تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     29-04-2015

انتخابات، جماعتیں اور سیاست

کسی بھی سیاسی جماعت کی طاقت، مقبولیت اور عوامی حمایت کی جانچ کرنے کا واحد طریقہ انتخابات ہیں۔ یہ وہ کسوٹی ہے جس پر سیاسی مقبولیت اور رجحانات کی پرکھ ہوتی ہے۔ کسی بھی سطح پر باقاعدگی کے ساتھ انتخابات کا انعقاد مقبولیت کے جھوٹے دعووں کو بے نقاب کرتے ہوئے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو آئینہ دکھا دیتا ہے۔ ان سے بعض اوقات پرانے رجحانات کا ہی تسلسل دکھائی دیتا ہے‘ جبکہ گاہے بگاہے کچھ حیران کن نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ این اے 246 میں ہونے والا حالیہ ضمنی انتخاب اور عام انتخابات کے دو سال بعد ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈز کے مقامی حکومتوں کے انتخابات نے پاکستانی سیاست میں ابھرتے ہوئے رجحانات کی عکاسی کرنے کے لیے ساتھ ساتھ پارٹی پوزیشنز کو بھی کسی قدر واضح کر دیا۔
انتخابی مسابقت کے ذریعے سیاسی جماعتوں کی سامنے آنے والی عوامی حمایت سے ان حلقوں میں جماعتوں کی کارکردگی کا پتہ چلتا ہے‘ تو دوسری طرف یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ انتخاب لڑنے والے امیدواروں کی ساکھ اور رجحانات کیا ہیں، نیز اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ہونے والے عام انتخابات سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ پاکستان میں ووٹ ڈالنے کا رجحان، سوچ اور فکر اور ان پر اثر انداز ہونے والے عوامل تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں؛ تاہم ایسا رجحان صرف قومی سطح پر ہی دکھائی دیتا ہے، مقامی طور پر سماجی طاقتیں اور روایتی طور پر پرانی وابستگیاں ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔
پاکستان میں کچھ عرصے سے یہ تاثر عام تھا کہ عوام کو جمہوری اقدار کی اُس طرح فہم نہیں جتنی ہونی چاہیے؛ تاہم یہ تاثر بتدریج زائل ہو رہا ہے۔ یقینا ابھی ہم خود کو مغربی جمہوریت کے معیار پر نہیں پرکھ سکتے لیکن ایک بات حوصلہ افزا ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جمود ختم ہو رہا ہے۔ درحقیقت انتخابات سے ہی رائے دھندگان کی تربیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت کو کس طرح استعمال کرتے ہوئے قوم، سیاسی استحکام اور عوامی بھلائی کے معروضات کو مثبت خطوط پر استوار کریں۔ جب عوام کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے ووٹ کی طاقت ہی ''ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘ ہے تو وہ اس کا استعمال سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ گزشتہ کچھ انتخابات میں طے پانے والے اور تبدیل ہونے رجحانات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان بطور ایک ملک جمہوری راستے پر بہت آگے بڑھ چکا ہے اور پاکستانی ووٹر بطور ذمہ دار شہری بہت بیدار مغز ہو چکے ہیں۔ اگر فوجی حکومتوں نے انتخابی عمل کو معطل نہ کیا ہوتا تو پاکستانی سیاست بلوغت کے مراحل طے کر چکی ہوتی۔
اس وقت پاکستانی سیاست میں بطور خاص تین رجحانات نمایاں ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی عوامی حمایت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ ایک ایسی جماعت تھی جسے نظریاتی خطوط پر استوار کیا گیا تھا۔ کبھی انتخابی سیاست میں یہ ایک پاور ہائوس تھی لیکن شاید کسی کو بھی گمان نہ تھا کہ یہ اتنی جلدی سیاسی منظر پر معدوم ہونے لگے گی۔ اس کے زوال پر سب سے اہم عوامی تبصرہ یہ سنائی دیا کہ ضیاالحق بھی اس جماعت، جبکہ یہ اپوزیشن میں تھی، کا جو نقصان نہ کر سکے وہ حکومت سنبھالنے پر بھٹو کے بعد آنے والے رہنمائوں نے کر دکھایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس جماعت کی تشکیل اور تقویت کا باعث بننے والا تصور اور عزم رخصت ہوا اور پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر ایسے افراد دکھائی دینے لگے جن کی پارٹی کے ساتھ نظریاتی وابستگی تو کوئی نہ تھی لیکن آصف علی زرداری کے ساتھ کاروباری اور دیگر روابط ضرور تھے۔ اب یہ جماعت سیاسی گھٹن کا شکار ہے۔ اس کا پنجاب سے عملی طور پر صفایا ہو چکا ہے‘ جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی یہ اپنا سیاسی بھرم قائم رکھنے کی کوشش میں ہاتھ پائوں مارتے دکھائی دیتی ہے۔ اسے سندھ میں حاصل سیاسی طاقت عوامی مقبولیت سے زیادہ مخصوص قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کی مرہون منت ہے کیونکہ یہ نظام ابھی ملک کے مخصوص حصوں، خاص طور پر اندرون سندھ، میں اپنی طاقت کے ساتھ عوامی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
دوسرا بڑھتا ہوا رجحان مذہبی سیاسی جماعتوں کا بتدریج زوال پذیر ہونا ہے۔ پاکستانی ووٹر نے بالغ نظری سے کام لے کر اُس تصور کی نفی کی کہ پاکستانی جمہوریت میں مذہبی جماعتیں بھی کامیاب ہو کر حکومت سنبھال سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا مشرق وسطیٰ کے ممالک میں ممکن ہو‘ جہاں آمریت عوامی رائے اور مین سٹریم سوچ کو کچل دیتی ہے‘ لیکن ان کے مقابلے میں پاکستان ایک مختلف معاشرہ رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں معاشرے میں اتنی سیاسی لچک ضرور موجود ہے جہاں مرکزی، سیکولر اور بائیں بازو کی جماعتیں اپنا اپنا موقف پیش کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ متعدد بار قائم ہونے والی فوجی حکومتوں، جن کا جھکائو مذہبی جماعتوں کی طرف رہا، کے باوجود یہاں ہر قسم کے نظریات کے فروغ کی آزادی ہے۔ عوام کے ذہن میں عمومی تاثر یہ ہے کہ مذہبی جماعتیں صرف سیاسی طاقت اور مالی وسائل کے حصول کے لیے مذہب کا نام استعمال کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ‘ زیادہ تر لوگ مذہب کے بارے اپنے تصورات رکھتے ہیں، چنانچہ اُنہیں اس حوالے سے جذباتی ضرور کیا جا سکتا ہے‘ لیکن اس جذباتی ابال سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔
تیسرا رجحان پشتون قوم پرستی کا زوال ہے۔ اے این پی پشتونوں کے استیصال کا نعرہ لگا کر اپنا بیانیہ آگے بڑھانے اور اسے سیاسی فائدے میں ڈھالنے میں بری طرح ناکام رہی۔ خیبر پختونخوا میں حکومت سنبھالنے کے بعد اس نے ثابت کیا کہ یہ بھی دیگر جماعتوں سے مختلف نہیں؛ چنانچہ فرض کریں اگر ماضی میں پشتونوں کا استیصال ہوتا رہا تھا‘ تو بھی اے این پی نے ان حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی؛ البتہ حکومت سنبھالنے کے بعد اس کا دامن بدعنوانی اور نااہلی کے داغوں سے آلودہ ضرور ہو گیا۔ دراصل اس کی طاقت اُس وقت تک تھی جب تک یہ حکومت میں نہیں تھی اور اُسے جذباتی نعرے لگانے کی عیاشی حاصل تھی، لیکن سیاست میں جمود نہیں ہوتا، چاہے یہ جذباتی سطح پر ہی کیوں نہ ہو۔ عوام کے جذبات کو ابھارا ضرور جا سکتا ہے لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں اور نہ ہی ہر بار۔
آخر میں، انتخابی جمہوریت، اگر لبرل نہ بھی ہو، عملیت پسند ضرور ہوتی ہے۔ اس کے ووٹرز بہت دیر تک جذباتی خطوط پر نہیں سوچتے۔ یہ پارٹیوں کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر جانچتے ہیں۔ اگر وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہیں تو عوام اپنا فیصلہ سنانے میں آزاد ہوتے ہیں۔ تاہم نسلی اور قبائلی معروضات اور شخصیت پرستی کو ابھی پاکستانی سیاست سے ''دیس نکالا ‘‘ملنا باقی ہے۔ اس کے علاوہ ابھی نئی جماعتیں استحکام کی منزل سے دور ہیں؛ چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ روایتی سیاسی جماعتوں کے دن گنے جا چکے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved