تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     02-05-2015

نہ چھیڑ ملنگاں نوں

ابتدا کراچی کے ایس ایس پی رائوانوار کی ایک پریس کانفرنس سے ہوئی‘ جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ ایم کیو ایم کے نوجوان بھارتی خفیہ ایجنسی را سے تربیت حاصل کر کے آتے ہیں اور پاکستان میں تخریب کاریاں کرتے ہیں۔ انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کھلے الفاظ میں ایم کیو ایم کو موردالزام ٹھہرایا۔ اسی شام مجھے بھی ایک ٹی وی چینل پر تبصرے کے لئے کہا گیا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ الزامات ایک ایس ایس پی نے لگائے ہیں‘ تو میں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اتنے بڑے الزامات کے لئے ایس ایس پی کا پریس کانفرنس کرنا موزوں نہیں۔ میرا خیال تھا کہ اس درجے کی پریس کانفرنس وزیرداخلہ یا سندھ کی صوبائی کابینہ کے کسی سینئر رکن کو کرنا چاہیے تھی۔ دوسری بار بھی فرمائش آئی‘ تو میں نے پھر کچھ کہنے سے گریز کیا۔ میں اس خبر کے لئے ایس ایس پی کے عہدے کے ایک افسر کو غیرموزوں سمجھ رہا تھا۔ ظاہر ہے‘ جب میڈیا پر تبصرے ہوئے اور ایم کیو ایم کا روایتی ردعمل آیا‘ تو ایس ایس پی صاحب ''فرائی‘‘ ہو گئے۔ ظاہر ہے‘ ایک سرکاری ملازم اتنا بڑا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ جب ایم کیو ایم کی طرف سے اس پر جوابی حملہ ہوا‘ تواس کا محکمہ اور حکومت‘ دونوں دبک گئے۔ ایم کیو ایم کے مقررین تھے کہ بڑھ چڑھ کر برس رہے تھے اور حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا۔ رات گئے الطاف حسین کا خطاب شروع ہوا‘ تو انہوں نے پاک فوج کے بارے میں ایسا لب و لہجہ اختیار کیا‘ جسے سن کر میں تو پریشان ہو گیا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک سیاستدان نے فوج کو اتنے توہین آمیز انداز میں مخاطب کیا ہو۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے لکھا: ''آج شب پاکستانی ٹی وی پر الطاف حسین کی تقریر‘ فوج اور اس کی لیڈر شپ کے بارے میں غیرضروری اور قابل نفرت تھی۔‘‘ انہوں نے فوج کو یہاں تک چیلنج دے دیا کہ ہمیں لڑنا پڑا‘ تو ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ یہ سانحہ مشرقی پاکستان کی طرف اذیت ناک اشارہ تھا۔ کسی ملک کی فوج کے لئے اس کی شکست پر طعنہ زنی‘ کوئی دشمن تو کر سکتا ہے‘ لیکن کسی ہم وطن سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی‘ جبکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارے کمانڈروں نے کیسے ناسازگار اور تکلیف دہ حالات میں ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ساری فوج نے ہی ہتھیار پھینک دیئے تھے۔ ہمارے بہت سے افسروں اور جوانوں نے مرتے دم تک مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کئے۔ خودبھارتی فوجیوں کو کہنا پڑا تھا کہ پاک فوج کو کمانڈروں کی طرف سے ہتھیار پھینکنے کا حکم تو ملا تھا‘ لیکن اس کے بہت سے جانبازوں نے لڑتے لڑتے جان دینے کو ترجیح دی۔ یہ تو خیر ایک دکھ بھری داستان ہے‘ لیکن کسی بھی ملک کا شہری خود اپنی فوج کی شکست پر طنز کے تیرونشتر چلا کر خوش نہیں ہو سکتا۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ کئی بار یہ ہوا ہے کہ حکومت ‘ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے کسی جرائم پیشہ کو گرفت میں لیتی ہے‘ اس پر لگائے گئے الزامات کا چرچا ہوتا ہے‘ الطاف بھائی غصے میں پیچ و تاب کھاتے ہوئے میڈیا پر آتے ہیںاور جس کا نام ذہن میں آتا ہے‘ اس کی بے تحاشا تذلیل کر دیتے ہیں۔ تازہ واقعے میں بھی ان کا اسلوب یہی رہا۔ الطاف بھائی نے فرمایا: ''پیپلزپارٹی کے رہنمائوں نے یقین دلایا ہے کہ آج کے واقعہ میں قائم علی شاہ اور آصف زرداری کا ہاتھ نہیں ہے‘ تو اس بھنگی کی ہمت کیسے ہوئی؟ افسروں کو معطل کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔ ایم کیو ایم کے ساتھ شروع ہی سے تعصب برتا گیا‘ 1992ء میں بھی ہمیں بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ کارکنوں پر بے پناہ ظلم کئے گئے۔ ہم نے ہر طرح کے مشکل حالات میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ ہرقوم اپنی تنظیم بناتی ہے‘ لیکن کسی کے خلاف آپریشن نہیں ہوا۔ ہم نے یہ بھی برداشت کیا کیونکہ ہم امن اور بھائی چارے میں رہنا چاہتے ہیں اور آج بھی امن چاہتے ہیں۔‘‘ الطاف بھائی نے کہا کہ ''آج ایک بھنگی نے مجھ پر جھوٹے الزامات لگائے۔ یہ ایسا بھنگی ہے جو چور ہے‘ ڈاکو ہے‘ جھوٹا ہے اور زمینوں پر قبضے کرتا ہے۔ ارباب اختیار نے ہمیں کبھی پاکستان کا بیٹا نہیں مانا۔مجھے برطانیہ سے نکالے جانے کی پروا نہیں۔(حاضرین سے) خدا کا واسطہ ہے مجھے چھوڑ کر چلے جائو۔‘‘ مجھے نہیں معلوم کہ الطاف بھائی کے لب و لہجے میں یہ ترشی اور تلخی کیوں آئی؟ چند ہی روز پہلے وہ خود فرما چکے ہیں کہ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اگر جرائم پیشہ ہے‘ تو اسے اس کی سزا ملنی چاہیے۔ ہم اس کی مدد کو نہیں آئیں گے۔ نائن زیرو کے گرفتارشدگان سے ایم کیو ایم کی قیادت نے لاتعلقی ظاہر کر دی تھی۔ اب تک یہی انتظام چل رہا تھا۔ اب پولیس نے کیا کردیا؟ اسے اپنی تحقیقات کے مطابق کچھ لوگوں پر شکوک ہوئے۔ انہیں ملزم نامزد کر کے‘ مقدمے چلانے کی تیاری کی گئی۔ ایس ایس پی نے اتاولے پن میں‘ پریس کانفرنس کر کے‘ شوق خطابت پورا کیا جسے ظاہر ہے‘ میڈیا کے بیشتر دوستوں نے پسند نہیں کیا۔ واقعی یہ چھوٹا منہ بڑی بات تھی۔ جس درجے کے مبینہ ملزمان پر الزامات لگائے گئے اور جس طرح ایک پڑوسی ملک کی ایجنسی کو ملوث کیا گیا‘ اس کے بعد لازم تھا کہ کوئی اعلیٰ حکومتی عہدیدار ‘ گرفتار شدگان اور ان کے جرائم کی تفصیل بیان کرتا۔ میرے چند ساتھی اخبار نویسوں نے صاف صاف کہا کہ ایک ایس ایس پی کے لئے مناسب نہیں تھا کہ اتنے بڑے واقعات بتانے میڈیا کے سامنے آتا‘ لیکن آج کل ٹی وی نے بڑے بڑوں کو مسحور کر رکھا ہے۔ ایک ہیڈکانسٹیبل کسی جیب کترے کو بھی پکڑتا ہے‘ تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ٹیلیویژن پر آ کر اپنا کارنامہ بیان کرے۔ ایس ایس پی تو پھر ایس ایس پی ہے۔ میرا خیال ہے‘ اسے شوق پورا کرنا کافی مہنگا پڑ چکا ہو گا‘ مگر ادب سے کہنا پڑے گا کہ الطاف بھائی نے ایک جونیئرسرکاری ملازم کی حرکت پر ضرورت سے زیادہ ردعمل ظاہر کر کے‘ بلاوجہ طوفان کھڑا کیا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ الطاف بھائی چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنا کر‘ اس پر ہنگامہ خیز ردعمل کا اظہار کرتے ہیں اور جب انہیں اپنی گھن گرج کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے‘ تو پھر فوراً ہی معاملے کو نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
الطاف بھائی اور ایم کیو ایم کی قیادت‘ کافی دنوں سے بڑے بڑے دعوے کر کے‘ پاکستانیوں کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ اہل پاکستان ان دعووں پر خاموش رہ کر برادرانہ عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے‘ خاموش رہتے ہیں‘ لیکن دعووں کی تکرار سے تنگ آ کر انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مہاجر بھائیوں نے‘ اہل پاکستان پر کیا کیا احسانات کئے ہیں؟ تازہ ترین دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ ''حکومت ‘ آئی ایس آئی‘ فوج اور بیوروکریٹس پرتعیش زندگی‘ مہاجروں کی قربانیوں کی وجہ سے ہی گزار رہے ہیں۔‘‘ آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں۔دنیا میں وہ کون سے مہاجرین ہیں‘ جنہوں نے اپنے میزبان ملکوں میں جا کر ‘ وہاں کے لوگوں کو عیش کرائی ہو؟ کیمپوں میں خاطرمدارت مقامی پاکستانیوں نے کی۔ تارکین وطن کی چھوڑی ہوئی جائیدادیں ‘ اہل پاکستان نے ایمانداری سے مہاجرین کے حوالے کر دیں۔ چند مہینوں سے ایم کیو ایم کے لیڈر‘ بات بات پر دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستانی خزانے میں ٹیکسوں کی 70فیصد آمدنی کراچی سے جمع ہوتی ہے۔ ازراہ کرم تحقیق کر کے دیکھ لیا جائے کہ یہ 70فیصد آتا کہاں سے ہے؟ کراچی پورٹ پر درآمدوبرآمد پر جو ٹیکس جمع کئے جاتے ہیں‘ وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی درآمدات و برآمدات سے لئے جاتے ہیں۔ پنجاب نے کئی بار کوشش کی کہ یہاں پر ڈرائی پورٹس بنا کر‘ ٹیکسوں کی وصولی پنجاب کے اندر ہی کر لی جائے‘ لیکن حب الوطنی کا جذبہ غالب آیااور پنجاب کے لیڈروں نے ایم کیو ایم کے دعووں کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ اپنے صوبے کے ٹیکس بھی کراچی میں دینے کا سلسلہ جاری رہنے دیا۔ کراچی کے بینکوں میں پنجاب کا سرمایہ سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں زرمبادلہ کی آمدنی کا بڑا حصہ پنجاب کا ہوتا ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد پنجاب اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھتی ہے۔ ظاہر ہے‘ وہی اپنی آمدنی پاکستان بھیجتے ہیں۔میں نے چند موٹے موٹے حساب بتائے ہیں۔ اگر کہیں ایم کیو ایم کی طرح بہی کھاتہ کھول بیٹھے‘ توسارے دعوے دھرے رہ جائیں گے۔ مناسب یہی ہے کہ مقامی ‘ مہاجر کا جھگڑا ختم کر کے‘ پیار محبت اور بھائی چارے کے جذبات کو فروغ دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved