تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     29-04-2015

ایک شرط باز کا قصہ

لاس اینجلس سے شفیق بھی کراچی کے الیکشن پر مجھ سے شرط لگانا چاہتا تھا مگر میری بدقسمتی اور اس کی خوش قسمتی سے فون پر کسی طور رابطہ نہ ہو سکا۔ میں نے فون کیا تو ادھر سے جواب نہ آیا اور جب اس نے فون کیا تو میں اس کا فون نہ لے سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شرط نہ لگ سکی اور اس طرح شفیق ہارنے سے بچ گیا۔ شفیق سارا دن اپنے گھر میں بیٹھ کر پاکستانی چینل دیکھتا ہے۔ تجزیے کرتا ہے۔ اندازے لگاتا ہے اور نتیجے نکالتا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں الیکشن لڑتا رہا ہے۔ اب بذات خود سیاست سے ہزاروں کوس دور ہے مگر عادت نہیں جاتی۔ عموماً اس کے اندازے اور تجزیے سو فیصد نہیں تو نوے فیصد درست ہوتے ہیں اور جب وہ مجھ سے اپنے اندازوں کا ذکر کرتا ہے تو میں بھی نوے فیصد اس کے اندازوں اور تجزیوں سے اتفاق کرتا ہوں مگر جب بندہ سو فیصد چینلوں پر بھروسہ کرتا ہو تو یہی ہوتا ہے۔
رات شفیق کا فون آیا۔ وہ شرط ہارنے سے بچ جانے پر خوش تھا۔ مسئلہ شرط میں رقم کا نہیں‘ آبرو کا ہے۔ میں عام طور پر شرط بڑی معمولی لگاتا ہوں۔ مسئلہ شرط کی رقم نہیں بلکہ ہار جیت کے تصور کا ہے۔ اس سے بھی زیادہ مزہ شرط کی رقم کی وصولی میں ہے۔ اگر آسانی سے مل جائے تو مزہ ہی کرکرا ہو جاتا ہے۔ تہمینہ دولتانہ سے قریب چودہ سال پہلے ایک شرط لگی تھی۔ یہ شرط مبلغ دس روپے کی تھی۔ شرط کا اطلاق بلکہ نتیجہ قریب سات آٹھ سال بعد نکلا اور تہمینہ دولتانہ یہ شرط ہار گئیں۔ اب گزشتہ چھ سات سال سے میں اپنے یہ دس روپے وصول کرنے کی مہم میں لگا ہوا ہوں۔ جب بھی میں تہمینہ سے اپنے یہ دس روپے مانگتا ہوں وہ آگے سے ہنس کر دکھا دیتی ہیں۔ ایک بار تو میں نے تنگ آ کر یہ بھی کہہ دیا کہ آپ کی یہ ہنسی کسی طور بھی دس روپے کی نہیں ہے کہ اسے وصولی میں ڈال کر کھاتہ برابر کر لیا جائے مگر جواباً وہ کہنے لگیں کہ وہ ایک غریب عورت ہیں اور اتنی رقم افورڈ نہیں کر سکتیں۔ میں نے اس ''غریب‘‘ عورت کی مری اور لاہور میں اپنی معلومات کی حد تک معلوم جائیداد کا ذکر کیا تو وہ جواباً پھر ہنسنے لگ گئیں۔ ایک بار وہ ملتان ایئرپورٹ پر رقم ادا کرنے پر تیار بھی ہو گئیں مگر میرا شروع دن سے مطالبہ تھا کہ ادائیگی بذریعہ چیک ہوگی اور وہ چیک دینے سے صاف انکاری ہیں۔ گزشتہ سات سال سے جاری یہ ریکوری مہم تب تک جاری رہے گی جب تک رقم وصول نہیں ہو جاتی۔ شرط کا اصل حسن یہی ہے۔ ایک اور ریکوری مہم ابھی برطانیہ میں درپیش ہے جہاں انعام اللہ خان شرط ہارنے کے بعد شرط کے بارے میں فتوے جاری کرنے پر آگیا ہے۔ اسے یہ فتوے شرط لگاتے ہوئے یاد نہیں تھے مگر ہارنے کے بعد بڑی شدت سے یاد آ رہے ہیں۔
رابرٹ نوے سالہ امریکی تھا۔ رابرٹ گزشتہ دو اڑھائی عشروں سے ریٹائرڈ زندگی گزار رہا تھا۔ اسے ملنے والی پنشن اتنی معقول ضرور تھی کہ وہ مزے سے زندگی گزار لے۔ لیکن وہ اتنی بھی نہیں تھی کہ ہر ماہ بینک میں پیسے جمع ہوتے رہیں اور بڑھتے بڑھتے پانچ ہندسوں میں پہنچ جائیں۔ ایک دن اس کو ٹیکس آفس سے خط آیا کہ وہ اپنی آمدنی کے بارے میں ثبوت لے کر دفتر آ جائے کیونکہ ٹیکس آفیسر اس کی آمدنی اور اس کے ذرائع آمدنی کے بارے میں تفصیلات جاننا چاہتا ہے۔ اس کی پنشن اتنی نہیں کہ وہ پورا ماہ اس میں گزارہ کرنے کے بعد پنشن کی کل رقم سے بھی زیادہ کی بچت کر لے۔ اس کی بینک سٹیٹمنٹ یہ ظاہر کر رہی ہے کہ اس کی ہر ماہ بچت کی رقم اس کی ماہانہ پنشن کی رقم سے بھی زیادہ ہے۔ لہٰذا وہ اس اضافی آمدنی کے بارے میں اگر کوئی ثبوت ہیں تو لے کر آئے اور اپنے ٹیکس آفیسر کو اس سلسلے میں مطمئن کرے‘ بصورت دیگر اس کے خلاف ٹیکس ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی جو رقم کی ضبطی کے علاوہ قید کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں رابرٹ اگر اپنے ٹیکس کنسلٹنٹ کو ہمراہ لانا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔ اگر وہ اپنے دفاع کے لیے ٹیکس آفس نہ آیا تو اس کے خلاف یکطرفہ کارروائی شروع کردی جائے گی۔ خط ملنے کے اگلے روز رابرٹ اپنے ٹیکس کنسلٹنٹ کے ہمراہ ٹیکس آفس پہنچ گیا۔
اس کے نوجوان ٹیکس آفیسر نے اس کی بینک سٹیٹمنٹ اس کے سامنے رکھتے ہوئے سوال کیا کہ اس کی ماہانہ پنشن اتنی ہے اور اس نے بینک سٹیٹمنٹ پر نشان زدہ رقم پر انگلی رکھ کر کہا کہ یہ تو ہو گئی پنشن کی رقم جو ہر ماہ آتی ہے۔ باقی یہ رقوم کہاں سے آئی ہیں؟ ٹیکس آفیسر نے دیگر کافی ساری رقوم پر سرخ دائرے لگاتے ہوئے پوچھا۔ ٹیکس آفیسر کہنے لگا کہ اگر وہ اس دوران اپنے کنسلٹنٹ سے مدد یا مشورہ لینا چاہے تو لے سکتا ہے۔ رابرٹ کہنے لگا‘ ابھی اس کی نوبت نہیں آئی۔ وہ اپنا کیس خود بخوبی لڑ سکتا ہے۔ وہ کنسلٹنٹ کو تو محض اس لیے لایا ہے کہ اگر کوئی ایمرجنسی نوعیت کا مسئلہ ہو جائے تو وہ اس سے قانونی پہلو جان سکے وگرنہ اس کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں ہے۔ رابرٹ اپنے ٹیکس آفیسر کو کہنے لگا کہ وہ یہ اضافی رقم شرطوں سے حاصل کرتا ہے۔ وہ شرطیں لگاتا ہے اور جیتتا ہے۔ آفیسر کہنے لگا‘ کیا وہ ہارتا نہیں؟ رابرٹ کہنے لگا‘ میرا شرطیں لگانے کا ستر سالہ تجربہ ہے۔ میں بیس سال کی عمر سے شرطیں لگا رہا ہوں اور اب صرف جیتتا ہوں‘ ہارنا میری لغت میں شامل نہیں۔ آفیسر کہنے لگا‘ پھر لوگ تم سے شرط لگاتے ہی کیوں ہیں؟ جب انہیں علم ہے کہ وہ ہار جائیں گے تو پھر وہ اس سے باز کیوں نہیں آ جاتے؟ رابرٹ کہنے لگا‘ اس کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ میں شرط ہی اتنی حیران کن لگاتا ہوں کہ لوگ مجبور ہو جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ
میں عام طور پر نئے لوگوں سے شرط لگاتا ہوں۔ میری نوے سالہ عمر کو دیکھتے ہوئے جواں عمر افراد مجھ سے فوراً شرط لگا لیتے ہیں۔ انہیں اپنی سمجھداری‘ عقلمندی اور علم پر بڑا غرور اور مان ہوتا ہے۔ آفیسر کہنے لگا‘ تم کس قسم کی شرطیں لگاتے ہو؟ رابرٹ کہنے لگا‘ ہر قسم کی۔ مثلاً میں تم سے یہ شرط لگا سکتا ہوں کہ میں اپنی آنکھ کو دانت سے کاٹ سکتا ہوں۔ نوجوان ٹیکس آفیسر نے ایک لمحہ سوچا‘ پھر کہنے لگا یہ ناممکن ہے۔ رابرٹ کہنے لگا‘ ہم اس بات پر سو ڈالر کی شرط لگا لیتے ہیں۔ حساب کتاب ایک طرف رہ گیا۔ شرط لگ گئی۔ رابرٹ نے سو ڈالر نکال کر میز پر رکھ دیے۔ آفیسر نے بھی سو ڈالر نکال کر سامنے رکھ دیے۔ رابرٹ نے انگلی سے دبائو ڈال کر اپنی بائیں آنکھ نکالی۔ یہ مصنوعی آنکھ تھی۔ انگلیوں سے پکڑ کر دانتوں میں رکھا۔ اسے کاٹا اور واپس ڈھیلے میں جما لیا۔ آفیسر بڑا شرمندہ ہوا‘ اور کھسیانا سا ہو کر بیٹھ گیا۔ پھر کہنے لگا‘ تم ایک ہی آدمی کو دوبارہ شرط پر کیسے مجبور کرتے ہو؟ رابرٹ کہنے لگا‘ میں اپنی دوسری آنکھ کو بھی دانت سے کاٹ سکتا ہوں۔ آفیسر نے دل میں سوچا کہ یہ دونوں آنکھوں سے محروم تو نہیں ہو سکتا؛ تاہم احتیاطاً اس نے رابرٹ کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ کر کے سات انگلیاں دکھائیں اور کہنے لگا‘ یہ کتنی انگلیاں ہیں؟ رابرٹ بولا: سات۔ اب؟ نو۔ اور اب کتنی انگلیاں ہیں؟ آفیسر نے ایک ہاتھ کی دو اور دوسرے ہاتھ کی ایک انگلی کھڑی کر کے پوچھا۔ تین۔ اب آفیسر کو یقین ہو گیا کہ کم از کم رابرٹ کی دائیں آنکھ اصلی ہے۔
(باقی صفحہ 13پر)
بقیہ: خالد مسعود
آفیسر نے سو ڈالر جیب سے نکالے اور میز پر رکھ کر کہا‘ اب شرط لگائو۔ رابرٹ نے سو ڈالر اپنی جیب سے نکال کر میز پر رکھے۔ اپنی مصنوعی بتیسی نکالی اور دونوں ہاتھوں سے اس بتیسی سے اپنی دائیں آنکھ پر کاٹا اور آفیسر کے سو ڈالر اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیے۔ پھر وہ آفیسر سے کہنے لگا‘ میں اس طرح لوگوں کو شرط لگانے پر مجبور کرتا ہوں۔ پھر وہ آفیسر سے مخاطب ہو کر بولا۔ میں اس سے بھی دلچسپ شرط لگا سکتا ہوں۔ دو سو ڈالر کی۔ تم یہ شرط جیت کر اپنا نقصان پورا کر سکتے ہو۔ تمہارے پیچھے وہ دور دیوار پر گیس کے اخراج کا سوراخ ہے۔ یہ سوراخ چھ انچ قطر کا ہے اور یہاں سے کم از کم پندرہ فٹ دور ہے۔ میں یہاں سے بیٹھا بیٹھا تھوکوں گا اور میری تھوک اس سوراخ سے باہر جائے گی۔ نہ اِدھر گرے گی نہ اُدھر۔ آفیسر نے گھوم کر سوراخ کا جائزہ لیا۔ بوڑھے رابرٹ کو دیکھا پھر جیب سے دو سو ڈالر نکالے اور میز پر رکھ دیے۔ رابرٹ نے منہ کو دو تین بار بھینچا اور منہ میں تھوک اکٹھی کر کے زور سے سامنے پھینکی۔ تھوک سوراخ تک کیا پہنچتی سامنے بیٹھے ٹیکس آفیسر کے منہ پر گر گئی۔ رابرٹ نے آفیسر سے معذرت کی۔ آفیسر کہنے لگا‘ کوئی بات نہیں۔ پھر اٹھ کر وہ باتھ روم گیا۔ منہ دھو کر واپس آیا اور ہنستے ہوئے کہنے لگا‘ مسٹر رابرٹ بالآخر میں شرط جیت گیا۔ آپ کہتے تھے کہ آپ کبھی نہیں ہارے۔ رابرٹ نے مسکرا کر پہلے ٹیکس آفیسر کو دیکھا اور پھر اپے ٹیکس کنسلٹنٹ کو دیکھا۔ پھر اپنے دو سو ڈالر ٹیکس آفیسر کے ہاتھ میں پکڑا دیے۔
اسی اثنا میں ٹیکس کنسلٹنٹ کا منہ اتر چکا تھا۔ اس نے جیب سے ہزار ڈالر نکالے اور رابرٹ کو پکڑا دیے۔ پھر ٹیکس آفیسر کی طرف گھوما اور کہنے لگا۔ رابرٹ مجھ سے ہزار ڈالر کی شرط لگا کر آیا تھا کہ وہ ٹیکس آفیسر کے منہ پر تھوکے گا اور وہ اس بات پر ناراض بھی نہیں ہوگا۔ میں ہزار ڈالر کی شرط ہار گیا ہوں۔ رابرٹ ٹیکس آفیسر کی طرف گھوما اور کہنے لگا میں اس طرح کی شرطیں لگاتا ہوں اور جیتتا ہوں۔ یہ ٹیکس کنسلٹنٹ مجھ سے پچیسویں شرط ہارا ہے۔ ہر بار اس امید پر شرط لگاتا ہے کہ اس بار تو ضرور جیت جائوں گا۔ مگر...
اگر رابرٹ واقعی کوئی کریکٹر ہے تو میرا دل کرتا ہے کہ اس کی شاگردی کی جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved