خواجہ معین الدین حسن چشتی سِجزی اجمیری رحمہ اللہ تعالیٰ برصغیر ہند میں تصوف کے سلسلۂ چشتیہ کے بانی ہیں۔ سلسلۂ چشتیہ حضرت ابواسحاق شامی کی طرف منسوب ہے اور حضرت حسن بصریؓ کے توسط سے حضرت علی رضی اللہ عنہ تک جا پہنچتا ہے۔ کہا جاتاہے کہ ہرات کے قریب چشت نامی ایک گاؤں ہے اور چشتی اسی کی طرف منسوب ہے،عام طورپر اُنہیں سَنجری کہاجاتاہے ،لیکن اُن کے وطنِ مالوف سجستان کی طرف نسبت کے حوالے سے صحیح لفظ سَجِزہے۔ خواجہ معین الدین حسن سِجزی کا سلسلۂ بیعت وخلافت خواجہ عثمانی ہَروَنی سے ہے،ہَروَن ایک قصبے کا نام ہے۔خواجہ اجمیری نے حضرت سید علی ہجویری رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزار پر مراقبہ کیا اور یہ شعر انہی کی طرف منسوب ہے ؎
گنج بخش فیضِ عالَم مَظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل ، کاملاں را رہنما
خواجہ معین الدین سلطان محمد غوری سے پہلے اجمیر پہنچے ۔ خواجہ معین الدین چشتی نے پرتھوی راج کے زمانے میں اپنی خانقاہ بنائی۔ لفظِ خانقاہ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ ''خوانگاہ‘‘ کا مُعَرَّب ہے اور اس کے معنی ہیں: ''کھانے کی جگہ‘‘ ، یعنی جہاں فقراء اور مسافروں کے لیے لنگر کا انتظام ہواور بعض نے اسے ''خان اور قاہ‘‘ سے مُرکب مانا ہے، اس کے معنی ہیں: ''عبادت اور دعا کی جگہ‘‘۔دراصل ''خانقاہ‘‘ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں دنیا کی آلائشوں سے کٹ کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ذکر وفکر میں مشغول رکھا جائے، اسی کو قرآن مجید میں ''تَبَتُّلْ‘‘یعنی اپنی توجہ خالص اللہ تعالیٰ کی طرف مبذول کیے رکھنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرتے رہیں اور سب سے لاتعلق ہوکر اُسی سے تعلق جوڑے رکھیں‘‘ (المُزَمِّل:08)۔
صوفیائِ کرام سب سے پہلے توبہ کے ذریعے سالک کے قلب کو پاک کرتے ہیںاور پھر اس پر اللہ تعالیٰ کی جَلالَت اور محبت کانقش ثبت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی نیا اور پائیدار رنگ چڑھانے کے لیے سب سے پہلے لوحِ قلب کو پاک کرناضرور ی ہے تاکہ دنیا اور عَلائقِ (Relevances)دنیا یعنی ماسِوَی اللہ ہر چیز کی محبت سے دل پاک ہوجائے اور اللہ جلَّ شانہٗ کے سوا کسی اور کے لیے غلَبۂ محبت کا شائبہ نہ رہے، اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:''اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیںبنائے‘‘(الاحزاب:04)، یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کے دل میں شیطان کا بھی بسیرا ہو اور وہ محبتِ الٰہی کا بھی مرکز بنا رہے۔توبہ کے بعد انسان ایک نئی روحانی زندگی میں داخل ہوتاہے، ماضی کی معصیتوں سے آلودہ زندگی سے رشتہ توڑتا ہے، چنانچہ مشائخِ چشت نے توبہ کی تین قسمیں بتائی ہیں:(1)''توبۂ ماضی‘‘ کہ انسان ماضی کی معصیتوں سے سچے دل سے توبہ کرے اور اُن کی تلافی کے لیے شریعت نے جو طریقہ بتایا ہے، اس پر کاربند ہو، یعنی وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد جو اس نے پامال کیے ہیں ، اُن پر دل سے نادم ہو اور شریعت کے اَحکام کے مطابق اُن کی تلافی کرے، ورنہ صرف زبانی توبہ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ (2)''توبۂ حال‘‘ کہ اس کا حال اِطاعتِ الٰہی اور اِطاعتِ رسولﷺ کے سانچے میں ڈھل جائے۔ (3)''توبۂ مستقبل‘‘کہ آئندہ کے لیے اللہ کی حقیقی بندگی کے پیمان پر قائم ودائم رہنے کا عہد کرے۔
خواجہ معین الدین حسن اجمیری کے مکمل حالات ثقہ اور مستند ذرائع سے دستیاب نہیں ہیں۔ کچھ اُن کے اقوال ہیں اور زیادہ تر اُن کی کرامات ہیںجو واعظین پُر اثر انداز میں بیان کرتے ہیںاور عامّۃ المسلمین انہیں سن کر روحانی سرور حاصل کرتے ہیں ۔ بزرگانِ دین کے تذکرے کا بنیادی مقصد تواُن کی سیرت وکردار اور شِعار پر عمل کرنا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ اُن کی عزیمت واستقامت کی زندگی کوسامنے رکھا جائے۔ خواجہ صاحب جب ہندوستان میں وارد ہوئے تو وہاں کے سِماج میں ذات پات کا نظام تھا، کچھ لوگ ''اَچُھوت‘‘ کہلاتے تھے، یعنی انہیں اتنا حقیر اور قابلِ نفرت سمجھا جاتا تھا کہ ان سے خدمت تو لی جاتی تھی، مگر اُن سے بدن کا مَس (Touch) ہونا بھی گوارا نہ تھا ۔ ہندو سماج چار ذاتوں میں منقسم تھا، جن میں برہمن سب سے اعلیٰ اور شُودَر سب سے حقیر ذات تھی، انگریزوں نے ان کے لیے Scheduled Castکی اصطلاح وضع کی تھی، یعنی اُن کے نام ایک الگ فہرست میں درج تھے۔
صوفیائِ کرام کا شِعار یہ رہا ہے کہ انہوں نے اِن زیریں طبقات کو انسانیت کا وقار اور احترام عطا کیا، انہیں اپنے ساتھ بٹھایا ، انہیں محبت اور اعتماد عطا کیا ، جس کی وجہ سے وہ اِن کے گرویدہ ہوئے۔ خواجہ معین الدین حسن اجمیری اور تمام صوفیائِ کرام کی خانقاہوں میں لنگر کا نظام اسی وجہ سے چلا کہ یہ خانقاہیں غریب اور نادار طبقات کے لیے دارالکفالت کی حیثیت رکھتی تھیں۔ انہوں نے ایسے انسانوں کو، جو اپنے ہاتھ سے تراشے ہوئے پتھر کے بتوں کے آگے سجدہ ریز تھے یاانہوں نے اپنے دل ودماغ میں خیالی معبود بسا رکھے تھے، اللہ وحدہٗ لاشریک کی بندگی کی معراج عطا کی ۔ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ انبیائِ کرام پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں انہی کمزور طبقات کے لوگ ہوتے تھے، چنانچہ قیصر کے دربار میں ابوسفیان سے جو مکالمہ ہوا ، اُس میں قیصر نے ابوسفیان سے پوچھا کہ اس نئے مدعیِ نبوت پر ایمان لانے والے زیادہ تر کون لوگ ہیں؟، تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ کمزور طبقات کے لوگ ہیں۔
اور یہ فطری بات ہے کہ باطل مذہب کے نام پر جن طبقات نے اجارہ داری قائم کر رکھی ہوتی ہے ‘ وہ اپنی مراعات سے دست بردار ہونے کے لیے آسانی سے آمادہ نہیں ہوتے اور ہمیشہ حق کی مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ایک موقع پر مکے کے سرداروں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : چلیے! ہم آپ کی بات سن لیتے ہیں، لیکن آپ کے ارد گرد جو زیردست طبقے کے لوگ ہیں، جب ہم آئیں تو انہیں اپنے پاس سے اٹھا دیا کریں ، کیونکہ اِن کا ہمارے برابر بیٹھنا ہمارے وقار کے مُنافی ہے، یعنی انہوں نے دین کی بات سننے کے لیے بھی خصوصی رعایت (Special Status)کا مطالبہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ کی شدید خواہش تھی کہ لوگ کسی بہانے اللہ کے پیغامِ ہدایت کو سن لیں، سو آپ کے دل میں خیال آیا کہ اِن کی یہ حُجَّت بھی پوری کردی جائے، تواللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:''اور آپ اپنے آپ کو اُن لوگوں کے ساتھ وابستہ رکھیںجو صبح شام اپنے رب کی رضا چاہتے ہوئے اسے پکارتے ہیںاور آپ اپنی نگاہِ التفات کو اُن سے نہ ہٹائیں‘‘ (الکہف:28)
سو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کا اندازِ دعوت وتبلیغ اِسی شِعارِ نبوت کے مطابق تھا۔آپ نے ہندو سماج میں انسان کی بے توقیری کے باطل مذہبی نظریے کو دعوتِ اسلام کے پھیلانے کے لیے اپنی طاقت میں تبدیل کردیا اور اسی باعت وہ مرجعِ خلائق بن گئے۔ اور تاریخِ انسانیت شاہد ہے کہ جب انسانوں کے کمزور طبقات کو ایمان اور عقیدے کی روحانی قوت ملتی ہے، تواُن کی کمزوری طاقت میں بدل جاتی ہے اور وہ ناقابلِ شکست ہوجاتے ہیں۔ اور بالائی طبقہ (Upper Class)جو مادّی طاقت اور ظاہری اسباب کے زَعم میں رہتاہے، وہ وقت آنے پر ایمان اور عقیدے کی کمزوری کی وجہ سے ریت کی دیوار ثابت ہوتاہے۔ صوفیائے کرام کی خانقاہوں اور مسجدِ نبوی میں صُفّہ کے مکتب میں تعلیم وتربیت اور تزکیۂ نفس قدر مشترک ہے اور اس کی معراج یہ ہے کہ دنیا اپنی تمام تر چکا چوند اور آب وتاب کے باوجود صاحبِ ایمان کی نظر میں بے توقیر قرار پائے۔
حدیثِ پاک میں ہے:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اے حارثہ! تو نے کیسے صبح کی؟، انہوں نے عرض کی: میں نے اس حال میں صبح کی کہ میرا ایمان یقینِ کامل کے درجے میں تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے ، تو تمہارے اِس دعوے کی حقیقت کیا ہے؟، انہوں نے عرض کی:میں نے اپنے نفس کو دنیا (کے غلبۂ محبت سے) سے لاتعلق کرلیا، تو (اب) میرے نزدیک اس کا پتھر اور سونا اور چاندی اور ڈھیلا(بے توقیری میں) برابر ہوگئے، میں نے اپنی راتیں بیدار رہ کر (اللہ کی عبادت میں) گزاریںاور دن پیاسا رہ کر (روزوں کی حالت میں)گزارے، اب مجھے ایسا محسوس ہوتاہے کہ میںعرشِ الٰہی کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھ رہا ہوں اور میں اہلِ جنت کو (خوش وخرم) ایک دوسرے کے ساتھ ملاقاتیں کرتے ہوئے اور اہلِ جہنم کو (شدتِ عذاب کے باعث ) فریادیں کرتے ہوئے سن رہاہوں(یعنی غیبی حقائق مجھ پر منکشف ہونے لگے ہیں)‘‘ (مجمع الزوائدللہیثمی:57/1)۔چنانچہ خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری نے فرمایا: صفائے قلب، اخلاص ورضا اور للّٰہیت کی معراج یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں سمندر جیسی سخاوت، آفتاب جیسی شفقت اورتواضع پیدا ہوجائے ، یعنی سمندر اور آفتاب کی طرح اُس کا فیض اعلیٰ و ادنیٰ کی تمیز کے بغیر سب کے لیے عام ہواور اس فیض رسانی میں کوئی تعلّی اور احسان جتلانے کا شائبہ نہ ہوبلکہ زمین جیسی تواضع ہو جو اپنا سینہ سب کے لیے کشادہ رکھتی ہے اور کسی کو محروم نہیں رکھتی۔