پاکستانی جمہوریت کا انحصار‘ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے پر ہے۔ اگر دھاندلی کا الزام لگانے والی جماعتیں اپنے دعوے ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں‘ تو اس کا مطلب کیا ہو گا؟ ایک ایسی حکومت‘ جسے دوسری تمام سیاسی جماعتیں دھاندلی کی پیداوار قرار دے رہی ہیں‘ وہ جائز طور سے منتخب اور قانونی حکومت کی طرح‘ اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کرے گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ ایک ایسا الیکشن‘ جسے حکمران جماعت پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ ''جیتے‘‘ گی اور مزید پانچ سال ملک پر حکومت کرے گی۔ یہ ہو گا ہماری جمہوریت کا انجام۔ اصل میں جمہوریت اپنے انجام کو 2013ء میں ہی پہنچ گئی تھی۔ سب کے علم میں تھا کہ لوگوں نے ووٹ کتنے ڈالے ہیں؟ اور کامیاب ہونے والے کون ہیں؟ آج جتنی سیاسی جماعتیں‘ جوڈیشل کمیشن میں مدعی بن کرپیش ہو رہی ہیں‘ ان سب نے دبی زبان سے دھاندلی کا شور مچایا تھا‘ لیکن حکومت کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار نہیں کی تھی۔ ایک سعادت مند اپوزیشن کی طرح ‘حکومت سے جتنے فائدے ممکن تھے‘ اٹھائے گئے اور آج بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہاں پر حکومت کے پسندیدہ اپوزیشن لیڈر‘ خورشید شاہ کا یہ دعویٰ دلچسپ ہے کہ اگر ہم نہ بچاتے‘ تو حکومت کا خاتمہ دھرنوں کے دوران ہی ہو جانا تھا۔انہیں اس میں کوئی جھجک نہیں کہ جس حکومت کو انہوں نے‘ دھاندلی پر مبنی انتخابات کا نتیجہ قرار دیا تھا‘ وہ نہ صرف اسے بچانے کا ذریعہ بنے بلکہ اب اسے تحفظ بھی دیتے آ رہے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔
ہم نے فوجی آمریتیں دیکھی ہیں اور غیر فوجی بھی۔ہر دور میں ‘کسی نہ کسی طریقے سے عوام کے مطالبات اور ان کی فریادیں ‘حکمرانوں تک پہنچ ہی جاتی تھیں۔کبھی اخباروں کے ذریعے‘ کبھی بند کمروں میں ہونے والے اجلاسوں کے توسط سے‘ کبھی خطوط سے اور کبھی مختلف وفود کی مدد سے۔غیر نمائندہ حکومتوں کو ہمیشہ فکر رہتی تھی کہ عوام کے مسائل میں شدت پیدا نہ ہو۔اشیا کے نرخوں پر کنٹرول رکھنے پر‘ توجہ دی جاتی تھی۔ مجھے نہیں یاد کہ اس طرح تیل اور گیس کی قیمتیں اور قلت‘ تھوڑے تھوڑے عرصے بعد پیدا کر کے‘ عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالے جاتے ہوں۔اب تو یہ روزمرہ کا معمول ہے۔پٹرول کی قلت کے چرکے ابھی عوام بھولے نہیں کہ پھر سے پٹرول کے ذخیرے ختم ہونے کی خبریں آنے لگی ہیں۔یہ ایک طرح کی وارننگ ہے کہ پھر سے قلت پیدا ہو گی‘ پھر سے عوام کو لوٹا جائے گا اور جیبیں بھرنے کے بعد‘ پٹرول دوبارہ مارکیٹ میں آجائے گا۔ یہ موجودہ حکومت کی پریکٹس ہے۔ خالص تاجرانہ ذہنیت‘ وہی حربے‘ عوام کی جیبوں سے نرخوں کے اتارچڑھائو کے پردے میں‘ زیادہ سے زیادہ پیسہ بٹورنا۔ا سی طرح ارباب اقتدار کو‘عوامی ردعمل کا خوف رہا کرتا۔ جیسے ہی کسی بد عنوانی یا سرکاری ملازمین کی طرف سے زیادتیوں پر‘ شکایت پیدا ہوتی‘اعلیٰ حکام فوری ردعمل ظاہر کرتے اور کسی نہ کسی طرح عوام کوریلیف مل جایا کرتا۔ سیّاں بھئے کوتوال اب‘ ڈر کاہے کا۔اوپر سے نیچے تک ایک ہی ٹولہ حکمران ہے۔ سب مل جل کے موجیں اڑاتے ہیں۔سپاہی کی شکایت کرو تو تھانیدار اس کا سرپرست نکلتا ہے۔ تھانیدار کے خلاف فریاد کر و ‘ تو ایم پی اے یا ایم این اے‘ اس کا سرپرست ہوتا ہے۔ایم پی اے ‘ ایم این اے کے پاس جائو‘تو متعلقہ وزیر اس کا اپنا نکلتا ہے اور وزیر کی شکایت لے کر‘ کوئی کہاں جائے؟ اگر میڈیا میں شور کر بھی لیا جائے تو اس پر توجہ کون دیتا ہے؟ بیشتررپورٹرز‘ اینکرز اور مبصر‘ سرکار کے چاہنے والے ہیں اور اب تو سرکاری تحفے تحائف کی جو خبریں چھپتی ہیں‘ ان کی مالیت کروڑوں میں ہوتی ہے۔ غیر نمائندہ حکومتوں کو یہ ڈر بھی ہوتا تھا کہ اگر سرکاری وسائل سے‘ من مانیاں کرنے پر ‘شور مچا تو فوری جواب طلبی کر لی جائے گی۔ جیسے بھی ہوتا‘ قواعد و ضوابط کی پابندی کا خوف رہتا۔اب تو حالت یہ ہے کہ وزیراعظم کسی بھی چہیتے کو اٹھا کر‘ کرکٹ بورڈ کا سربراہ بنا دیتے ہیں اور وہ چارج سنبھالتے ہی‘ گرائونڈ کی دیکھ بھال کرنے والوں اور کھلاڑیوں سے پوچھتا نظر آتا ہے کہ لیگ بریک کیا ہوتی ہے؟نو بال کسے کہتے ہیں؟اور بائولر کا کون سا ایکشن‘ ممنوع ہوتا ہے؟۔ ایسے ہی چند سوالات پوچھ کر‘بورڈ کے سربراہ پریس کانفرنس طلب کرلیتے ہیں اور ماہرانہ اندا زمیں بتاتے ہیں کہ کرکٹ کا کھیل ‘اصل میں کیا ہوتا ہے؟ اس میں خرابیاں کیا ہیں؟ اور انہیں دور کیسے کرنا ہے؟۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ پی سی بی میں اب زیادہ پیسہ نہیں رہا تو وہ فوراً ہی آئی سی سی میں گھسنے کی راہیں ڈھونڈتا ہے اوروزیراعظم کی سرپرستی حاصل ہو تو اس میں گھس کر بڑی بڑی ٹیموں کے معاوضے طے کرنے لگتا ہے‘ جو کروڑوں اور اربوں میں ہوتے ہیں۔ میں کہانی بیان نہیں کررہا‘ پاکستان میں واقعی ایسا ہورہا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ آئی سی سی میں جانے کے بعد بھی‘ پی سی بی کا کنٹرول بھی نہیں چھوڑا جاتا۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ پی سی بی کی میٹنگوں میں بیٹھ کر بھی احکامات دئیے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے فیصلے وزیراعظم کا نمائندہ کرتا ہے اور بورڈ کا چیئرمین‘میڈیا کے سامنے فریادیں کرتا نظر آتا ہے کہ میرے تو اختیار میں ہی کچھ نہیں۔ہماری کرکٹ‘آسمانوں سے گر کے زمین پر ایڑیاں رگڑتی نظر آ رہی ہے اور ہم کسی کا کچھ نہیں کر سکتے۔پارلیمنٹ میں بھی اگر کوئی کرکٹ کی زبوں حالی پر آواز اٹھاتا ہے تو اگلے دن وہ آواز سنائی ہی نہیں دیتی۔
یہ تو کھیل کی باتیں ہیں۔ روز مرہ ضروریات کی اشیا پر ہر نئے دن ‘قیمتیں کسی نہ کسی بہانے بڑھا دی جاتی ہیں‘قلت پیدا کر دی جاتی ہے لیکن صوبائی اور قومی اسمبلی میں عوام کی تکالیف پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا اور اٹھائے بھی کیوں؟ ہر کسی کو‘ کسی نہ کسی راستے سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔اصل میں اب حکومتیں نہیں''مافیاز‘‘ ہیں جوہر سطح پر گٹھ جوڑ کر کے عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالتے ہیں۔تنگ آکر کوئی طبقہ احتجاج کرتا ہے تو اسے ایسا سبق سکھایا جاتا ہے اور ردِعمل میں ایسی اجتماعی سزائیں دی جاتی ہیں کہ آواز اٹھانے والوں کے عزیز و اقارب بھی کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں کہ وہ آئندہ احتجاجی آواز نہیں اٹھائیں گے۔ جس ملک میں پولیس‘ اندھوں پر تشددکرتی ہو۔ ڈاکٹرز اور نرسیں سردیوں کی راتوں میں‘ سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے ٹھٹھرتے ہوں۔ پنشنرزگرمی اور دھوپ میں دھکے کھاتے ہوئے ‘ بے ہوش ہو جاتے ہوں اور ان کی پکار پر کوئی کان دھرنے والا نہ ہو‘ ان کی آواز میڈیا کے ذریعے توکہیں سنائی دے جاتی ہے‘ ورنہ یہ نام نہاد اسمبلیاں تو خدا جانتا ہے‘ کس کی نمائندگی کرنے کے لئے بیٹھتی ہیں؟ان میں کسی غریب کے لئے آواز نہیں اٹھتی۔بچوں کی دوائیں ہضم کرنے والوں کی کارستانیوں کا تذکرہ تک نہیں ہوتا۔ہر طرف مظلوموں اور مجبوروں کی کراہیں اور فریادیں سنائی دیتی ہیں‘ مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔یہ ہے وہ جمہوریت‘ جس کے لئے ہمارے عوام نے طویل قربانیاں دی ہیں۔ ووٹ کا حق بحال کرایا ہے مگر سوداگروں نے جمہوریت کو خرید کر‘اقتدار پر ایسے پنجے گاڑے ہیں کہ غیر جمہوری زمانے میں‘ کوئی نہ کوئی فریاد سن لیا کرتا تھا‘ا ب کس کو سنا ئی جائے؟
جن لوگوں کو اسمبلیوں کے اندر‘ عوام کی آواز اٹھانا چاہئے ‘وہ تو اپنی قیمتیں لگا کر‘ مزے اڑاتے ہیں۔ حکومت کے خلاف بولنے کا مقصد‘عوامی مسائل‘ ارباب اقتدار تک پہنچانا نہیں ہوتا بلکہ اپنی قیمت لگوانا ہوتی ہے۔جب اپوزیشن کا کوئی رکن‘ بڑھ چڑھ کر حکومت پر تنقید کر رہا ہو تو سمجھ لیجئے کہ شام کو یا اگلے دن ‘کوئی نہ کوئی سودا ہو جائے گا۔ اس کے بعد احتجاج کرنے والے ممبر صاحب ‘ ایوان میں دکھائی ہی نہیں دیں گے۔حکمرانی یوں کی جاتی ہے ‘جیسے آئین اور قانون نامی چیزوں کا وجود ہی نہیں۔ فیصلے خاندانی سطح پر ہوتے ہیں۔ قومی سرمایہ خرچ کرنے کا اختیار بھی‘ اہل خاندان کے پاس ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ جائیدادوں کی خرید وفروخت بھی‘ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک حکمران خاندانوں کی ''تسلی‘‘ نہیں کرا دی جاتی۔وزیر‘انہی لوگوں کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں‘ جو انہیں خوش کرنے کے طریقے جانتے ہوں۔آپ یقیناً سوچیں گے‘ جب مجھے پتہ ہے کہ یہاں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی تو پھر یہ سب کچھ کیوں لکھ رہا ہوں؟ میں نے بھی کئی بار‘ یہی سوچا اور سوال کیا ہے کہ نقار خانے میں آواز اٹھانے کا کیا فائدہ؟ پھر یہ سوچ کر چپ ہو جاتا ہوں‘آواز نہ بھی اٹھائوں تو کیا فائدہ؟ ہم بے بسی کی اس حالت میں ہیں‘ جس سے نکالنے کے لئے نہ کسی کو دلچسپی ہے اور نہ ہمارے اندر نکلنے کی طاقت ہے۔بہت ہی پامال شعر ہے لیکن پامالی کی حالت میں یاد بھی یہی آتا ہے۔
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جائوں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے