کنٹونمنٹ انتخابات میں عوام نے ن لیگ کی حکومت پر اعتماد کا اظہار کردیا... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''کنٹونمنٹ انتخابات میں عوام نے ن لیگ کی حکومت پر اعتماد کا اظہار کردیا ہے‘‘ حالانکہ وہ ہماری ظاہر اور درپردہ کارگزاریوں سے اچھی طرح سے واقف ہیں؛ تاہم ایک وقت آتا ہے کہ اچھے بھلے آدمی کی مت ماری جاتی ہے‘ ہیں جی؟ مزید یہ کہ ہم نے خود یہ انتخابات بہت بھاری دل کے ساتھ قبول کیے ہیں کیونکہ اس سے عام بلدیاتی انتخابات کی راہیں بھی کھل جائیں گی اور ایسا لگتا ہے کہ یہ قیامت بھی ہمارے سروں پر ٹوٹنے والی ہے جس سے ہمارے معزز ارکانِ اسمبلی کو اپنے بہت سے اختیارات سے ہاتھ دھونے پڑیں گے حالانکہ ان کے ہاتھوں کا میل ہی اتنا زیادہ ہے کہ وہ انہیں ہر وقت دھونے میں مصروف رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عوامی توقعات پر پورا اترنے کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں‘‘ اور کھانے پینے کا بھی کوئی ہوش نہیں رہا چنانچہ دن کا کھانا رات کو کھاتے ہیں اور رات کا اگلی دوپہر کو۔ آپ اگلے روز لندن سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی کی مقبولیت کم ہونے
کی بات نہیں مانتا... زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی کی مقبولیت کم ہونے کی بات نہیں مانتا‘‘ کیونکہ جس جماعت میں میرے علاوہ سید یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ منظور وٹو اور رحمن ملک جیسے برگزیدہ حضرات موجود ہوں اس کی مقبولیت کیونکر کم ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک بھر میں جلسے کروں گا‘‘ اور اس دوران غیظ و غضب سے بھرے کارکنوں کے اشتعال سے بچنے کے لیے بھی خصوصی سکیورٹی کے انتظامات کر لیے گئے ہیں اور خود کامیابی سے بھاگ نکلنے کے لیے عمدہ قسم کے جاگرز بھی خرید لیے گئے ہیں کیونکہ صحت کو چُست و چالاک رکھنے کے لیے ڈاکٹر نے پہلے ہی روزانہ دوڑ لگانے کی تاکید کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''قائم علی شاہ اور میں حکومت اور نوجون پارٹی کو چلائیں گے‘‘ جبکہ ریلیوں اور احتجاجی جلسوں کے دوران ڈنڈے کھانے کے لیے نوجوانوں سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے اور حکومت تو ہمارے گھرکی لونڈی ہے۔ آپ اگلے روز لیاری میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
ملک میں نئے صوبوں کا مطالبہ
ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں بہتر انتظامات کے لیے 20 صوبے بنائے جائیں جبکہ کراچی‘ حیدرآباد اور میرپور کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے۔ یاد رہے کہ یہ مطالبہ
انہوں نے پہلی بار نہیں کیا اور نہ ہی صرف کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے لیے‘ بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ پنجاب میں بھی 5 صوبے بنائے جائیں۔ اس مطالبے کی جتنی بھی تائید کی جائے کم ہے کیونکہ یہ ایک ایسا تریاق ہے جس سے اُس گلے سڑے نظام سے نجات مل سکتی ہے جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ اس مطالبے کی سب سے زیادہ مخالفت پنجاب کے حکمرانوں کی طرف سے کی گئی ہے جو ملک کے سب سے بڑے صوبے پر دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں‘ حتیٰ کہ انہوں نے لاہور ہی کو پنجاب قرار دے رکھا ہے اور جنوبی پنجاب سمیت‘ صوبے کے باقی حصوں کا باقاعدہ استحصال کیا جا رہا ہے اور ان کے حصے کے فنڈز بھی لاہور ہی پر بے دریغ خرچ کیے جا رہے ہیں جس سے پیدا ہونے والا بے دلی اور مایوسی کا پھوڑا کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ یہ مافیا اختیارات کی تقسیم کا اس قدر دشمن واقع ہوا ہے کہ اپنے بدنامِ زمانہ حرص و طمع کی تسکین کے لیے سالہا سال سے بلدیاتی انتخابات کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ بنا کھڑا ہے اور جس نے جنرل مشرف کے دیئے ہوئے بے مثال بلدیاتی نظام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے‘ جس سے بہت سارے اختیارات نچلی سطح تک پہنچ جاتے تھے اور لوگوں کو اپنے مسائل نہ صرف خود حل
کرنے کا موقع میسر آ رہا تھا بلکہ اس نظام نے ہماری بدنامِ زمانہ بیوروکریسی کو بھی ایک طرح سے لگام دے رکھی تھی‘ لیکن تمام اختیارات اپنی من پسند بیوروکریسی اور ارکان اسمبلی کے ہاتھوں میں مرکوز رکھنے کے لیے اس خوبصورت نظام کو نہ صرف ناکام بنا دیا گیا بلکہ یہ حکمران مستقبل میں بھی اس کے راستے کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں؛ چنانچہ سرائیکی صوبہ سمیت مرکزی پنجاب سے بیزار دیگر علاقے بھی اس شکنجے سے آزاد ہونے کے لیے حال پکار کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی اور اپنے بیشتر اہم مسائل کے حل کے لیے انہیں لاہور کی راہ دیکھنی پڑتی ہے جبکہ صوبہ بننے کی صورت میں ان کے تمام معاملات مقامی سطح پر ہی حل ہو سکتے ہیں۔ دراصل نئے صوبے بننے سے ان کی اس بادشاہت میں فرق پڑے گا جو اس وقت ملک کے سب سے بڑے صوبے میں کارفرما ہے اور بجا طور پر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی سلطنت نئے صوبے بننے سے صرف پانچویں حصے تک محدود ہو کر رہ جائے گی!
آج کا مقطع
کیا کہیں عمر اتنی تھی محبت کی، ظفرؔ
گزرے اس میں بھی کئی ایک زمانے خالی