں اور رپورٹوں کی مانیٹرنگ کرتے رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی صدر شی چن پنگ کی خصوصی درخواست پر دونوں حکومتوں نے اس دورے کے دوران دستخط ہونے والے ہر معاہدے کی شفافیت کو بر قرار رکھنے اور ان کی مانیٹرنگ کے لیے ایک علیحدہ ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ چینی حکومت کی بھر پور خواہش ہے کہ ان کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری پر کسی کی بھی انگلی نہ اٹھ سکے‘ وجہ یہ ہے کہ نندی پور پروجیکٹ میں ہونے والے گھپلے‘ جو اب ثابت بھی ہوتے جا رہے ہیں‘ دنیا کے سامنے ہیں۔
وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کیلئے ترکی کی جس کمپنی کے ساتھ90 کروڑ ڈالر کا معاہدہ کیا ہے‘ اس کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں ایک رٹ دائر ہو چکی ہے‘ جس میں اس کے طریقہ کار اور شفافیت نہ ہونے کے ثبوت دیتے ہوئے اس پر عمل در آمد روکنے اور اس کی اعلیٰ سطح پر غیر جانبدارانہ انکوائری کی درخواست کی گئی ہے ۔
مسلم لیگ ن کے لیڈران کی جانب سے چینی صدر کے دورۂ پاکستان کے ملتوی ہونے کے بارے میں جو جی چاہے کہا جا سکتا ہے لیکن اصل حقائق قوم کے سامنے لانے ضروری ہیں۔ اگر کوئی فوجی طریقہ کار کو سمجھتا ہے تو اندازہ کر سکتا ہے کہ چینی ماہرین اور کارکنوں کی مکمل اور فول پروف سکیورٹی کیلئے ایک علیحدہ ڈویژن
تشکیل دینے کیلئے کتنا عرصہ درکار ہو تا ہے اور وہ بھی اس وقت جب ملک کی ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوج ضرب عضب کی تکمیل کیلئے مصروف جہاد ہو۔ اعلیٰ حکومتی عہدوں پر براجمان شخصیات کو موقع محل کی منا سبت سے اپنے پرانے حساب چکانے چاہئیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کرلیں یا ایک لمحے کیلئے وہ منظر سامنے لے آئیں جب وزیراعظم نے یہ جملہ کسا اور جو اگلے دن کے اخبارات میں واضح طور ہر شائع ہوا۔۔۔۔ اور سوچیں کہ اگر اس وقت عمران خان چینی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے یہی سوال ان کے سامنے رکھ دیتے کہ جناب والا! ہمارے ملک کے وزیر اعظم مجھ پر یہ الزامات لگا رہے ہیں کہ آپ کا دورہ میں نے دھرنا دے کر چھ ماہ کے لیے ملتوی کرایا‘ لہٰذا آپ آج سب کے سامنے اس دورہ کے ملتوی ہونے کی اصل وجہ بتائیں‘ تو منظر کیا ہوتا؟۔ کیا اس سے ساری دنیا میں ہمارے ملک کی جگ ہنسائی نہ ہوتی؟۔ کیا سفارتی دنیا کی تاریخ میں یہ انوکھا واقعہ نہ ہوتا؟۔ یا اگر عمران خان آج ہی ملک کی فوجی قیا دت سے یہ مطا لبہ کر دیں کہ وہ چین کے صدر شی چن پنگ کے دورے میں ہونے والی چھ ماہ کی دیر کی ا صل وجوہ سے قوم کو آگاہ کریں تو مسلم لیگ ن ان حقائق کا سامنا کرنے کیلے تیار ہو سکتی ہے؟پیپلز پارٹی کی جانب سے کیا جانے والا وہ مطالبہ بھی سامنے رکھ لیں جس میں اس پارٹی کے رہنمائوں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ ہمیں
یہ تو بتایاجا رہا ہے کہ چین کی حکومت سے 46ارب ڈالر کے معاہدے ہو ئے ہیں لیکن قو م کو یہ بھی تو پتہ ہونا چاہئے کہ یہ منصوبے کون سے ہیں اور ان منصوبوں کی مکمل وضاحت اگر یہ کہہ کر ٹال دی جائے کہ یہ سب ٹیکنیکل معاملات ہیں‘ جن کی عوام کو سمجھ نہیں آ سکتی‘ تو کم ا زکم میڈیا کو ہی ان کی مکمل جزئیات بتا دی جائیں؟ اگر اور کچھ نہیں بتا سکتے تو کم از کم حکومت کے اعلانات کے مطا بق سب سے بڑے منصوبے اکنامک کوریڈور‘ جس کا ہر جانب شور ہے‘ کے روٹ کے حتمی راستوں کی نقشوں کے ساتھ وضاحت ہی کر دی جائے۔
ہمارے ملک کی سیاست ایک دوسرے پر الزامات اور تہمتوں سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہو جاتی ہے اور یہ کسی ایک جماعت تک محدود نہیں‘ ہر پارٹی کا وتیرہ بن چکا ہے بلکہ اب تو روزانہ ہونے والے پندرہ بیس ٹی وی ٹاک شوز میں بھی ایک دوسرے کو دنیا کا سب سے بڑا غلط کار ثابت کرنے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں لیکن چینی صدر شی چن پنگ کا حالیہ دورۂ پاکستانJust to finalize maritime silk road and 8 submarinesکے گرد گھومتا ہے اور پاکستان نیوی کو مضبوط بنانے کے لیے آٹھ سب میرین ڈیزل الیکٹرک صلاحیت والی ہوں گی۔ پاکستان میں چھیالیس ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے جو معاہدے کئے گئے ہیں‘ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے 34 ملین ڈالر اس میری ٹائم سلک روڈ پر خرچ ہوں گے اور باقی بارہ ارب ڈالر اکنامک کوریڈور کے نام سے پکاری جانے والی روڈ سے متعلق انفراسٹرکچر پر خرچ ہوں گے!!