تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     02-05-2015

خفیہ امریکی کارروائیاں

صدر اوباما کے اس اعتراف کے بعدکہ پاکستان میں ایک ڈرون حملے میں مارے جانے والے تین آدمی امریکی تھے‘ یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ ہوا باز کے بغیر پرواز کرنے والے مسلح طیارے بے گناہ انسانوں کی جان لے رہے ہیں مگرایک غیر فوجی جاسوسی ادارے سی آئی اے کو‘ جو دہشت گردی کے توڑ کے اس جنگی منصوبے کا انچارج ہے‘ کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔اس وقت پاکستان کے بعد یمن اس پروگرام کی زد میں ہے مگر امریکہ کومرنے والوں کی قومیت کا علم نہیں ہوتا جیسا کہ رپورٹوں کے مطابق ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ سال اپریل میں وسطی یمن میں بھی رونما ہوا تھا۔
پاکستان میں ایسے میزائلوں کی زد میں آنے والوں میں تہتر سالہ وارن وائن سٹین (Warren Weinstein )شامل ہیں‘ جو پی ایچ ڈی اور ترقیاتی کاموں میں ساری دنیا میں اچھی شہرت کے مالک تھے۔ ایلین وائن سٹین کہتی ہیں کہ پاکستان نے ان کے شوہر کی جان بچانے کا موقع کھو دیا۔ وہ اور ان کے ساتھ مارے جانے والے اطالوی شہری Giowanni La Porto پاکستان کے دیہی علاقے کو ترقی دینے میں مدد کر رہے تھے مگر سی آئی اے کو معلوم نہیں تھا کہ جس احاطے میں ان اغوا شدہ ایڈ ورکروں کو بند رکھا گیا ہے‘ وہیں القاعدہ کے دو لیڈر احمد فاروق اور احمد غزن‘ جو امریکی شہری تھے‘ مقیم ہیں ۔ ڈاکٹر وائن سٹین اور لاپورٹو کی رہائش لاہور میں تھی مگر انہیں اغوا کرکے اس کیمپ میں پہنچا دیا گیا ۔بہر حال جیسا کہ اوباما نے قبل از دوپہر کے ایک غیر معمولی بیان میں کہا: امریکی شہری ڈرون حملوں کا نشانہ نہیں تھے؛ تاہم ملک کو دہشت گردی کے توڑکی اس خفیہ کارروائی پر افسوس ہے ۔
اس مؤقف کی اخلاقیات کو چیلنج کرنے کا اعزاز ہندوستانی تارکین وطن کی امریکی اولاد کے حصے میں آیا۔ الکا پردھان وکلا کی ایک ایسی تنظیم سے وابستہ ہیں جو عدالتوں میں ڈرون طیاروں کی ضربوں کے سویلین مظلوموں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وائن سٹین اور لا پورٹو ڈرونز کے اکیلے شکار نہیں‘ امریکہ نے کسی اور کیس میں اپنی غلطی کی معافی نہیں مانگی ۔اس قسم کے تضاد ساری دنیا میں مکاری سمجھے جاتے ہیں اور امریکہ کے امیج کو حقیقی نقصان پہنچا رہے ہیں ۔
القاعدہ کے تشہیری بازو نے گزشتہ ماہ ایک بیان جاری کیا‘ جس میں کہا گیا تھا کہ احمد فاروق 15جنوری کو وادیٔ شوال (شمالی وزیرستان )میں مارا گیا مگر اس میں غیر معروف فاروق کے امریکی ہونے کی نشان دہی نہیں کی گئی اور نہ یرغمالیوں کا ذکرتھا تاہم باور کیا جاتا ہے کہ فاروق‘ وائن سٹین اور لا پورٹو اسی تاریخ کو اور اسی کمپاؤنڈ میں ہلاک ہوئے ۔حال ہی میں نیو یارک میں ایک شخص محمد محمود فارخ کو دہشت گردی کے الزام میں ایک وفاقی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اسے پاکستانی حکام نے پکڑ کر خفیہ طریقے سے امریکی حکام کے حوالے کیا تھا ۔اس کی گرفتاری سے بھی امریکی حکومت کے اس دعوے کے بارے میں یہ سوال اٹھا کہ دہشت کاروں کی گرفتاری بہت مشکل ہے ۔سی آئی اے فارخ کو ہلاک کرنے پر زور دے رہی تھی ۔امریکہ میں یہ بحث چل نکلی ہے کہ دہشت گردی کے شبے میں کسی کو مارا جائے یا گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے ۔
کیا عدالتی فیصلے کی عدم موجودگی میں کسی امریکی شہری کو مارا جا سکتا ہے ؟ یہ بحث 2011ء میں امریکی شہری انوارالعولاقی کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئی تھی جو یمن میں بطور امام مقیم تھے۔ دو ہفتے بعد ان کا بیٹا عبدالرحمن العولاقی بھی ایک ڈرون حملے کا نشانہ بن گیا تھا۔اس کارروائی کے نقیب کہتے ہیں: کانگرس نے القاعدہ کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے اور اگر کوئی امریکی شہری دشمن کا ساتھ دیتا ہے تو اس کاا نجام بھی دشمنوں کی طرح ہو سکتا ہے ۔دوسروں کا مو قف ہے کہ کسی امریکی شہری کو موت کے گھاٹ اتا رنے کے لئے اسے جرم کی تفصیلات سے آگاہ کرنا اور عدالت کے سامنے اس جرم کو ثابت کرنا‘ جسے ساری دنیا میں due processکہا جاتا ہے‘ لازم ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جاش ارنسٹ کہتے ہیں: صدر کو القاعدہ کے لیڈروں کے‘ خواہ وہ امریکی شہری تھے‘ مارے جانے کا غم نہیں لیکن ان امدادی کارکنوں کی موت کا افسوس ہے جن کی تلاش اور رہائی کے لئے امریکی سالہا سال تک کوشاں رہے ۔یہ پروٹوکول اور پالیسی کی غلطی تھی جن پر نظر ثانی کی جا رہی ہے مگر اس کے نتیجے میں امریکی کارروائیاں کم یا زیادہ نہیں ہو سکتیں کیونکہ ان کا مقصد امریکی شہریوں کا تحفظ ہے‘ ہمارے پروٹوکول کل کی نسبت آج زیا دہ غیر مبہم ہیں تاہم اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ ''تقریباً یقینی‘‘ جاسوسی ایسی کارروائی کا سبب بن سکتی ہے یا نہیں‘ اوباما نے امریکہ کے ہاتھوں دو یرغمالیوں کی غیر ارادی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی ۔ارنسٹ نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ امریکی حکومت دو یرغمالیوں کے سوگوار خاندانوں کو معاوضہ ادا کر ے گی مگر وہ یہ کہنے سے قاصر رہے کہ معاوضہ کیا ہو گا۔
جاسوسی ادارے نے آپریشن سے پہلے حکومت کو یقین دلایا تھا کہ صرف القاعدہ کے عسکری اس کا نشانہ بنیں گے مگر سی آئی اے کی کارروائی سے دو غیر عسکری مارے گئے اور اس کے سربراہ نے وائٹ ہاؤس کو اپنے سہو سے آگاہ کیا ۔سی آ ّئی اے نے جس احاطے پر ہلاکت خیز میزائل پھینکے وہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ ایک قبائلی علاقہ ہے اور اس میں کسی قانون کی عملداری نہیں۔ اس علاقے میں امریکی فوجیں داخل نہیں کی جا سکتیں اسی لئے وہ القاعدہ کو بہت عزیز ہے ۔پاکستان کی بیشتر آبادی بھی کسی غیر ملکی فورس کے اندر آنے کی مخالف ہے اور وہ تو ایک عشرے سے ڈرون حملوں کی مخالفت میں بھی زبان کھول رہی ہے ۔ حکومت کی پالیسی‘ جیسا کہ وکی لیک سے ظاہر ہوا‘ یہ رہی ہے کہ تم ڈرون حملے کرتے رہو اور ہم احتجاج کرتے رہیں گے ۔ یہ اول تو مرضی کا سوال ہے یا پھر استعداد کا۔بعض اوقات دونوں مجبوریاں کام آتی ہیں۔ حال ہی میں مسلح افواج نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا ہے اور ملک میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ ڈرون ٹیکنالوجی بھی پاکستان کے حوالے کی جائے تا کہ ضرب عضب کو زیادہ کاری بنایا جا سکے مگر امریکہ اب تک یہ مطالبہ منظور کرنے پر رضا مند نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہوتا تو مسز وائن سٹین پاکستان کو مطعون نہ کر پاتیں ۔
اوباما نے اپنے اقبالی بیان میں پاکستان کے متعلق جو کچھ کہا‘ مثبت ہے ۔ وہ بولے کہ وائن سٹین کو‘ جس کے راک ول میری لینڈ والے گھر کے باہر اب ایک پیڑ کے تنے پر زرد پٹیاں بندھی ہیں‘ اہل پاکستان کی زندگی بہتربنانے سے غرض تھی ۔انہیں 2011ء میں اغوا کیا گیا اور ا طالوی شہری جیوانی‘ جنہیں اگلے سال اٹھایا گیا‘ دونوں پاکستان میں ایڈ ورکر تھے ۔جیوانی کی انسان دوستی بھی اسے سنٹرل افریقن ریپبلک سے ہیٹی اور بالآخر پاکستان لے گئی ۔وائن سٹین کو واقعی پاکستان سے محبت تھی۔اس نے داڑھی رکھ لی تھی اور پاکستانی بزرگوں جیسا لبادہ پہنتا تھا‘ وہ اردو بولتا تھا اور ا پنے مذہب یہودیت سے لگاؤ کے باوصف رمضان المبارک کا استقبال کرتا اور روزے رکھتا تھا۔
غزن نے کیلے فورنیا کے دیہی علاقے میں پرورش پائی جہاں اس کے والدین فل اور جینیفر بکریاں پالتے اور پنیر بیچتے تھے ۔وہ زندگی کی جدید آسائشوں پانی اور بجلی کے بغیر گزارا کرتے اور ہپیوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے ۔ غزن پہلا امریکی تھا جس پر بغاوت کا الزام لگا ۔وہ مسلمان ہوا اور اس نے ''عظام امریکی‘‘ کا نام اختیار کیا اور القاعدہ کی قیادت میں تیزی سے آگے بڑھنے لگا ۔ القاعدہ کو انگریزی بولنے والے لوگوں کی ضرورت تھی۔ 2004ء کے بعد وہ القاعدہ کے پروپیگنڈے میں نمودار ہوا ۔ امریکہ پر نائن الیون حملوں کی تعریف کی اور اپنے وطن میں مزید خون خرابے کی دھمکی دی۔ ایک بار اپنے وڈیو پیغام میں اس نے کہا تھا: ''امریکہ کے گلی کوچے انسانی خون سے رنگین ہو جائیں گے‘‘۔ وہ جبراً حکومت پاکستان کا تختہ الٹنے‘ شام کے باغیوں کے لئے مغربی امداد رد کرنے اور امریکہ میں قید لیبیا کے عسکریت پسندوں کا انتقام لینے کا وعظ کرتا رہتا تھا ۔
احمد فاروق پیدا تو بروک لین نیو یارک میں ہوا تھا مگر اس کی پرورش پاکستان میں ہوئی ۔ اس کا اصل نام راجا محمد سلمان تھا۔ اس کا خاندان جہادیوں سے وابستہ تھا ۔ وہ ترقی کرتے کرتے ''جنوبی ایشیا میں القاعدہ‘‘ کے نا ئب امیر کے مرتبے کو جا پہنچا مگر اس کی شہرت غزن سے کم تھی اور غالباً سب جہادیوں کو بھی اس کی قومیت کا علم نہیں تھا ۔یہ واضح نہیں کہ دو اور لیڈروں کی موت سے القاعدہ پر کوئی اثر ہوگا یا نہیں جو اسامہ بن لادن کی ہلاکت‘ پاکستان اور یمن میں ڈرون حملوں اور آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved