سن تو رکھا تھا کہ جہاں کوئی آفت آنے والی ہو وہاں سے پرندے پہلے ہی کوچ کر جاتے ہیں مگر چند ماہ قبل یہ بات سائنسی طور پر بھی اس طرح ثابت ہوئی کہ امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے کے سائنسدانوں کے‘ ایک خاص نسل کے پرندوں کا کھوج لگانے کے عمل کے دوران‘ یہ بات ان کے علم میں آئی کہ امریکی ریاست Tennessee کے مشرقی پہاڑی علاقوں سے یہ پرندے وہاں آنے والے ایک طوفان سے ایک یا دو روز قبل پرواز کر کے کہیں اور چلے گئے تھے۔
امریکہ میں یہ طوفان گزشتہ برس اپریل کے مہینے میں آیا تھا اور اس نے وسطی اور جنوبی امریکی ریاستوں میں تباہی مچا دی تھی۔ اس طوفان سے Tornadoes84پیدا ہوئے۔ علاقوں کو قبل از وقت وارننگ اور ہر قسم کے حفاظتی انتظامات کے باوجود 38 امریکی شہری اس طوفان کی نذر ہو گئے تھے۔
برکلے یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے پرندوں کے اس طرزِ عمل کو سائنسی بنیاد پر ریکارڈ کر کے اس کو ایک سائنسی حقیقت کا درجہ دے دیا ہے کیونکہ ان کی مطالعاتی رپورٹ ثابت کرتی ہے کہ جس وقت موسمیات کے ماہرین ٹی وی چینلز پر یہ بتا رہے تھے کہ ایک بڑا طوفان وسطی اور جنوبی امریکہ کی طرف بڑھ رہا ہے اور آئندہ 36 گھنٹوں میں ان علاقوں تک پہنچ جائے گا عین اس وقت وہاں کے پرندے اس علاقے کو خالی کر کے جا رہے تھے۔
انسانوں کو اگرچہ پروردگار نے ایسی کوئی حِس عطا نہیں کی جیسی بعض جانوروں کو ملی ہے اور جو انہیں قبل از وقت خطرات کا بتا دیتی ہے مگر ہمارے ہاں کے امیر لوگ اور خاص طور پر وہ امراء جنہوں نے بدعنوانی سے پیسہ بنایا ہوتا ہے اس فن میں ایک استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس خطرے کو ایک دو دن پہلے بھانپنے کے بجائے مہینوں اور بعض صورتوں برسوں پہلے بھانپنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ بے ایمانی اور ہیرا پھیری سے کمائی گئی دولت کو کس ہوشیاری سے یہ لوگ بچا کر رکھتے ہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے کر لیں کہ کم ہی ایسا ہوا ہے کہ بدعنوانی میں پکڑے جانے کے باوجود بھی‘ حکام ان سے وہ رقوم واپس حاصل کر سکے ہوں جو انہوں نے خردبرد کی تھیں۔
سابق صدر آصف زرداری کے دور حکومت میں کتنی تکرار سنی گئی ساٹھ ملین ڈالرز کی۔ عدالتوں میں پیشیاں‘ سوئٹزر لینڈ خط لکھنے سے انکار۔ ایک وزیراعظم تک کو قربان کر دیا گیا مگر رقم محفوظ رکھی گئی۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ اس رقم کو واپس لانا چاہتی تھی۔ اس دور کی حزب مخالف کی تمام جماعتیں بھی یہی چاہتی تھیں اور اگر کوئی ریفرنڈم اس دور میں اس معاملے پر کروایا جاتا کہ رقم واپس لانی چاہیے یا نہیں تو نتیجہ ویسا ہی نکلتا جیسا ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ریفرنڈموں کا نکلا تھا‘ یعنی تقریباً سو فیصد ہاں۔ فرق صرف یہ ہوتا کہ رقم واپس لانے والے ریفرنڈم کا نتیجہ بالکل جینوئن ہوتا جبکہ فوجی آمروں نے جو ریفرنڈم کروائے‘ ہر کوئی جانتا ہے وہ جعلی تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت ملک کی تقریباً ساری ہی آبادی خواہش رکھتی تھی کہ کم از کم یہ رقم تو واپس آ جائے۔ ''تقریباً‘‘ اس لیے کہ زرداری صاحب کے کچھ حامی اس قدر مجبور تھے
کہ وہ یہ خواہش بھی نہیں کر سکتے تھے حالانکہ اُن میں سے بھی بعض کے دل کے اندر تو خواہش موجود تھی کہ یہ بات تو اب کھل ہی جانی چاہیے۔ صرف اور صرف ایک ہستی تھی جو پورے خلوص سے ساٹھ ملین ڈالر کی اس رقم پر قبضہ چھوڑنا نہیں چاہتی تھی اور آخرکار وہی ہستی جیت گئی اور پورا پاکستان ہار گیا۔ محترم آصف علی زرداری کی جماعت جب الیکشن جیت کر آئی تو موصوف باآسانی خود وزیراعظم بن سکتے تھے مگر خطرہ بھانپنے کی وہ صلاحیت جس کا میں نے اوپر ذکر کیا وہ ان کے کام آئی اور انہوں نے وہ عہدہ لیا جس کو مقدمات میں مکمل استثناء حاصل تھا۔
اسی طرح شریف برادران نے بھی خطرہ بھانپنے کی اپنی اسی صلاحیت کے پیش نظر اپنی خاندانی دولت ملک سے باہر بینکوں میں رکھی ہے‘ یا وہیں کاروبار میں لگائی ہوئی ہے۔ عمران خان 126 دن گلا پھاڑ پھاڑ کر کہتے رہے کہ یہ لوگ اپنی دولت پاکستان کیوں نہیں لے کر آتے۔ دھرنے کے دوران میں بڑے بڑے سیاسی رہنمائوں کی بیرون ملک دولت اور اثاثوں کا اس قدر ٹین پیٹا گیا کہ پاکستان میں عوام کی اکثریت اس حق میں ہو چکی تھی کہ ان لوگوں کو فوراً غیر ممالک سے اپنی دولت پاکستان لانا چاہیے‘ مگر دوسری طرف سے ویسا ہی طرزِ عمل سامنے آتا رہا جیسا زرداری صاحب کی طرف سے ساٹھ ملین ڈالر کے معاملے پر آتا تھا۔
آج بھی وہی صورت حال ہے۔ عوامی جمہوریہ چین تو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے مگر زرداری ہوں‘ شریف برادران ہوں یا دیگر امیر و کبیر‘ ہمارے سیاستدان چین کی طرف سے آنے والے اربوں ڈالر پر تو نظر رکھے ہوئے ہیں مگر اپنے سرمائے کو چھیڑنے کو تیار نہیں۔
مجھے یاد ہے جب میں کالج میں زیر تعلیم تھا تو میرا ایک کلاس فیلو لڑکا ایک امیر گھرانے کا ہونے کے باوجود انتہائی کنجوس تھا۔ ہم دوستوں کے لیے اس لڑکے سے کینٹین میں ایک آدھ روپیہ نکلوانا بھی چیلنج بن جاتا تھا۔ اس کو جب بھی کینٹین کے بل میں حصہ ڈالنے کے لیے روپیہ یا اٹھنی دینے کا کہا جاتا تو وہ اکثر جواب میں کہتا ''آپ ہمیں لے لو‘‘ گویا اٹھنی کا نام نہ لو۔
تقریباً ایسی ہی ذہنیت ہمارے ہاں کے ان امیر سیاستدانوں کی ہے جو اپنی دولت کا اپنے ملک کو بھی صحیح حساب نہیں دے سکتے۔ دولت واپس لانے کا کہا جائے تو جواب ملتا ہے۔ آپ ہمیں لے لو۔ ہمیں صدر بنا دو۔ وزیراعظم بنا دو۔ ہماری دولت کا نام نہ لو۔
کہتے ہیں کہ غلط طریقے سے بنایا ہوا مال بے برکت ہوتا ہے۔ بے برکت بھلے ہو مگر اس کی وجہ سے دولت کو پیش آنے والے ممکنہ خطرات کو قبل از وقت بھانپنے کی جو صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے وہ ایک ایسی چیز ہے جو حلال کھانے والوں کے حصے میں نہیں آتی۔
میں نے سٹاک ایکسچینج میں دیکھا ہے کہ لوگ ملازمت ختم ہونے پر یکمشت ملنے والی رقوم سے شیئرز وغیرہ خریدتے ہیں کہ چلیں سود سے بچے رہیں گے اور تھوڑا بہت منافع بھی ملتا رہے گا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سٹاک ایکسچینج میں مصنوعی اونچ نیچ کر کے لوگ اوپر اوپر سے مال بنا جاتے ہیں اور تھوڑے شیئرز رکھنے والے غریب لوگ اکثر اپنا سرمایہ گنوا بیٹھتے ہیں۔ ان بیچاروں میں وہ حِس ہی نہیں ہوتی جو اندھا دھند حرام کمانے والوں کو عطا ہوتی ہے۔
ہمارے ملک کے یہ امیر و کبیر لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ حج اور عمرے بھی کر چکے ہیں۔ عید کی نماز کے دوران ٹی وی پر اگلی صفوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ اسلام سے اس قدر ناواقف ہیں یا دلوں پر قفل ہیں؟
قرآن کا پیغام لے لیں۔ دنیا میں دیگر مذاہب کی جید شخصیات کی زندگیوں کا جائزہ لے لیں۔ کہیں بھی ایسے طرز عمل کی توثیق نہیں ہو سکتی جس میں آغاز جرم سے ہو اور پھر جائز‘ ناجائز ہتھکنڈوں سے دولت کے انبار لگا لیے جائیں۔ اس کے بعد تمام زندگی کا محور اس دولت کی حفاظت کرنا ہو۔ نہ آئین کی پروا‘ نہ قانون کی‘ نہ اخلاقی اقدار کی۔ پاکستان ایسے لوگوں کے لیے تو جنت ہے۔ آپ غور کریں ہمارے حکمرانوں کے تمام اقدامات میں آپ کو ان کی ترجیح اول یہی دکھائی دے گی کہ ان کی دولت محفوظ رہے‘ دوسری ترجیح ہوگی کہ اس دولت میں اضافہ کیا جائے اور پھر تیسری‘ چوتھی‘ پانچویں‘ چھٹی‘ ساتویں ترجیح بھی اپنے یا اپنے خاندان کے مفادات کے گرد ہی گھومتی نظر آئے گی۔ نویں یا دسویں ترجیح کے طور پر البتہ اگر ملک کا بھی کچھ بھلا ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ آخر اگلا الیکشن بھی تو لڑنا ہے۔