تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     28-04-2015

تحریکِ انصاف کے لیے مواقع اور مشکلات

این اے 246اور کنٹونمنٹ الیکشن نتائج کی مختلف اور متضاد تشریحات میسر ہیں ۔ کنٹونمنٹ میں قریب 70نشستیں حاصل کرنے کے بعد نون لیگ کے رہنمائوں ، خواجہ سعد رفیق ، پرویز رشید وغیرہ کا خیال یہ ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اس الیکشن نے غلط ثابت کر دیے ہیں۔ غالباً یہ درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ مرکز اور اکثر صوبوں ، بالخصوص پنجاب میں نون لیگ اور اس کے اتحادیوں کی حکومتیں قائم ہیں ۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی نے چالیس سے زائد سیٹیں جیت لی ہیں ۔ یہ تناسب 2013ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی میں تحریکِ انصاف کی سیٹوں سے بہت زیادہ ہے۔ گویا نون لیگ کی ہر ڈیڑھ سیٹ کے مقابل تحریکِ انصاف نے ایک نشست جیتی ہے ۔وہ بھی اس وقت ، جب مرکز اور صوبوں میں حریف حکومتیں قائم ہیں ۔ لیگی لیڈروں کی رائے تسلیم کرتے ہوئے، کنٹونمنٹ نتائج کو اگر درست پیمانہ تسلیم کر لیا جائے تو عام انتخابات میں نون لیگ کی 166سیٹوں کے مقابل تحریکِ انصاف کو 35نہیں ، 83نشستوں پر کامیابی حاصل ہوتی ۔
این اے 246میں اگر ووٹوں کا تناسب دیکھا جائے تو نتائج 2013ء سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔ ایم کیو ایم نے دوبارہ بہت واضح فرق سے کامیابی حاصل کی ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ ، تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی ، تینوں کے ووٹوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور یہی زیادہ حیران کن بات ہے ۔ ایم کیو ایم کے ووٹوں میں دو چار نہیں ، 50ہزار کی کمی آئی ہے ۔ ووٹنگ کا تناسب محض 37فیصد اور وہ بھی تینوں جماعتوں کی طرف سے بڑی انتخابی مہم اور میڈیا کی طرف سے بھرپور کوریج کے بعد۔ اس طرح کے فیصلہ کن حلقے میں ، جہاں ایم کیو ایم کی شکست کی صورت میں شہر کی سیاست بدل کے رہ جاتی اور جہاں فریقین کے لیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا، ووٹنگ کی شرح 60سے 70فیصد کے درمیان ہونا چاہیے تھی۔
انتخابی مہم کے دوران تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کے کارکنوں سے ایم کیو ایم کی جھڑپیں ہوتی رہیں ۔ان حالات میں خوف غالب آگیا۔ عام آدمی نے گوشۂ عافیت میں دبک کر جان بچانے کو ترجیح دی اور یہ فطری امرہے ۔ یہاں ایم کیو ایم کی فتح نے رینجرز پر اس کی طرف سے عائد الزامات کی تردید کر دی ہے ۔ جناب الطا ف حسین نے کہا تھا کہ نائن زیرو سے برآمد ہونے والا اسلحہ رینجرز اہلکار کمبلوں میں چھپا کر لائے تھے ۔ بعد میںپارٹی کی طرف سے جب لائسنس جمع کرائے گئے تو یہ بتانا وہ بھول گئے کہ کیا اسلحے کے ساتھ ساتھ ، لائسنس بھی رینجرز والے کمبلوں میں چھپا کر لائے تھے؟ جہاں تک فیصل موٹا، کے ٹو اینڈ کمپنی کا تعلق ہے ، وہ کمبلوںمیں پورے ہی نہیں آ تے ۔
بحرانوں کی شکار ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے لیے یہ فتح خوش آئند ہے ۔ اب وہ کچھ دیر سستا سکتے ہیں‘ لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں کچھ مزید سنسنی خیزواقعات جنم لیں گے ۔ عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار معظم علی نے جے آئی ٹی کے روبرو الزامات تسلیم کر تے ہوئے سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں۔
روایتی سیاست سے تنگ اس معاشرے میں بظاہر تحریکِ انصاف کے لیے حالات اب بھی نہایت سازگار ہیں ۔ اس کی مقبولیت برقرار ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ بڑی تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں ۔ معاشی راہداری منصوبے کی صورت میں سرمایہ کاری کے جس طوفان کا ذکر کیا جاتا رہا ، وہ اب متشکّل ہونے کے مراحل سے گزر رہا ہے ۔ 250ارب ڈالر کی ننھی منی پاکستانی معیشت جب ساڑھے آٹھ ہزار ارب ڈالر کے دیو قامت چین سے جڑے گی تو نتائج کیا ہوں گے ؟ حکمران جماعت کے لیے یہ کھل کھیلنے اور کھل کھانے کا موقع ہوگا ۔ اس کے باوجود معاشی طور پر پاکستان بدل کے رہ جائے گا۔ حالات میں یہ بڑی تبدیلی ناگزیر ہے ۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ معاشی طور پر چین سے دو گنا بڑا امریکہ چینی سرمایہ کاری کے اثرات محدود کرنے کی کوشش بھی کرے گا ۔جوابی طور پر امریکی سرمایہ کاری بھی ہوگی ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ گوادراور مشرقِ وسطیٰ تک رسائی کی صورت میں جس قدر بڑے چینی مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں ، امریکہ کے ایسے مفادات ہرگز نہیں ۔ میری ذاتی رائے میں وہ چار پانچ ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔
تحریکِ انصاف کے لیے حالات جس قدر سازگار ہیں ، اتنی ہی مشکلات منہ کھولے کھڑی ہیں ۔ ایک تو یہی چینی سرمایہ کاری کا معاملہ ہے ، غیر ملکی طاقتوں کے ایما پر متحرک اور اپنے سیاسی مفادات کا تحفظ کرنے والے جسے متنازعہ بنانے کی کوشش کریں گے ۔ دوسرا پارٹی کے اندر ایک عجیب کھچڑی پک رہی ہے ۔ اس کا نیا مظہر کپتان کی طرف سے جسٹس وجیہ الدین احمد کی سربراہی میں قائم الیکشن ٹربیونل کو تحلیل کرنا ہے ۔ انہوں نے پارٹی قائد اور جہانگیر ترین کو پیش ہونے کا حکم جاری کرنے کی سنگین غلطی کی تھی ۔ پانچ ماہ قبل جسٹس وجیہ الدین کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے رپورٹ جاری کی تھی ۔ تحریکِ انصاف کے اندرونی انتخابات میں بڑے پیمانے کی دھاندلی کو واضح کرتے ہوئے نئے الیکشن کی سفارش ۔ اس کے بعد یہ اطلاعات گردش کرتی رہیں کہ کپتان جسٹس صاحب سے نالاں ہے ۔ جسٹس وجیہہ الدین ان نادرِ روزگار ججوں میں سے ایک ہیں ، 1999ء میں پرویز مشرف کے مارشل لا کے بعد جنہوں نے نوکری کو لات مار دی تھی ۔ وہ شہرت کی خواہش میں دیوانگی کو چھو لینے والے افتخار محمد چوہدری سے یکسر مختلف ہیں۔ ان سے بھی ، جو برسرِ عدالت شعر و شاعری کرتے ہیں کہ اخبارات میں جج صاحب کے دردِ دل کا تذکرہ نمایاں طور پر شائع ہو ۔ افتخارچوہدری صاحب کے ارشادات تو خیر شہ سرخی کے طور پر شائع ہوا کرتے ۔اس دور میں ان کے ایک ساتھی نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا ''بدقسمت ہے وہ قوم...‘‘ ان کے ایک جانشین نے دورانِ سماعت اب یہ مصرعہ پیش کیا ہے ''چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے‘‘۔
تحریکِ انصاف کے گزشتہ الیکشن میں دھاندلی واضح کرتے ہوئے، جسٹس وجیہہ الدین کمیٹی نے پارٹی میں اصلاح کا ایک دروازہ کھول دیا تھا۔ پانچ ماہ انتظار کے بعد، کپتان پر یہ تو واضح ہوگیا کہ نئے انتخابات کے بغیر چارہ نہیں ۔ ساتھ ہی مگر پارٹی الیکشن ٹربیونل کی تحلیل سے انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ آئندہ اصلاح کی کوشش نہ کی جائے تو بہتر ہے۔ مشتری ہوشیار باش۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved