پاکستان میںوہ کون سے لوگ ہیں، وہ کون سے ادارے ہیں اور پاکستان کی وہ کون سی شخصیات ہیں جنہوں نے صرف 2014ء کے ایک ہی سال میں پاکستان کی سر زمین سے بھارت کو4.7 بلین ڈالر بھجوائے ہیں۔ دوبارہ پڑھ لیںملین نہیں‘ بلکہ۔۔۔۔بلین ۔اس قدر بھاری زرمبادلہ بھارت کو پاکستان سے بھیجے جانے کا انکشاف کسی سنی سنائی بات پر یا قیاس آرائیوں اور تجزیوں پر مبنی نہیں ہے بلکہ ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کرد ہ ایک رپورٹ کے گراف میں پانچویں نمبر پر پاکستان کا نام صاف دکھائی دے رہا ہے۔ ورلڈبینک کی اس رپورٹ کو دیکھیں تو اس میں بھارت کو ڈالروں کی صورت میں Remittances بھجوانے کا جو گراف نظر آتا ہے اس میں سب سے پہلا نمبر تو ہمارے برادر مسلم دوست متحدہ عرب امارات کا ہے جس نے گذشتہ سال 12.64 بلین ڈالر بھجوائے۔ دوسرے نمبر پر امریکہ ہے جس نے11.18 بلین ڈالر، تیسرے نمبر پر ہمارے دوست اور بہت ہی ہمدرد سعودی عرب کا ہے جس نے بھارت کو10.84 بلین ڈالر بھجوائے اورچوتھا نمبر ہمارے مسلم بھائی کویت کا ہے جس نے گذشتہ سال بھارت کو4.74 بلین ڈالر بھجوائے اور پھر پانچواں نمبر آتا ہے ہمارے ملک پاکستان کا‘ جہاں سے بھارت کو4.7 بلین ڈالر بھجوائے گئے۔ اس کے بعد چھٹے نمبر پر قطر کی حکومت ہے جس نے4.02 بلین ڈالر‘ ساتویں نمبر پر اومان ہے جس نے3.47 بلین ڈالر‘ آٹھواںنمبر کینیڈا کا ہے جس نے 2.77 بلین ڈالر، نواں نمبر نیپال کا ہے جس نے2.73 بلین ڈالر اور آخر میں دسواں نمبر آسٹریلیا کا ہے جہاں سے بھارت کو سب سے کم1.84 بلین ڈالر گزشتہ سال یعنی 2014ء میں بھیجے گئے۔ورلڈ بینک کی جاری کر دہ اس رپورٹ کے مطا بق بھارت کو پاکستان سمیت صرف چھ مسلم ممالک سے چالیس بلین ڈا لر صرف ایک سال میں بھجوائے گئے۔
مسلم لیگ نواز کی بھارت نواز حکومت دونوں ملکوں کی سرحدوں کو صرف ایک لکیر سے تشبیہ دیتی ہے‘ جو چھ جون2013ء کو اقتدار میں آئی اور لاکھ کوششوں کے با وجود عوامی اور عسکری حلقوں کے دبائو کی وجہ سے بھارت کو لاکھ چاہتے ہوئے بھی سب سے پسندیدہ ملک کا درجہ تو نہ دے سکی‘ لیکن ایک سال کے اندر اندر نہ جانے وہ کون سا جادو چلایا کہ کسی کو پتہ ہی نہ چلا کہ ہمارے جیسے غریب ملک سے بھارت کو4.7 بلین ڈالر بھجوا دیئے گئے۔ وہ تو بھلا ہو ورلڈ بینک کا جس نے یہ رپورٹ جاری کی‘ ورنہ ابھی تک ہم سب نے پاک بھارت دوستی کے ا س خوشگوار پہلو سے بے خبر ہی رہنا تھا کیونکہ ہمارے سامنے تو یہی ہے کہ کشمیر میں بچوں اور عورتوں کو بھارتی فوج قتل کئے جا رہی ہے اور ہمارے سیالکوٹ‘ شکر گڑھ سیکٹر میں بھارت کی توپیں ہیں کہ پاکستان کے دیہات میں گولہ باری کو اپنا معمول بنائے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں بھارت کے پروردہ ایجنٹ ہر پاکستانی کو قتل کئے جا رہے ہیں اور بھارت کے پاس موجود بے تحاشا اسلحہ کو جھونکنے یا پھونکے کیلئے مسلمانوں کا پیسہ اور اس کے بدلے بھارت کی گولیاں، میزائل، دستی بم اور راکٹ اور ان کے نشانوں کیلئے کشمیر اور پاکستان کے مسلمان بچوں، عورتوں اور مردوں کے گوشت پو ست کے جسم۔
جب ورلڈ بینک کی یہ رپورٹ دیکھ رہا تھا تو اچانک شکر گڑھ سیکٹر پر بھارتی گولہ باری کی خبریں اور پھر سمجھوتہ ایکسپریس کی آوازیں گونجنے لگیں اور مجھے یاد آ گیا کہ اپنے ایک گذشتہ مضمون میں پاکستان کے ایک ایسے بدنصیب ماں باپ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا‘ جن کے پانچ بچے سمجھوتہ ایکسپریس کے ذریعے بھارت سے پاکستان آ رہے تھے کہ بھارتی فوج کے کرنل پروہت کے گروپ کی دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔ ان کی لاشیں چونکہ بارود اور آتشیں مواد سے جل چکی تھیں اس لئے ان سب کو پانی پت میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان پانچ بچوں کے بد نصیب ماں باپ نہ جانے کب سے پانی پت اپنے بچوں کی قبروں پر جانے کیلئے بھارتی سفارت خانے کے چکر کاٹتے رہے۔ میرے اس مضمون کے بعد کمال
مہربانی کرتے ہوئے انہیں ویزہ دے تو دیا گیا لیکن پانی پت کا نہیں بلکہ وہاں سے کئی میل دور نائڈہ کا ۔ رانا شوکت اور ان کی اہلیہ نے جب اس پر احتجاج کیا تو بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ کوئی بات نہیں سو میل دور سے ہی اپنے بچوں کیلئے دعا کر لوجبکہ سمجھوتہ ایکسپریس میں بھارتی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے ان پانچ بچوں کے والدین اپنے بچوں کی قبروں سے لپٹ لپٹ کر رونا چاہتے تھے۔ اپنے بچوں کی قبروں کو مہکتے ہوئے پھولوں سے سجا نا چاہتے تھے لیکن سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار اور انسانی حقوق کی چیمپئن کہلانے والے بھارت کو ان ماں باپ کی پروا کس طرح ہو سکتی تھی‘ جب انہیں ان کے پاکستان سے4.7 بلین ڈالر بھجوانے والے موجود ہیں۔
اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے بھارتی ہائی کمشنر نے شاید یہی سوچا ہوگا کہ ان ماں باپ کا کیا ہے ان کی پاکستان میں کیا حیثیت ہے اگر پاکستان کی حکومت کی نظر میں ان دونوں ماں باپ کی وقعت ہوتی اور ان کے بھارت کے پسندیدہ حکمرانوں سے کوئی تعلقات ہوتے تو یہ ان کی جماعت کے لیڈران کے قریبی ساتھی ہوتے اور نہیں تو اسلام آباد میں ویزہ کیلئے دھکے کھانے والے رانا شوکت کی دفتر خارجہ تک کوئی رسائی ہوتی ، پاکستان میں ترقی پسند اور انسانی حقوق کے حوالے سے جانی جانے والی کسی این جی او سے دعا سلام
ہوتی‘ ماما قدیر یا فرزانہ مجید کی مجلس میں بیٹھنے والے ہوتے۔ اگر ان کے ویزہ کیلئے ان میں سے کسی ایک کی جانب سے اشارہ بھی ہو جاتا‘ اگر وہ ان کی ہلکی سی سفارش بھی کر دیتے تو پانی پت کا ویزہ ان کے گھروں تک خود پہنچا کرآتے۔ شاید ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی والے ملک کو ان دو والدین کی پانی پت میں اپنے بچوں کی قبروں پر مچائی جانے والی دھاڑوں سے خطرہ لا حق ہو گیا۔
صرف چھ مسلم ممالک سے بھارت کوایک سال میں چالیس کھرب ڈالر بھجوائے گئے اور ان مسلم ممالک کے سخت ترین موسم میں پاکستان سے آیا ہوا چند سو ریال کمانے والا کوئی مزدور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو اس کی میت کو پاکستان بھجوانے کیلئے ایک ہزار ریال ادا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان مسلم ممالک میں بھارت اس طرح چھایا ہوا ہے کہ ان کی کسی بھی کمپنی یا ادارے میں اگر کسی ایک خالی آسامی کیلئے بھرتی مقصود ہو تو اس کا اختیار بھارتیوں کو ہے۔ تمام اہم ترین عہدے بھارتیوں کے حوالے کیے ہوئے ہیں۔مسلم لیگ نواز کی حکومت نے صرف ایک سال میں اپنے پیارے اور من پسند نریندر مودی کیلئے4.7 بلین ڈالر اور ان کی بیگم کیلئے ساڑھیوں اور کشمیری گرم چادروں کے تحفے اور آموں کے ٹوکرے بھجوائے اور بدلے میں بھارت سرکار کے نریندر مودی نے شکر گڑھ سے 23 اور تربت بلوچستان سے بیس مزدوروں کی لاشیں پاکستانیوں کے حوالے کی ہیں... شاید اس لئے کہ ہمارے حکمران اپنی قوم کے سامنے یہ تو کہہ سکیں کہ اگر کھربوں ڈالر دیئے ہیں تو بدلے میں کچھ ملا بھی تو ہے!!