تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     30-04-2015

چھوٹی اور بڑی خبریں

روشنیوں کے شہر میں جہاں کہیں مسافر گیا‘ اس نے دیکھا کہ اندیشوں کے سنپولیے اسی طرح رینگتے ہیں۔ شہر ابھی تک شش و پنج میں ہے؛ اگرچہ رہائی کی آرزو میں پھڑپھڑاتا ہے ؎
نیند سے گو نماز بہتر ہے
اثرِ خواب ہے اذاں میں ابھی
246 کے الیکشن سے پہلے بھی ایم کیو ایم کے کارکن ووٹ مانگنے جایا کرتے مگر ایسے بے تاب بھی نہیں۔ اب کی بار لیڈروں کی ایک پوری کھیپ میدان میں اتاری گئی۔ علاقے بانٹ کر‘ ایم این اے‘ ایم پی اے اور دوسرے رہنمائوں میں بانٹ دیئے گئے۔ ہر کوئی جواب دہ تھا اور براہ راست الطاف حسین کو۔ یہ تاثر غلط ہے کہ ایم کیو ایم اب بھی اتنی ہی مقبول ہے۔ ایک تعزیت کے لیے کراچی گیا تھا۔ دھوپ سے بھرے راستوں پر مٹر گشت کا ارادہ نہ تھا۔ مگر خالی ہاتھ جانے کو جی نہ چاہا ؎
کورے کاغذ کی سپیدی پہ ترس آتا ہے
نامہ شوق میں لکھنے کو رہا کچھ بھی نہیں
دو کروڑ تیس لاکھ آبادی کے شہر میں ہر حلقہ دوسرے سے مختلف ہے۔ کہیں ایک جماعت زیادہ مقبول ہے تو کہیں دوسری۔ ایم کیو ایم اب بھی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ تحریک انصاف پیہم پر پرزے نکال رہی ہے۔ اس کی تنظیم موثر ہوتی اور جماعت اسلامی سے بروقت معاہدہ ہو جاتا تو تین گنا ووٹ لے جاتی۔ عمران خان کتنا ہی خراج تحسین پیش کریں‘ امیدوار نسبتاً کمزور تھا اور بلٹ پروف گاڑی میں سوار‘ جو اس مہم کے لیے خریدی گئی۔ پارٹی کے مقامی لیڈروں نے اس کی کچھ زیادہ مدد نہ کی۔ ایک فیصل واڈا تھے مگر ان کا حال بھی یہ تھا کہ ایک جیسی چار گاڑیوں میں سوار ہو کر حلقے میں تشریف لے جاتے جو محافظوں سے بھری ہوتیں۔
ایم کیو ایم کے لیے یہ زندگی اور موت کا سوال تھا۔ اس وقت جب الطاف حسین پر سنگین مقدمات قائم ہیں اور پارٹی دھڑوں میں بٹی ہے‘ ناکامی کا مطلب ڈھلوان کا سفر ہوتا‘ جس کے اختتام پر برسوں کے زخم خوردہ حریف بھالے اٹھائے کھڑے ہوتے۔ بقا کی انسانی جبلت بہت طاقتور ہے۔ موت کا اندیشہ ہو تو ساری توانائی سمٹ کر یکجا ہو جاتی ہے اور حسیات تیزی سے کام کرنے لگتی ہیں۔ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے کہ تمام زندگیوں کو ہم نے بخل جان پر جمع کیا۔ آدمی ہی نہیں‘ حیات کو خطرے میں پا کر بلی بھی شیر ہو جایا کرتی ہے۔ یہ ایم کیو ایم کا سب سے مضبوط حلقہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے لاڑکانہ اور شریف خاندان کی گوالمنڈی کی طرح۔ اسی لیے نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے مقابلے سے احتراز کیا۔ اگرچہ پوری طرح تصدیق نہ ہو سکی مگر ذمہ دار لوگ یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے خوف سے قائد اعظم ثانی اور ایشیا کے نیلسن منڈیلا نے اپنے لوگوں کو متحدہ کی حمایت کا اشارہ دیا۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ڈراتے زیادہ اور یلغار کم کرتے ہیں۔ ماریں بھی کیا کہ لشکر میں صف بندی ہی نہیں۔
میرِ سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف
آہ! وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
حکومت کو گرانے کی ایسی بے تابی‘ ان پر سوار رہتی ہے کہ پارٹی کی تنظیم کے لیے فرصت ہی نہیں پاتے۔ وہ ہماری قومی سیاست کے شاہد آفریدی بنتے جا رہے ہیں۔
کراچی میں ایم کیو ایم کا متبادل تحریک انصاف کے سوا کوئی نہیں‘ جماعت اسلامی مضمحل ہے۔ نون لیگ ہرچند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی تحلیل ہوتی جا رہی ہے۔ شرجیل میمن کا ذکر ضروری ہے‘ جن کے بارے میں ایک صوبائی وزیر نے وزیر اعلیٰ کو ایک سنسنی خیز خط لکھا ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ حریف ان کو پارٹی سے نکالنے یا کم از کم وزارت سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مہم کی کامیابی کا پورا امکان ہے۔ سنگین ترین الزام یہ ہے کہ کارکنوں اور سرکاری افسروں کو وہ زرداری صاحب کا نام لے کر ڈراتے ہیں۔ ذاتی احکام کو ان کی فرمائش بتایا کرتے ہیں۔ دوسروں سے بھی بہت کچھ منسوب کر دیتے ہیں‘ مثلاً شہنشاہ بابر غوری کے شادی ہال گرائے تو پارٹی کی قیادت کو یہ بتایا کہ رینجرز کے ڈی جی ذمہ دار ہیں۔ انہیں خبر ہی نہ تھی؛ چنانچہ زرداری صاحب اور دوسرے لوگوں کو انہوں نے مطلع کر دیا کہ اس معاملے سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ بابر بادشاہ لوٹ کر آ سکتے تو شاید شہنشاہ شرجیل کے مقابل آتے۔ صولت مرزا کے بیان کے بعد یہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔ شہنشاہ ہمایوں کو اب صفویوں کی پناہ میں رہنا ہو گا اور شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ شاید اب وہ کراچی کے ساحل کا کبھی نظارہ نہ کر سکیں۔ روپیہ ان کے پاس اتنا ہے کہ خواہ کراچی کا سارا کاروبار ختم ہو جائے‘ کوئی خاص فرق نہ پڑے گا ؎
منعم بہ کوہ و دشت و بیاباں غریب نیست
ہر جا کہ رفت خیمہ زد و بارگاہ ساخت
(منعم کوہ و بیابان میں بھی مسافر نہیں ہوتا۔ جہاں جاتا‘ خیمے گاڑتا اور بارگاہ آباد کرتا ہے)
زرداری صاحب گورنر سندھ کی خدمت میں کیوں حاضر ہوئے اور اتنا زور لگا کر ڈیڑھ دو منٹ مسکراتے کیوں دکھائی دیئے؟ اس لیے کہ پارٹی کمزور ہو چکی‘ حتیٰ کہ اندرون سندھ بھی۔ نواز شریف سرپرستی نہ کریں تو ذوالفقار مرزا سے نمٹنا بھی مشکل ہو جائے‘ جن کے اکثر الزامات درست‘ ساکھ کمزور اور حکمت عملی کمزور تر ہے۔ زرداری صاحب نے حال ہی میں ایک نئے ''جرنیل‘‘ کو ذمہ داری سونپی کہ لیاری کے جنگجوئوں کو از سر نو منظم کریں۔ شہر میں امن و امان قائم کرنے کے ذمہ داروں کا خیال ہے کہ زرداری صاحب ایک سنگین خطرہ بن کے ابھر سکتے ہیں۔ مجھ ناچیز کی رائے میں یہ تاثر درست نہیں۔ وہ شعلے کی طرح بھڑکتے ہیں اور جھاگ کی طرح بیٹھ جایا کرتے ہیں۔ تھوڑی سی تفصیل انشاء اللہ‘ جمعہ کو شام سات بجے دنیا ٹی وی کے پروگرام میں۔ ''خبر یہ ہے‘‘، اس پروگرام کا نام ہے۔
لاہور کے ہوائی اڈے پر مفتی منیب الرحمن صاحب سے اتفاقاً ملاقات ہوئی۔ فرمایا: پولیس کی حراست میں جان ہار دینے والے طارق محبوب کے بارے میں آپ کی اطلاع درست نہیں کہ بھتہ وصول کیا کرتا یا کرائے کا قاتل تھا۔ مفتی صاحب! میں نے تصدیق کر لی ہے۔ میری معلومات درست تھیں۔ مزید یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے دو معززین‘ باپ بیٹا‘ 67 سالہ مفتی اقبال اور صاحبزادے اطہر رضا گرفتار ہو چکے۔ وہ بھی بھتہ خور ہیں۔ صرف ایک ادارے‘ سپنا بیوٹی پارلر سے‘ جس کی بہت سی شاخیں ہیں‘ مبینہ طور پر 87 لاکھ روپے وصول کیے۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو انہیں انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کرنے کی تیاری ہے۔ طریق واردات ان کا یہ تھا کہ بھتے کے لیے خود فون کرتے‘ پھر کسی کو بھیج کر وصول فرماتے اور بعض اوقات خود ہی ''مصالحت کنندہ‘‘ کا کردار بھی ادا کرتے۔ بھتہ وصولی میں 80 فیصد کمی آئی ہے مگر مکمل انسداد میں وقت لگے گا۔ ایک اطلاع کے مطابق جنرل راحیل شریف کل خاموشی سے کراچی پہنچے کہ آپریشن کا جائزہ لیں۔ ہولناک انکشاف یہ ہے کہ کراچی کا ایک مشہور عالم مدرسہ اور سندھ اسمبلی کی ایک ممتاز شخصیت کے علاوہ‘ حکمران پیپلز پارٹی کے کئی کرتا دھرتا بھی اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ بھتے میں کمی 243 گرفتاریوں اور غیر قانونی سموں کی بندش کے طفیل ہے۔ متعدد وارداتوں میں ملوث ایک مشہور مجرم کو حکمران پارٹی کی سرپرستی حاصل ہے۔ منگل کو جب عابد بھائیو کو جنگلات کے لیے وزیراعلیٰ کا مشیر بنایا جا رہا تھا تو رینجرز والے ان کے ٹھکانوں پر چھاپے مار رہے تھے۔ ان پر بھی اغوا برائے تاوان کے الزامات ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں لیاری کے تینوں ٹکٹ عزیر بلوچ کی سفارش پہ دیئے گئے۔ پوچھا گیا: دبئی سے اب تک وہ لایا کیوں نہ گیا؟ جواب ملا: چودھری نثار علی خان سے سوال کیجیے۔
... تو لیاری کا جلسہ! سامعین ٹھٹھہ تک سے لائے گئے‘ اس کے باوجود دس ہزار سے زیادہ نہیں تھے۔ بعض اہم لیڈر تک شریک نہ ہوئے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ سبین محمود کے قاتلوں کی گرفتاری جلد ہی ممکن ہے۔ اس سے بھی اچھی یہ کہ آپریشن پوری شدت سے جاری رہے گا۔ بری یہ کہ دلوں سے خوف ابھی تک نہیں نکلا۔ جرائم کی جڑیں گہری بہت ہیں۔
روشنیوں کے شہر میں جہاں کہیں مسافر گیا‘ اس نے دیکھا کہ اندیشوں کے سنپولیے اسی طرح رینگتے ہیں۔ شہر ابھی تک شش و پنج میں ہے؛ اگرچہ رہائی کی آرزو میں پھڑپھڑاتا ہے ؎
نیند سے گو نماز بہتر ہے
اثرِ خواب ہے اذاں میں ابھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved