تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     02-05-2015

دستِ قضا

سبین محمود اورپھر ڈاکٹر وحید الرحمٰن... یہ کیسا دستِ قضا ہے جو صرف سوچنے اور بولنے والوں ہی کی طرف لپکتاہے؟لوگ دنیا سے اٹھ جاتے ہیں یا پھر ہجرت پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔اہلِ علم اٹھ جائیں تو کیا علم باقی رہے گا؟
میں اِن دونوں سے کبھی نہیں ملا۔پس ِمرگ جانا کہ وہ کون تھے۔قدرِ مشترک وہی تھی کہ سوچتے تھے اور اپنی بات کاا بلاغ بھی کرتے تھے۔ممکن ہے غلط کہتے ہوں۔کیا غلط کہنے سے جینے کا حق چھن جاتا ہے؟جینے کا حق صرف دو صورتوں میں باقی نہیں رہتا: فساد یا قتل۔ کیا یہ فسادی تھے؟ کیا قاتل تھے؟پھر یہ فیصلہ تو عدالت کرتی ہے کہ کون مجرم ہے۔یہ جگہ جگہ عدالتیں کیوں لگی ہیں؟لوگ خود ہی مدعی اور خود ہی منصف ہیں۔کہتے ہیں کہ کسی ریاست میں ایک سے زیادہ عدالتی نظام نہیں چل سکتے۔ یہاں تو دو نہیں کئی عدالتی نظام ہیں۔کوئی مذہبی بنیادوں پر موت کی سزاسناا ور نافذکر رہا ہے۔ کوئی روایت‘ علاقے‘ زبان اور نسل کے نام پر قتل کر رہا ہے۔کوئی سیاسی مفاد کے لیے مار رہاہے اور کوئی اس لیے جان لے رہا ہے کہ وہ قانون سے ماورا ہے۔سوچنے سمجھنے والے مرتے رہے توکیا یہ سماج زندہ رہ سکے گا؟
قتل کی ہر صورت کا نتیجہ فسادہے لیکن اس کی سب سے سنگین شکل سوچ کا قتل ہے۔ان لوگوں کو مار دینا جو مروجہ خیالات سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔جو ،مذہب،سماج اور سیاست کے باب میں نئی سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔اس کا ایک ہی نتیجہ ممکن ہے اور
وہ جمود ہے۔لوگ نئی بات کہنے سے ڈرنے لگیں۔ سوچیں دل میں گھٹنے لگیں۔ایسے معاشروں میں کوئی ابن تیمیہ پیدا ہو سکتا ہے‘ نہ اقبال۔ کوئی نیوٹن جنم لے سکتا ہے نہ آئن سٹائن۔ایک ڈاکٹر فضل الرحمن پیدا ہوا تو ہم نے اسے اگل دیا۔ عبدالسلام کے علم سے فائدہ اٹھانے کے بجائے، اس کی مذہبی شناخت کا مسئلہ اٹھادیا۔ علم کے ساتھ تعصب اہلِ علم سے تعصب کو ہوا دیتا ہے۔ اس کی بدترین صورت یہ ہے کہ یہ تعصب اہلِ علم کی جان کے درپے ہو جا تا ہے۔اہلِ علم مرتے ہیں تو علم مرتا ہے۔ علم مرتا ہے تو سماج مر جا تا ہے۔ذرا سوچیے! کیا ہم زندہ ہیں؟
اختلاف کے ساتھ معاملہ کرنے کے دوطریقے ہیں۔ایک مناظرہ اور ایک مکالمہ۔مناظرہ اس لیے ہو تا ہے کہ مجھے ہر صورت میںاپنے موقف کو غالب کر نا ہے۔مناظرہ کسی اخلاقی قدر کا پابند نہیں ہو تا۔مناظرہ فتح یا شکست پہ منتج ہو تا ہے۔مناظرے کی نفسیات کا لازمی نتیجہ محدودیت اور جمود ہے۔امام غزالی نے اسی لیے اس رویے سے رجوع کیا۔ہم اپنے ٹی وی ٹاک شوز میں جو کچھ دیکھتے ہیں یہ مناظرے ہی کی ایک صورت ہے۔مناظرہ ایک رویہ ہے جس نے مذہب کے دائرے میں جنم لیا اور اب سیاست میں بھی سرایت کر چکا ہے۔اس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ٹاک شوز نے ہمارے اجتماعی
شعور پر جو اثرات ڈالے ہیں، وہی اثرات مناظرے نے ہماری مذہبی نفسیات پر مرتب کیے۔انتشارِ فکر اور نفرت۔دلیل سے زیادہ گلے پر زور۔ہم نے آوازِ بلند کو دلیل کا متبادل سمجھ لیا۔اس نفرت کا حتمی ظہور یہ ہے کہ ہم اپنے مخالفین سے زمین کو پاک کردینا چاہتے ہیں۔
دوسرا طریقہ مکالمہ ہے۔یہ باہمی استفادے کا نام ہے۔ اس میں ہم دوسروں کا موقف سنتے اور اس پر آ مادہ رہتے ہیں کہ اگر اُس میں کوئی خیر ہے تو اسے اپنا لیں گے۔دوسروں سے بھی ہم یہی توقع ر کھتے ہیں۔یہ امکان بھی مو جود ہو تا ہے کہ دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم رہیں۔تاہم اس صورت میں ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اگر ہمیں اپنے موقف پر اصرار کا حق ہے تو دوسرے کو بھی یہ حق حاصل ہے۔یوں ہم اختلافِ رائے کے ساتھ جینے کے آداب سیکھتے ہیں۔فطرت کا سبق یہ ہے کہ جو تنوع کے ساتھ جینے کا راز جان گیا ،اس سماج کا ارتقا رک نہیں سکتا۔پھر صبح و شام اس کا مقدر بدلتا ہے۔ایسے معاشرے صورتِ خورشید جیتے ہیں: اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے،اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۔پھر اختلاف کے باوجود دوسرے کے جینے کا حق تسلیم کیا جا تاہے۔ اس طرح سماج میں جمود نہیں ارتقا ہوتا ہے۔زندگی رواں دواں رہتی اور سماج فنون، روایت اوردیگر شعبہ ہائے زندگی میں نئے نئے ذائقوں سے آ شنا ہو تا ہے۔یوں نئے افق دریافت ہوتے اور نئے جہاں وجود میں آتے ہیں۔
سبین کا قتل کیوں ہوا؟وحید الرحمن کو کیوںمارا گیا؟مقتولین کی تعداد کیوں بڑھتی جارہی ہے؟اس لیے کہ ان سے مختلف رائے رکھنے والے مکالمے پر یقین نہیں رکھتے۔اس سے پہلے ڈاکٹر شکیل اوج۔اُن سے بھی پہلے ڈاکٹر فاروق خان یامو لا نا حسن جان اور مولانا سرفراز نعیمی۔ان میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جس سے کسی دوسرے کی جان و مال یا عزت و آ برو کو کوئی خطرہ ہو سکتا تھا۔اگر یہاں مکالمے کا کلچر ہو تا تو ان سے اختلاف کیا جاتا لیکن ان کے جینے کا حق تسلیم کیا جا تا۔یہ ریاست کی ناکامی تو ہے ہی لیکن یہ سماجی اقدار کے کمزور ہونے کی بھی دلیل ہے۔سماجی روایات کو انتہا پسندی نے اپنے پاؤں تلے روند دیا۔اس نے اختلافِ رائے کوناقابلِ برداشت قرار دے دیا۔زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔خدا کے مقابلے میں یہ دعویٰ نمرود کا تھا:میں زندہ کرتا اور میں موت دیتا ہوں۔
یہ رویے کیسے فروغ پاتے ہیں؟ایک سبب یہ ہے کہ ہم اختلاف رائے کی بنیاد پر دوسروں کے لیے بے تکلفی سے اسمائے صفت استعمال کرتے ہیں۔گمراہ، ضال، مضل،غدار،مادہ پرست۔ہم اگر ٹھہر کر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ایسے الفاظ کا استعمال کس طرح کی نفسیات کا اظہار ہے۔ مزید غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس سے ہم لوگوں کی کیا تربیت کر رہے ہیں۔ہمارے پڑھنے اور سننے والے اختلاف کی بنیاد پر دوسروں کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے۔اس کے بعد اگر کوئی اختلاف ِ رائے کی وجہ سے دوسرے کی جان لینے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو ہمیں اس پر حیرت نہیں ہو نی چاہیے۔
یہ قتل بتا رہے ہیں کہ یہاں مکالمہ مر رہا ہے۔ہمیں مکالمے کو زندہ کر نا ہے۔اس لیے ضروری ہو گیا کہ ایسے ہر قتل کے خلاف پوری قوم صدائے احتجاج بلند کرے۔اپنے اپنے مقتول کا طرزِ عمل سب کو مارے ڈالے گا۔مکالمہ سماج کو زندہ رکھ سکتا ہے۔انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جس فکر میں جان ہو وہ زندہ رہتی ہے۔ہمیں افکار کی زندگی کو افراد کی زندگی سے الگ کر کے دیکھنا ہوگا۔ بعض اوقات لوگ مر جاتے ہیں مگر فکر زندہ رہتا ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ حیاتیاتی اعتبار سے زندہ لوگ فکری طورپر فوت ہو جا تے ہیں۔ہمیں اپنی فکر پر بھروسہ ہے تو مخالفین کے حقِ حیات کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ بصورتِ دیگر ہمارے مخالفین مر جائیں گے لیکن ساتھ ہی ہماری فکر کو بھی قبر میں لے جائیں گے۔ ہمیں آج فیصلہ کرنا ہوگا۔مکالمہ یا مناظرہ؟جمود یا ارتقا؟اگر ہم مکالمے اور ارتقا پر یقین رکھتے ہیں تو پھرہمیں دستِ قضاکو روکنا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved