ہر سال یکم مئی مزدوروں کے بین الاقوامی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ویسے تو سال میں بیشتر دن کسی نہ کسی ایشو پر منائے جاتے ہیں لیکن یومِ مئی صرف ایک دن نہیں ہے، ایک تجدید عہد ہے۔۔۔۔۔ جدوجہد جاری رکھنے کا وچن۔ معاشرے کی طبقاتی تفریق کے خلاف ایک احتجاج ہے۔ یوم مئی کی اہمیت دوسرے ایام سے اس لیے بھی بالاتر ہے کہ اس کے پیام کی روح اس طبقاتی جنگ کی پکار ہے جس میں محنت کش طبقے کی آخری فتح نسل انسان کی ہزاروں سال کی محکومی، محرومی، ذلت، رسوائی اور جبرواستحصال کے خاتمے کی ضامن ہو گی۔ یوم مئی آج کے اس انسانی سماج کے اصل تضادات کو اجاگر کرتا ہے جو مزدور اور سرمایہ دار، دہقان اور جاگیردار، سامراج اور مظلوم عوام، خواتین اور مردانہ جبر پر مبنی سماجی رشتوں کے ٹکرائو پر مشتمل ہیں۔
یوم مئی محنت کش عوام کی یکجہتی اور جڑت میں دراڑیں ڈالنے والے رنگ، نسل، قوم، ملک، وطن، مذہب، فرقے اور ماضی کے دیگر تعصبات کو مسترد کرنے کا اعلان ہے۔ ان تعصبات کی تفریقوں کو شکست ِ فاش دیے بغیر طبقاتی جنگ جیتی نہیں جاسکتی، نسلِ انسان جن بیڑیوں میں جکڑی ہوئی ہے ان کو توڑا نہیں جاسکتا ۔ یوم مئی اس عظیم مقصد کے لیے ہر رکاوٹ، ہر دھوکے، ہر دیوار کو مسمار کرنے کا پیغام ہے۔ یہ دن شکاگو میں مئی1886ء میں ریاستی درندگی سے لہومیں ڈبو دیے جانے والے مزدوروں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں ہر سال یکم مئی کو منائے جانے کا فیصلہ جولائی 1889ء میں دوسری انٹرنیشنل کے پیرس میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کیا گیا تھا۔ مزدوروں کی اس انٹرنیشنل پارٹی کا روحِ رواں کارل مارکس کا عمر بھر کا رفیق فریڈرک اینگلز ہی تھا۔ لیکن یوم مئی محض ایک تہوار نہیں ہے۔ اس کا پیام ایک چیلنج بن کر پرولتاریہ کے سامنے آج بھی کھڑا ہے۔ یہ محض کسی مظاہرے یا احتجاج کا پیام ہی نہیں، ایک ناقابلِ مصالحت طبقاتی جنگ کی پکار ہے۔ ایک راستے اور سوشلسٹ انقلاب کی حتمی منزل کو عیاں کرتا ہے۔
یہ طبقاتی جدوجہد دنیا کے ہر خطے، ہر دیس میں موجود ہے۔ کبھی یہ ماند پڑتی ہے تو کبھی بھڑک اٹھتی ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 129واں یوم مزدور سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے زوال کی وجہ سے پیدا ہونے والی ایک انتہائی پر انتشار کیفیت میں منایا جا رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری، بجلی اور گیس کی بندش کے دورانیے میں اضافے کے ساتھ نجکاری اور ڈائون سائزنگ جیسے محنت کش دشمن اقدامات میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ محنت کشوں کی حاصل کردہ مراعات میں کٹوتیوں کی پالیسیوں کے ذریعے معاشی قتل عام کے ساتھ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ، فرقہ وارانہ قتل عام اور اقلیتوں پر جارحانہ حملوں کی بھرمار میں غریبوں کا لہو پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ حکمران طبقات کے تمام دھڑے اپنی لوٹ مار میں اضافے کی خاطر اس ملک کو جہنم زار بناتے جا رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی جو کبھی محنت کشوں کی نمائندہ ہونے کی دعویدار ہوتی تھی، اب اس کی قیادت بھی موقع پرستی، بدعنوانی اور نظریاتی انحراف میں غرق ہو کر حکمران طبقے کا حصہ بن چکی ہے۔ تمام بڑی ٹریڈ یونینوں اور فیڈریشنوں کی قیادتیں بھی اس صورت حال میں انتہائی تذبذب اور پراگندگی کا شکار ہو کر کوئی حقیقی لڑائی لڑنے سے کترا رہی ہیں۔ پاکستان کی مزدور تحریک ایک انتہائی سنجیدہ جدوجہد کی ضرورت کے وقت انتہائی گومگو اور ٹوٹ پھوٹ کی کیفیت سے دو چار ہے۔ لیکن مزدور تحریک کی یہ کیفیت اپنے اندر ایک تضاد رکھتی ہے۔ ٹریڈ یونین قائدین میں جتنی ہچکچاہٹ اور تذبذب پایا جاتا ہے، محنت کشوں کی عام پرتوں میں حتمی لڑائی لڑنے کا اتنا ہی جذبہ اور جستجو موجود ہے۔ اس تمام تر کیفیت میں ہمیں یوم مزدور کا بطور ایک تاریخی روایت اور مستقبل کی جدوجہد کے خطوط استوار کرنے والے دن کی حیثیت سے ایک تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
اگر129سال پہلے شہدائے شکاگو کی قربانیوں اور اس کے بعد دنیا بھر میں مزدوروں کی جدوجہد کے ذریعے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کا قانونی حق حاصل کر لیا گیا تھا تو آج کیا کیفیت ہے؟ آٹھ گھنٹے اوقات کار کا اطلاق آج کسی ادارے میں ہوتا ہے؟سوائے گنے چنے دو چار سرکاری اداروں کے ۔ دوسری جانب نجکاری جیسی وحشیانہ پالیسی کے ذریعے جب تمام ادارے ہی بیچے جا رہے ہیں تو نہ صرف اوقات کار بڑھ جاتے ہیں بلکہ ڈائون سائزنگ اور لبرلائزیشن کے نام پر مستقل ملازمتیں اور دیگر مراعات کا بھی خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ نجی شعبے میں اس قسم کی مراعات کا تصور بھی موجود نہیں ہے۔ اس لیے جو چھوٹی مراعات ہم اپنی جدوجہد سے حاصل کرتے ہیں، ان کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تحفظ صرف اسی صورت ممکن ہے جب محنت کش مزید مراعات حاصل کرنے کے لیے سرمائے کے خلاف لڑائی جاری رکھیں اور مزدور راج قائم کرتے ہوئے ذرائع پیداوار کو اشتراکی ملکیت میں لیں۔
واپڈا کی نجکاری کے خلاف پہلے ہی ملک بھر میں ایک احتجاجی تحریک کا آغاز ہو چکا ہے۔ واپڈا کی نجکاری کو روکنے کی تحریک کو عمومی طور پر نجکاری کی پالیسی کے خاتمے کی تحریک بنانے کے لیے اس تحریک کو دیگر تمام اداروں کے محنت کشوں تک لے جانا پڑے گا۔ وہ تمام ادارے جو نجکاری کے ذریعے بیچے جانے والے اداروں کی فہرست میں ہیں، ان کی اور واپڈا کے محنت کشوں کی جدوجہد بنیادی طور پر ایک ہی جدوجہد ہے۔ حکمران محنت کشوں کو مختلف اداروں میں تقسیم کر کے ان پر الگ الگ حملے کرتے ہیں۔ ایک ادارے کو بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر اس ادارے کے محنت کش مزاحمت کرتے ہیں تو اس ادارے کی نجکاری عارضی طور پر ملتوی کر کے کسی دوسرے ادارے کو بیچنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ کسی بھی ادارے کی نجکاری کے عمل میں التوا ایک انتہائی عارضی کامیابی ہے، اس لیے کہ حکمران آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے جو قرض لے کر اس ملک کی معیشت کو چلاتے ہیں ان کی بنیادی شرط یہی ہے کہ ان تمام اداروں کو بیچا جائے۔ لہٰذا نجکاری حکمرانوں کی ایک مستقل پالیسی ہے جس کے خلاف تمام اداروں کے محنت کشوں کو متحد ہو کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔حکمرانوں کی طرف سے محنت کشوں کو مختلف پیکجز کا لالچ دے
کر نجکاری کو ''دلکش‘‘ اور قابل قبول بنانے کی ہتھکنڈے بھی اپنائے جائیں گے۔دوسری جانب دہشت گردی اور ملک کی خراب صورت حال کا جواز بنا کر ہڑتالوں اور مظاہروں پر پابندیاں عائد کر کے محنت کشوں کی مزاحمت کو توڑنے کی کوشش کی جائے گی۔ محنت کشوں کو یوم مئی2015ء پر اس عزم کا اعادہ کرنا ہوگا کہ وہ حکمران طبقے اور ریاستی حملوں کے خلاف اُس جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں گے جسے شکاگو کے شہدا نے شروع کیا تھا۔
فیض صاحب نے کہا تھا : ''لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے... وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے۔۔۔۔۔‘‘ لیکن حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس کے پیش نظر وہ دن دیکھنے کا نہیں دکھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ محنت کشوں کو طبقاتی جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔ محنت اور سرمائے کی اس جنگ میں محنت کش فتح یاب کرنا ہوگا۔ صدیوں سے نسل در نسل جاری استحصال، ظلم اور جبر کا انتقام حکمرانوں سے لینا ہو گا۔ ایک ایسا یوم مئی بھی آئے گا جب سرمائے کی بیڑیوں سے انسانیت آزاد ہوگی۔ عزت، تکریم، شہرت اور قدر و منزلت کی بنیاد دولت کی بجائے محنت کش کی عظمت ہو گی۔ 1917ء کے بالشویک انقلاب سے متاثر ہو کر اقبال نے اپنی نظم ''لینن خدا کے حضور میں‘‘ میں نسل انسان کی اس جستجو کا اظہار کچھ یوں کیا تھا:
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
کب ڈوبے کا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تیری منتظر روزِ مکافات!