کیا زمانہ تھا کہ جب افسانے پڑھا کرتے تھے اور مزہ بھی آتا تھا۔ اب نہیں پڑھے جاتے تو زیادہ مزہ آتا ہے کیونکہ وہی پرانا مزہ اپنے اندر تازہ رہتا ہے۔ البتہ اب افسانہ نہ پڑھ سکنے کا کوئی افسوس بھی نہیں۔ وقت بھی نہیں ملتا اور کام کی چیزیں پڑھنا ویسے ہی بُرا لگنے لگا ہے کیونکہ یہ بجائے خود ایک کام ہے اور کام کوئی کب تک کرتا چلا جائے؛ چنانچہ اب کیفیت یہ ہے کہ ؎
نہ کوئی بات کہنی ہے نہ کوئی کام کرنا ہے
اور اُس کے بعد کافی دیر تک آرام کرنا ہے
ذکاء الرحمن کے ساتھ ایک پرانی نسبت تو یہ ہے کہ اس کا تعلق چشتیاں سے ہے جو بہاول نگر سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ اور‘ بہاول نگر میری جائے پیدائش بھی ہے اور ننھیال بھی۔ اور‘ یہ بات اس زمانے کی ہے جب ہم 'سویرا‘ میں اکٹھے چھپا کرتے تھے۔ پھر ملاقاتوں کا سلسلہ ایک دم منقطع ہو گیا اور جس کا احیاء اس طرح سے ہوا کہ کچھ دن پہلے وہ سرور سکھیرا کے ہمراہ باقاعدہ نازل بھی ہو گئے۔ یہ ایک دوآتشہ تھا جس پر اپنا یہ شعر یاد آیا ؎
میں اب کے اُس کا بھی احسان مند ہوں جو‘ ظفرؔ
غریب خانے پہ اُس خوشنما کے ساتھ آیا
تاہم آپ سمجھ لیں کہ میں دونوں کا احسان مند ہوں جو ایک دوسرے کے ساتھ چلے آئے۔
زیرِ نظر کتاب‘ جس کا نام ''ذکاء الرحمن کے افسانے‘‘ ہے‘ میں اس کے تین افسانوی مجموعے یکجا کر دیے گئے ہیں یعنی ''درد آئے گا دبے پائوں‘‘، ''میں اور زمین‘‘ اور ''خوابِ سنگین‘‘، اگرچہ تیسرا اپنے نام کی مناسبت سے شعری مجموعہ ہونا چاہیے تھا۔ اس کتاب کا دلچسپ اور بسیط دیباچہ ہمارے اتنے ہی پرانے دوست اور صاحبِ طرز افسانہ نگار انور سجاد نے لکھا ہے۔ ان کا تجریدی افسانے لکھنے کا گناہ تو میں پہلے ہی معاف کر چکا ہوں لیکن اتنی دیر بغیر رابطے کے رہنے کا نہیں‘ اگرچہ اس گناہ میں خود میں بھی اتنا ہی شریک ہوں۔ ایک اور خوشی اس بات کی ہے کہ جیسا کہ میں کہیں لکھ چکا ہوں کہ شعراء کو شاعری کی تنقید خود لکھنی چاہیے تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ افسانہ نگاروں کو بھی افسانے کی تنقید خود لکھنی چاہیے کیونکہ جو جس صنف میں لکھتا ہے‘ اصولی طور پر اس صنف پر اس کی تنقید بھی دوسروں سے بہتر ہونی چاہیے‘ جیسا کہ انتظار حسین اور آصف فرخی یہ دونوں کام کرتے
ہیں۔ ان میں شمس الرحمن فاروقی کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ انہوں نے افسانے کی تنقید پہلے لکھی اور ''کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ جیسے بے مثل افسانے بعد میں۔
علاوہ ازیں ہماری افسانہ نگار طاہرہ اقبال نے تو کمال ہی کردیا کہ افسانے لکھتے لکھتے افسانے کی تنقید پر ایک کتاب ''پاکستانی اردو افسانہ‘‘ کے عنوان سے لکھ ڈالی ہے‘ جس کی ضخامت ماشاء اللہ ساڑھے سات سو صفحات کو محیط ہے اور جو پاکستانی افسانے کے سیاسی اور تاریخی تناظر میں لکھی گئی ہے جس کا ذکر کسی اگلی نشست میں ہوگا کیونکہ افسانے کی کتاب کا ذکر اذکار ہی اب ممکن رہ گیا ہے‘ اور امید ہے کہ افسانہ نگار خواتین کتاب کے تذکرے ہی کو کافی سمجھنے لگ جائیں گی۔ ذکاء الرحمن کی کتاب کلاسیک لاہور نے شائع کی ہے‘ البتہ اس پر قیمت درج نہیں؛ تاہم یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ مفت تقسیم ہو گی کیونکہ مصنف کی ایک اور کتاب کا اشتہار جو کتاب کے پسِ سرورق پر ''ذات کے اندر‘‘ کے نام سے درج کیا گیا ہے جو موصوف کے کچھ نئے اور پرانے افسانوں کا تازہ مجموعہ ہے‘ وہ بھی ''کلاسیک‘‘ ہی نے چھاپا ہے جس کی قیمت باقاعدہ درج کی گئی ہے۔ اور‘ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ زیر تبصرہ بلکہ تذکرہ کتاب ذکاء الرحمن کے افسانوں کا کلیات نہیں ہے یعنی ابھی اور بہت سا مال اس کے علاوہ بھی موجود ہے اور کارخانہ ابھی چل بھی رہا ہے۔
اس کی تھوڑی سی ورق گردانی کرتے ہوئے میرا جی بہت للچایا کہ اس کے کچھ افسانے پڑھ بھی لوں کیونکہ اگر میں اپنے دوست محمد حمید شاہد کا ایک افسانہ پڑھ سکتا ہوں تو ایک دوسرے دوست کا کیوں نہیں۔ اور‘ میرا کچھ پتا نہیں کہ کسی دن رو میں آئوں تو پاگلوں کی طرح ساری کتاب ہی پڑھ جائوں! بہرحال‘ اگر یہ حادثہ کبھی رونما ہو گیا تو اس کتاب کے حوالے سے آپ کے ساتھ ایک اور ملاقات بھی ہو سکتی ہے کہ ہونی کا کچھ پتا نہیں کہ کب آپ پر وارد ہو جائے۔ اگرچہ ایسے ناگہانی حادثات سے خدا کی پناہ ہی مانگنی چاہیے کہ خدا ہر کسی کو اپنی امان میں رکھے‘ آمین‘ ثمہ آمین!
افسانے کی دنیا میں ذکاء الرحمن بہرحال ایک بڑا نام ہے‘ اس لیے یہ کتاب موجودہ نیوز پرنٹ کی بجائے کسی بہتر کاغذ پر شائع ہونی چاہیے تھی۔ اس کی شکایت ہم اپنے دوست آغا امیر حسین سے تو کر سکتے تھے لیکن غالباً یہ ان کے صاحبزادے سید ندیم حسین آغا نے چھاپی ہے‘ اس لیے زیادہ بے تکلفی کا اظہار نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے اس کا اگلا ایڈیشن عمدہ کاغذ پر آ سکے‘ کہ اگر آدمی اپنی آئی پر آ جائے تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔
اس مجموعے میں تینوں کتابوں کو ملا کر کل 46 افسانے شامل ہیں جن کے بارے میں کم از کم اتنا تو کہا جا ہی سکتا ہے کہ ذکاء الرحمن نے اگر مجھے کبھی مایوس نہیں کیا تو یقینا آپ کو بھی نہیں کرے گا اور آپ کی لائبریری میں ایسی کتابیں ہونی ہی چاہئیں!
آج کا مقطع
جزیرۂ جُہلا میں گھرا ہوا ہے ظفرؔ
نکل کے جائے کہاں چار سُو سمندر ہے