اہلِ مغرب نے ہر معاملے میں ایک نیا معیار قائم کیا ہے اور زور دے کر دُنیا والوں سے اُس معیار کو تسلیم بھی کرایا ہے۔ آپ متفق ہوں یا نہ ہوں، دُنیا بھر کی تسلیم شدہ اخلاقی اقدار کو اہلِ مغرب اپنے پیمانے سے جانچتے ہیں اور پھر اپنے ہی پیمانے کے مطابق تبدیل کرکے دُنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اور پھر ضِد بھی ہوتی ہے کہ ترمیم شدہ اقدار ہی کو درست ترین اقدار تسلیم کیا جائے۔
دُنیا بھر میں جُھوٹ کو انتہائی بُرا سمجھا جاتا ہے۔ مگر معاملہ صرف جُھوٹ تک محدود نہیں۔ اور بھی بہت کچھ ہے جو بہت بُرا ہے اور کسی طور قابل قبول نہیں۔ مگر اہلِ مغرب نے صرف جُھوٹ کو بُرا قرار دے کر باقی تمام بُرائیوں کو انتہائی معمولی اور قابل قبول قرار دے دیا ہے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو مونیکا لیونسکی کے معاملے میں مواخذے کا سامنا اِس لیے نہیں کرنا پڑا تھا کہ اُنہوں نے صدر ہوتے ہوئے وائٹ ہاؤس کی ایک اِنٹرن سے افیئر چلایا اور چند نازیبا حرکات کے مرتکب بھی ہوئے بلکہ سارا معاملہ اِس لیے طُول پکڑ گیا کہ موصوف نے قوم کے سامنے جُھوٹ بولا! امریکی قوم کو اِس بات سے کچھ خاص دُکھ نہیں پہنچا کہ اُس کا صدر عیّاش تھا بلکہ سارا رونا اِس بات کا تھا کہ اُس نے جُھوٹ بول کر اپنے منصب کے عہد سے غدّاری کی!
اب سوال یہ ہے کہ جس معاشرے میں ہر طرف ہر طرح کے گناہوں کی کُھلی چُھوٹ ہے اُس معاشرے میں لوگوں کو جُھوٹ بولنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ سیدھی سی بات ہے۔ جُھوٹ بولنا اِنسان کی سرشت کا حصہ اور مزاج کا تقاضا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو زندگی میں کچھ خاص لطف نہیں رہتا۔ سچ تو یہ ہے کہ سچ کے ہاتھوں صرف دُکھ ملتے ہیں اور جُھوٹ یہ ہے کہ جُھوٹ بولنے میں نقصان ہے! یہی سبب ہے کہ لوگ تھوڑا بہت جُھوٹ بول کر زندگی کے خاکے میں کچھ رنگ بھرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں!
جس معاشرے میں ہر طرف گناہوں کی کُھلی چُھوٹ ہے وہاں بھی لوگ جُھوٹ کے ذریعے کچھ''جِدّت طرازی‘‘ کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ نیو یارک میں ایک عورت پکڑی گئی ہے جسے سیریل کِلر کی طرز پر سیریل برائڈ کا نام دیا گیا ہے۔ لیانا بریانٹاس نے ایک یا دو نہیں، پوری 10 شادیاں کیں۔ ہر بار وہ خود کو غیر شادی شدہ بتاکر ''جیون ساتھی‘‘ تلاش کرتی تھی اور چند ماہ اُس کے ساتھ گزار کر نئے ''شِکار‘‘ کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی۔ نومبر 1999ء سے اگست 2002ء کے دوران لیانا نے مختلف ناموں سے 10 شادیاں کیں۔ اِسی مُدّت کے دوران لیانا نے کئی شوہروں سے علیحدگی کے لیے درخواست بھی دائر کی۔
سوال یہ ہے کہ لیانا کو ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ مغربی معاشروں میں تو اب شادی کی کوئی وقعت ہی نہیں رہی۔ جب جی چاہے شادی کرو، جب جی میں آئے یہ رشتہ توڑ دو۔ اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اب تو شادی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ لوگ شادی کے بغیر زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ بغیر شادی کے رہتے ہوئے جب جوڑا چار پانچ بچے پیدا کرلیتا ہے تب یعنی بچوں کے بڑے ہونے پر شادی کا خیال آتا ہے! ایسے میں رسماً شادی بھی کرلی جاتی ہے تاکہ بچوں کو جو تھوڑی بہت خِفّت سی اُٹھانی پڑتی ہے وہ نہ اُٹھانی پڑے! یعنی ایسے جوڑے شادی بھی محض ''بچوں کی خوشی‘‘ کی خاطر کرتے ہیں!
ایسے میں لیانا جیسی عورتوں کی ''مہم جُوئی‘‘ اِنسانی فطرت کے ایک مظہر کے سِوا کچھ نہیں۔ مغربی معاشرہ کہتا ہے کہ جُھوٹ مت بولو، جو کرنا ہے کر گزرو اور اُس کا اعلان کردو۔ لیانا نے جُھوٹ بول بول کر 10 شادیاں کیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ وہ جُھوٹ کا مزا لینا چاہتی تھی۔ جب سب کچھ بے ڈھکا چُھپا ہو، سچ کے آئینے میں دِکھائی دے رہا ہو تو زندگی کا سارا مزا جاتا رہتا ہے۔ ایسے میں جُھوٹ ہے جو زندگی کو نئی ''معنویت‘‘ عطا کرتا ہے۔ لیانا نے زندگی کو کچھ ''مفہوم‘‘ دینے کی کوشش کی۔ ''اوپن سوسائٹی‘‘ میں وہ کچھ ڈھکا چُھپا رکھنا چاہتی تھی تاکہ کچھ ''ورائٹی‘‘ پیدا ہو! یہ ایسا ہی ہے جیسے بچپن میں ہمیں گھر میں دیئے جانے والے پھل وہ مزا نہیں دیتے تھے جو ٹھیلے سے چُرائے ہوئے یا کسی کے گھر میں لگے درختوں سے توڑے ہوئے پھلوں میں ملا کرتا تھا!
لیانا نے جو 10 شادیاں کیں اُن میں ''خطرناک‘‘ بات صرف یہ تھی کہ اُس کے سات شوہروں کا تعلق ''ریڈ فلیگڈ‘‘ (خطرناک) ممالک سے تھا۔ اِن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اب اِس امر پر تحقیق ہو رہی ہے کہ کہیں القاعدہ سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص لیانا کے شوہر کی حیثیت سے امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے میں کامیاب تو نہیں ہوگیا! لیانا کا جُھوٹ بولنا بھی معاف کیا جاسکتا تھا مگر ایک پاکستانی سے خُفیہ ازدواجی تعلق ایسا جُرم ہے جسے امریکی معاشرہ معاف نہیں کرسکتا!
جُھوٹ سے متعلق ایک اور دلچسپ خبر یہ ہے کہ ایک عالمی براڈکاسٹنگ ادارے کے سابق پروڈیوسر 68 سالہ کرس لیوئس کو معلوم ہوا ہے کہ اب تک وہ جسے اپنا بیٹا سمجھ کر بے انتہا پیار کرتے آئے ہیں وہ اُن کا بیٹا ہے ہی نہیں! یہ بھی خوب رہی۔ کرس لیوئس نے عدالت سے رجوع کیا ہے کہ اُن کی سابق بیوی 48 سالہ نِکول نے 1996ء میں جس بچے کو جنم دیا تھا وہ اُس کا بچہ نہیں تھا! یہ بات اب ڈی این اے ٹیسٹ سے بھی ثابت ہوچکی ہے۔ کرس لیوئس اور نِکول کی شادی 1994ء میں ہوئی۔ چارلی 1996ء میں پیدا ہوا اور 1999ء میں کرس لیوئس اور نِکول میں علیحدگی ہو گئی تھی۔ دو سال قبل طلاق کی قانونی کارروائی مکمل ہو چکی ہے۔ کرس لیوئس نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ اُنہیں نِکول سے ہرجانے کی مد میں پانچ لاکھ ڈالر دلائے جائیں کیونکہ اُنہوں نے اب تک چارلی کو اپنا بیٹا سمجھ کر پالا ہے۔ 1999ء میں علیحدگی کے بعد چارلی ماں کے پاس رہا اور کرس لیوئس اُس کی پرورش کے لیے خطیر رقم باقاعدگی سے دیتے رہے!
طرح طرح کی حیران کن خبریں دینے والے ادارے کے ایک
سابق پروڈیوسر کے ساتھ یہ ''مذاق‘‘ کم دلچسپ نہیں۔ یہاں پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جُھوٹ سے انتہائی نفرت کرنے والے معاشرے میں اِتنا بڑا جُھوٹ! یعنی بندہ زندگی بھر جسے اپنا بیٹا سمجھ کر چُومتا چاٹتا آئے وہی کسی اور کا بیٹا نکل آئے! اِس نوعیت کے جُھوٹ سے پیدا ہونے والی تکلیف ٹالنے ہی کے لیے تو مغربی معاشروں نے اب اولاد کے جائز یا ناجائز ہونے کا ٹنٹا ختم کرڈالا ہے! یورپ کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں اولاد کے جائز و ناجائز ہونے کا معاملہ اب کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر کوئی اپنی اولاد کو اَن چاہی سمجھ کر مسترد بھی کرنا چاہے تو اُس کی کفالت کا بوجھ اُٹھانے کے لیے سرکار حاضر ہے! ایسے میں کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ پرائی (یعنی ناجائز) اولاد کو خالص جائز شوہر کے کھاتے میں ڈالے! بات پھر وہی‘ کہ زندگی میں کچھ تو ایسا ہو جو چونکانے والا ہو۔ مغربی معاشروں میں اب چونکانے والی بات ناجائز بچہ نہیں بلکہ اُس بچے کو کسی اور کے کھاتے میں ڈالنا ہے! نِِکول نے بھی کچھ ''ورائٹی‘‘ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اب یہ اُس کی بدنصیبی کہ شوہر بی بی سی کا سابق پروڈیوسر تھا۔ اُس نے کسی نہ کسی طور معاملے میں شک کا پہلو تلاش کر ہی لیا۔ اور یُوں جُھوٹ کے پردے سے چارلی کا سچ سامنے آگیا!
اہلِ مغرب کتنے ہی ''لِبرل‘‘ اور ''اوپن‘‘ ہوجائیں، جُھوٹ اُن کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ سوال اچھے یا بُرے کا نہیں، اِنسانی سرشت اور ''لُطف جُوئی‘‘ کا ہے! جب چھوٹے چھوٹے معاملات میں جُھوٹ کو دیس نکالا دے دیا جائے تو بہت بڑے معاملات میں جُھوٹ کی بساط بچھائی جاتی ہے۔ اور اِس بساط کے اُلٹنے پر کچھ بھی سلامت نہیں رہتا!