اکانومسٹ کے اس ہفتے کے اداریے کی سرخی ہے ''یونان کا یورو زون سے نکلنا ناگزیر ہوگیا ہے‘‘۔
آج عالمی معیشت خطرات کی زد میں ہے۔ یونان کا بحران دوبارہ شہ سرخیوں میں ہے اور اس کے پورے یورپ کو اپنے ساتھ لے ڈوبنے کے خطرا ت سنگین ہوگئے ہیں۔ سرمایہ داری کا بحران ، دو عالمی جنگوں کے درمیانی عرصے کی طرح گہرا اور طویل ہے۔ مرکزی بینک اور حکومتیں‘ اس بحران سے بوکھلائے ہوئے ہیں اور اس سے نکلنے کے لیے سر کھپا رہے ہیں۔ 2008ء کے بحران کے بعد، جو 1930ء کے بعد سب سے گہرا بحران تھا، سرمایہ دارانہ نظام میں بحران ، معاشی جمود اور تفریط زر کا دور دورہ ہے۔ بحالی کی تمام تر علامات ہوا ہوچکی ہیں۔ معاشی پیداوار میں معمولی اضافے کے بعد زوال یا کمزور اشاریے واپس آجاتے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی کریں ، اس پیچیدہ بحران سے نہیں نکل سکتے ۔ اصطلاحاً یہ ایک نیا '' معمول ‘‘ ہے۔
آئی ایم ایف نے اپنی سال میں دو مرتبہ شائع ہونے والی ورلڈ اکنامک آئوٹ لُک میں آگاہ کیا ہے: '' دنیا کی بڑی معیشتوں کو کم شرح ترقی کے طویل دور کے لیے تیار رہنا چاہیے‘ جس کی وجہ سے حکومتوں اور کمپنیوں کو اپنی قرضوں کی سطح کو نیچے لانے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ ‘‘ یہ انتبا ہ اس خوف کو مزید گہرا کرے گا کہ عالمی معیشت کوکم شرح ترقی کے ایک طویل دور کا سامنا ہے جس کے اثرات محض قرضوں تک محدود نہیں ہیں۔ رپورٹ میں خوفناک انداز میں یہ بھی دکھا یا گیا کہ موجودہ عالمی معاشی بحران گزشتہ بحرانوں سے زیادہ گہرا ہے اور عارضی اثرات کی بجائے معاشی ترقی کی شرح کو مستقلاً کم کر سکتا ہے۔بالخصوص چین کی پیداوار میں تیز رفتار سکڑائو آسکتا ہے ، ایک ایسے وقت میں جب چین معیشت کو متوازن کرنے کے لیے سرمایہ کاری سے کھپت کی طرف جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ نام نہاد ابھر تی ہوئی معیشتوں میں معاشی سست روی مزید تیز ہوگی۔ ممکنہ پیداوار میں نمو ، جوبحران سے پہلے مسلسل بڑھتی رہی ، 2008ء سے 2014ء کے درمیان 6.5فیصد سے کم ہوکر اگلے پانچ سالوں میں 5.2فیصد تک گر سکتی ہے۔ آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں 2015ء اور 2020ء کے درمیان پیداواری نمو سالانہ 1.6فیصد رہے گی۔
یورپین سنٹرل بینک اپنے ڈھنگ سے مقداری آسانی لاگو کر رہی ہے جس سے ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا ہے اور عالمی منڈی میں امریکہ کی مسابقتی پوزیشن متاثر ہوئی ہے۔امریکہ میں حالیہ سست روی اس کی کمزور برآمدات کی وجہ سے ہے۔ کوریا ، کینیڈا، سویڈن ، آسٹریلیا اور حتیٰ کہ چین نے اپنی کم ہوتی ہوئی تجارتی مسابقتی صلاحیتوں کے پیش نظر اپنی شرح سود میں غیر معمولی کمی کی ہے ۔اس سے تجارتی جنگ کے شدت پکڑنے کے اندیشے ہیں۔
ماضی میں ابھرتی ہوئی منڈیوں نے زائد سرمائے کو جذب کر کے شرح نمو کو بڑھایا اور پھر انہی اثاثوں کو دوبارہ مغربی معیشتوں میں کھپا یا ۔ اس معاشی سرگرمی نے ایک عرصے تک سرمایہ داری کو آگے بڑھایا ۔ اب یہ سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ ایک معکوس عمل میں سرمایہ ان ابھرتی ہوئی معیشتوں سے باہر منتقل ہورہا ہے۔ جس سے پوری عالمی معیشت میں عدم استحکام جنم لے رہا ہے۔ ان کے اثرات ترقی کی بجائے تنزلی لا رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کی مجموعی غیر ملکی کرنسی کے ذخائر 2014ء میں114.5ارب ڈالر کی گراوٹ سے 7.74 ہزار ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔
جاپان بھی دہائیوں کی سست رفتار نمو اور تفریط زر سے نکلنے کے لیے اپنے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔ اس کے باوجود نوٹ چھاپنے کی پالیسی کے اجرا سے افراط زر میں معمولی اضافہ ہی ہوا ہے۔ مندی اور تفریط زر وبائی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مسائل کو دوسروں کی قیمت پر حل کرنے کی کوشش ہر ملک کر رہا ہے۔ ہم پہلے ہی ''کرنسی کی جنگ‘‘ کی اصطلاح سے واقف ہیں۔ تقریباًتمام بڑے مرکزی بینک، اگر ایک دوسرے کے مقابلے میں نہیں تو اجنا س اور خدمات کے مقابلے میں یقینی طور پر، اپنی کرنسیوں کی قدر میں کمی کر رہے ہیں۔
اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ یورپ کی جیت امریکہ کی ہار ہے۔ایک ملک عارضی طور پر تو بچ نکل سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عالمی معیشت بھی بچ گئی۔ کفایت شعاری کے اقدامات معیشت سے بچی کھچی طلب بھی ختم کر رہے ہیں جس سے معاشی حالت مزید خراب ہوجائے گی۔80ء کی دہائی سے سرمائے کے مالکان کا عالمی دولت میں حصہ بڑھ گیا جبکہ محنت کا
حصہ گھٹ گیا۔ جرمنی اپنے ماڈل کو پورے یورپ پر لاگو کرنا چاہتا ہے۔ اس سے جنوبی یورپ میں فاقے ہوں گے۔ یونان یورپی بحران کا مرکز ہے۔ یہ یقینی طور پر کھائی کے دہانے پر ہے۔ کوئی بھی حادثہ یونان کو یورو سے فارغ کرکے ایک تباہ کن بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ سرمایہ داری کے تضادات بہت گہرے ہیں۔ ہر ملنے والی مہلت آنے والے برے دنوں کو محض ملتوی کر تی ہے لیکن اس سے وقت آنے پر ٹکر مزید بھیانک ہوگی۔
یوروزون میں بیروزگاری 11.2 فیصد ہے اور بہت کم ماہرین معیشت اس بات کو مانتے ہیں کہ نمو کی رفتار اتنی تیز ہوگی کہ کمپنیاں مزید مزدور وں کو ملازمت پر لیں گی۔ نتیجتاً بیروزگاری ایک مستقل شکل اختیار کر چکی ہے۔
یہی سرمایہ داری کا وہ بنیادی تضاد ہے جو موجودہ عالمی بحران کی وجہ ہے۔ نظام اپنی آخری حدود تک پہنچ چکا ہے۔ نام نہاد بحالی ہمیشہ کی طرح کمزور ہے۔ سرمائے کے پالیسی ساز ایک پالیسی سے دوسری پالیسی کے بیچ ڈول رہے ہیں جبکہ افق پر نئے طوفان جنم لے رہے ہیں۔ نتیجتاً وہ جو کچھ بھی کریں ، غلط ہوگا۔
فنانشل ٹائمز نے لکھا ہے ، '' ایک مندی یا طویل کساد بازاری صرف معاشی بدحالی نہیں لاتی۔ یہ عمومی نظریات کو رسوا کر دیتی ہے اور سیاسی ٹولوں کے خلاف غم و غصے کو جنم دیتی ہے اور اس کے اثرات معاشی بحالی کے بعد بھی جاری رہتے ہیں۔ یورپ کی معاشی بے چینی کے احساس کو ختم کرنے کے امکانات بالکل موجودنہیں ہیں۔ پورے یورپ میں ایک خوف کا عالم ہے۔ اب انہیں معیار زندگی میں ایک مستقل گراوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بحران کی شدت کی وجہ سے زیادہ تیزی اور وحشیانہ انداز میں اجرتوں اور پنشن میں کٹوتی ہوئی۔ لیکن وہ ممالک جو اس بد ترین بحران سے بچ گئے‘ انہیںبھی معیار زندگی میں گراوٹ کا سامنا ہے۔ (فنانشل ٹائمز، 23مارچ 2015ء )
اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹیوں کا ابھار بحران کی غمازی کرتا ہے۔ یہ شعور میں ایک بڑی تبدیلی ہے اور لوگ سرمایہ دارانہ نظام پر سوالات اٹھا ر ہے ہیں ۔ ایک بات مکمل طور پر واضح ہے کہ سرمایہ داری کی بنیاد پر کوئی حل موجود نہیں ۔
2008 ء میں جب ملکہ برطانیہ الزبتھ نے دنیا کے معاشی علوم کے سب سے بڑے شہرت یافتہ ادارے ''لندن اسکول آف اکنامکس‘‘ (LSE) کے دورے میں معاشی ماہرین اور سکالروں سے سوال کیا''اس(2008ء کے کریش) کا کسی کو اندازہ ہی کیوں نہیں ہوسکا؟‘‘ دنیا کے سب سے بڑے معاشی ماہرین کے پاس خاموشی کے علاوہ کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کے چند ماہ بعد ایل ایس ای کے معاشیات کے سینئر پروفیسر لارڈ ڈیسائی نے Hubris (زعم/ گھمنڈ) کے نام سے ایک کتاب لکھی اس میں انہوں نے معیشت دانوں کو مارکسزم اور آسٹرین سکول کی دستاویزوں میں اس بحران کا حل تلاش کرنے کی تلقین کی ہے۔ اگر دنیا کے اتنے بلند پایہ سرمایہ دارانہ معیشت دانوں کو مارکسزم کی سائنسی اور تاریخی سچائی تسلیم کرنی پڑ گئی ہے تو پاکستان کے بڑے بڑے دانشور او ر تجزیہ نگار ''مارکسزم‘‘ اور ''انقلابی سوشلزم‘‘ کو جس تضحیک سے رد کرتے ہیں ۔ وہ ان کی جہالت کی غمازی کرتا ہے۔