تحریر : افضل رحمٰن تاریخ اشاعت     30-04-2015

زبانیں

واشنگٹن پوسٹ نے حال ہی میں دنیا بھر کی زبانوں کے بارے میں نئی تحقیق شائع کی ہے جس کے مطابق آج سات ہزار سے زیادہ زبانیں کرۂ ارض کے مختلف حصوں میں بولی جاتی ہیں‘ جن میں سے ایشیا میں دو ہزار تین سو ایک زبانیں بولنے والے رہتے ہیں‘ جبکہ یورپ میں محض دو سو چھیاسی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ افریقہ آبادی کے لحاظ سے ایشیا کی نسبت چھوٹا براعظم ہے مگر وہاں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد بھی دو ہزار سے زیادہ ہے۔ اسی طرح جنوبی اور شمالی امریکہ میں ہزار سے زیادہ زبانوں کا وجود ہے اور تیرہ سو کے قریب زبانیں بحرالکاہل کے ممالک میں بولی جاتی ہیں۔
اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب ‘بیس کروڑ ہے۔ یہاں سب سے زیادہ چینی زبان بولی جاتی ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد ایک ارب ‘انتالیس کروڑ ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ میں دوسرے نمبر پر جس زبان کا ذکر ہے اسے ہندی/اردو کہا گیا ہے۔ بولنے والوں کی تعداد اٹھاون کروڑ اسی لاکھ بتائی گئی ہے۔ جسے ہندی / اردو قرار دیا گیا ہے‘ کچھ عرصہ پہلے تک اسے ہندوستانی بھی کہا جاتا تھا۔ باور کیا جاتا ہے کہ اس کی جڑیں شمالی ہندوستان میں ہیں۔ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ ہم تو اسے واضح طور پر الگ زبان سمجھتے ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے۔ معلوم نہیں جو لوگ ایسے موضوعات پر تحقیق کرتے ہیں وہ اتنی بڑی حقیقت سے کیوں غافل رہ جاتے ہیں۔
ہندی اپنی جگہ ایک الگ زبان ہے اور اگر آپ کو اتفاق ہو‘
بھارت کے معروف اداکار امیتابھ بچن کی میزبانی میں ٹی وی پروگرام ''کون بنے گا کروڑ پتی‘‘ دیکھنے کا تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہندی اس وقت اردو سے کس قدر مختلف زبان ہے۔ اب اگر بھارت کی فلمی صنعت اپنی فلموں کے مکالموں میں اردو زبان کو ترجیح دیتی ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ہم اردو اور ہندی کو ایک ہی زبان مان لیں۔ اسی طرح اگر پاکستان میں ہمارے ہاں کچھ لوگ ''آپ کہتے ہو‘‘، ''آپ جاتے ہو‘‘ بولنے اور لکھنے لگے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اردو زبان سے ''آپ کہتے ہیں‘‘ اور ''آپ جاتے ہیں‘‘ جیسے جملے محذوف ہو چکے ہیں یا پھر ہندی اور اردو ایک ہی زبان ہو چکی ہیں۔ ہمارے ہاں نوجوان خاص طور پر بھارتی فلموں اور ٹی وی ڈراموں کے زیر اثر کچھ ہندی کے الفاظ بھی اردو میں شامل کر کے بولنے لگے ہیں۔ اس سے بھی اردو کی انفرادیت تو متاثر نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے یہ الفاظ بھی اردو ہی میں جذب ہو جائیں۔
اردو ایک ایسی زبان ہے جو خود اپنے پائوں پر کھڑی ہے۔ بھارت میں جس طرح ہندی کو سنسکرت کی بیساکھیوں پر کھڑا کیا گیا ہے اردو کے معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ زبان خود ہی اپنی پسند کے الفاظ چن کر اپنا لیتی ہے۔ ہمارے ہاں پست تعلیمی معیار اور انگلش میڈیم کے رواج کے سبب اردو کچھ دب کے رہ گئی ہے‘ وگرنہ اس زبان کے ایک زمانے میں بڑے ٹھاٹھ رہے ہیں۔ مرزا غالب اگرچہ فارسی زبان کے بہت دلدادہ تھے مگر اردو کا بھی ان کے نزدیک رتبہ کم نہیں تھا ؎
جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکر ہو رشک فارسی
گفتۂ غالب ایک بار پڑھ کے اُسے سنا کہ یوں
اب اگر کوئی یہ کہے کہ اس شعر میں تو اردو کا ذکر ہی نہیں ہے تو پھر میں اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح داغ دہلوی کا یہ شعر تو زبان زدِ عام ہے۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
اردو میں بطور زبان کس قدر وسعت موجود ہے اس کا صحیح اندازہ تو ''اردو علمی لغت‘‘ جیسی تصنیف کا مطالعہ کرنے سے ہی ہو سکتا ہے مگر کوئی اگر فوری طور پر اردو کی وسعت کا ذائقہ چکھنا چاہے تو وہ محترم مشتاق احمد یوسفی کی تازہ تصنیف ''شب شعریاراں‘‘ کا مطالعہ کر سکتا ہے جس میں اگرچہ وہ مضامین بھی شامل ہیں جو یوسفی صاحب مختلف تقریبوں میں پڑھ کر داد حاصل کر چکے ہیں مگر تمام کتاب اردو کی وسعت پذیری کا خوبصورت اشتہار ہے۔
اب چلتے ہیں واپس واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کی طرف۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا کی تقریبا دو تہائی سے زیادہ آبادی‘ دنیا میں بولی جانے والی کل سات ہزار ایک سو دو زبانوں میں سے محض بارہ زبانیں بولتی ہے۔
چینی (ہندی / اردو) کے بعد انگریزی ہے جو باون کروڑ ستر لاکھ لوگ بولتے ہیں۔ پھر عربی ہے جسے چھیالیس کروڑ ستر لاکھ لوگ بولتے ہیں۔ ہسپانوی زبان کو اڑتیس کروڑ اور نوے لاکھ جبکہ بنگالی بولنے والوں کی تعداد پچیس کروڑ بتائی گئی ہے۔ دیگر چھ زبانوں میں روسی‘ فرانسیسی‘ جاپانی‘ اطالوی‘ پرتگیزی اور جرمن زبانیں شامل ہیں۔ یعنی مذکورہ بارہ زبانیں تو تقریباً پانچ ارب لوگ بولتے ہیں اور باقی دو ارب سے زیادہ آبادی بقیہ سات ہزار نوے زبانیں بولتی ہے۔ ہے نا حیران کن بات۔!
لامحالہ آپ کے ذہن میں سوال اٹھ رہا ہوگا کہ انگریزی زبان کی دنیا میں جو منفرد حیثیت ہے اس کا بھی اسی رپورٹ میں ذکر ہے یا نہیں۔ اس کا ذکر اس طرح ہے کہ اس رپورٹ کے مطابق دنیا میں وہ زبان جو سب سے زیادہ ملکوں میں بولی جاتی ہے وہ انگریزی ہے۔ اور دنیا میں سرکاری زبان کے طور پر بھی سب سے زیادہ انگریزی ہی استعمال ہوتی ہے۔
انگریزی دنیا کے ایک سو ایک ملکوں میں بولی جاتی ہے جبکہ اس حوالے سے دوسری زبان عربی ہے جو دنیا کے ساٹھ ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ تیسرے نمبر پر فرانسیسی زبان ہے جو اکیاون ملکوں میں‘ چوتھے نمبر پر چینی ہے جو تینتیس ملکوں میں‘ پانچویں نمبر پر ہسپانوی ہے جو اکتیس ملکوں میں اور چھٹے نمبر پر فارسی ہے جو دنیا کے انتیس ملکوں میں بولی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں بولی جانے والی کل سات ہزار سے زیادہ زبانوں میں سے اکثر ایسی ہیں جنہیں بولنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اس وجہ سے رپورٹ سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ صدی کے اختتام تک ان سات ہزار بولی جانے والی زبانوں میں سے آدھی کے قریب معدوم ہو جائیں گی۔
زبانوں کے حوالے سے ایک انتہائی اہم بات جس کا اس رپورٹ میں ذکر نہیں ہے وہ یہ ہے کہ عربی دنیا کی واحد ایسی زبان ہے جس میں چودہ سو برس پہلے نازل ہونے والی کتاب کی زبان آج بھی اسی آب و تاب سے زندہ ہے۔ یہ معجزہ دنیا کی کسی زبان میں موجود نہیں ہے۔ اس حقیقت کا اس رپورٹ میں کیوں ذکر نہیں؟ اس کا جواب ہمارے قارئین بخوبی تو جانتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved