تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     03-05-2015

’’را‘‘ کا مجرم راؤ

رائو انوار نے پریس کانفرنس میں کیا غلط کہا؟ اس کا اصل قصور کیا تھا؟ ''را‘‘ کے ایجنٹوں کی گرفتاری؟ کراچی میں بھارتی مداخلت کی نشاندہی؟ یا ایک تنظیم کے بھارتی رابطوں کا افشا؟ مجرموں کی گرفتاری اور اسلحہ کی برآمدگی پر پریس کانفرنس تو ایس ایس پی کیا‘ ایس پی لیول کے افسروں کا معمول ہے‘ البتہ ''را‘‘ کا تذکرہ اور بھارت کی پاکستان دشمنی پر اظہار خیال اس لیول کے افسر نے پہلی بار کیا اور فوری طور پر سزا بھگتی۔ بھارت واقعی طاقت ور ہے اور ''را‘‘ کے ایجنٹ پاکستان میں بہت موثر۔
رائو انوار کی شہرت کیسی ہے؟ وہ کس کے قریب ہے؟ اور عرصہ دراز سے کراچی میں کیوں تعینات ہے؟ متنازعہ پریس کانفرنس سے قبل ایم کیو ایم نے سوال اٹھایا نہ اس وقت بھوکے بھیڑیوں کی طرح اس پر پل پڑنے والے تجزیہ نگاروں نے‘ بھارت اور ''را‘‘ کے ذکر پر جن کی زبانیں شعلے اگلنے لگی ہیں۔ آصف علی زرداری سے قربت‘ زمینوں پر قبضے ‘ پولیس مقابلے اور طالبان کی آڑ میں ''ناپسندیدہ‘‘ عناصر کا ماورائے عدالت قتل منزہ عن الخطا حکمرانوں و سیاستدانوں کی اس بستی میں جرم اور عیب نہیں بلکہ اضافی خوبی ہے۔رائو‘ میجر جنرل نصیر اللہ بابر اور ڈاکٹر شعیب سڈل کی اس ٹیم کا رکن تھا جس نے 1990ء کے عشرے میں دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کو ناکوں چنے چبوائے تھے اور بدبخت کو نوں کھدروں میں چوہوں کی طرح چھپتے پھرتے تھے۔ 
نوے کے عشرے میں ہونے والے آپریشنز کا واحد زندہ سلامت پولیس افسررائو ہے ورنہ باقی دو سو کے قریب افسر اور اہلکار اللہ کو پیارے ہو چکے ۔ یہ بھی رائو انوار کی طرح ''را‘‘ کے تربیت یافتہ بھارتی ایجنٹوں‘ دہشت گردوں ‘ تخریب کاروں اور ٹارگٹ کلرز کی سرکوبی اور ملک کی حفاظت کے لیے سرگرم رہے اور اس کا خمیازہ المناک موت کی صورت میں بھگتا۔ رائو انوار چالاک تھا۔ اس نے 2001ء سے 2014ء تک ایم کیو ایم سے تعرض نہ کیا۔ وہ اپنے ساتھیوں کا انجام دیکھ چکا تھا جنہیں کسی سیاسی حکومت نے تحفظ فراہم کیا نہ سکیورٹی اداروں نے اور نہ جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکمرانی نے۔
شمالی وزیرستان سے لے کر کراچی و بلوچستان تک دہشت گردوں کی سرکوبی اور غیر ملکی ایجنٹوں کا قلع قمع کرنے کے لیے جاری آپریشن ضرب عضب کے صدمے سے ہمارے ''مہربان‘‘ سنبھلے نہ تھے کہ عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ کی پاکستان آمد اور 46ارب ڈالر کے قرض اور سرمایہ کاری کا اعلان ہو گیا۔ بھارت کی خوشامد اور منت سماجت کے علاوہ پرکشش ترغیبات کے باوجود چینی صدر پچھلے سال صرف پندرہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر تیار ہوئے۔ پاکستان میں تین گناہ زیادہ سرمایہ کاری بھلا کون برداشت کر سکتا ہے؟ امریکہ‘ نہ بھارت اور نہ ہمارے دیگر مہربان و قدر دان۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ چین کے صدر کے دورہ پاکستان کا باضابطہ اعلان ہوا تو بلوچستان کے علیحدگی پسندوں‘ کراچی کے ٹاگٹ کلرز اور خیبر پختونخوا کے دہشت گردوں کی کارروائیوں میں تیزی آ گئی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کراچی میں اس طرف اشارہ کیا۔ تربت میں بیس بے گناہ اور غریب مزدوروں کا بہیمانہ قتل اسی بنا پر ہوا‘ جو چینی انجینئرز کی قیادت میں کام کر رہے تھے۔ لاہور اور کراچی میں ان معصوموں سے اظہار ہمدردی کے بجائے Unsilencing Balochistanکا شور‘ سبین محمود اور وحید الرحمان کا قتل اور کراچی‘ کوئٹہ ‘ پشاور اور دیگر مقامات پر فوج‘ پولیس‘ رینجرز اہلکاروں پر حملے‘ کیا ایک ہی سلسلے کی کڑی اور مکروہ کھیل کا حصہ نظر نہیںآتے؟ بلکہ امریکی میڈیا میں پاک فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف تازہ مہم کو بھی اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپریشن میں مصروف فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو متنازعہ بنا دیا جائے‘ انہیں یکسو اور پُرعزم نہ رہنے دیا جائے‘ وہ صبح‘ دوپہر‘ شام الزامات کی زد میں ہوں اور ان کے حوصلے پست تو آپریشن کا انجام معلوم۔
رائو انوار نے پریس کانفرنس میں جو کہا‘ رابطہ کمیٹی نے اس کی تردید کر دی اور رائو انوار کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ بھی ظاہر کیا ۔ یہی معقول طریقہ تھا۔ اگر رائو انوار نے واقعی اپنی پیشہ ورانہ حدود سے تجاوز کیا تھا تو آئی جی پولیس جواب طلبی کرتے‘ سرزنش پر بھی اکتفا کیا جا سکتا تھا مگر ایک طرف حکومت سندھ نے ''را‘‘ کے یاروں اور بھارت کے وفاداروں کا پردہ چاک کرنے والے افسر کو فوری طور پر تبدیل کر دیا دوسری طرف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین فوج‘ آئی ایس آئی اور رینجرز پر چڑھ دوڑے۔اپنے کارکنوں کو کمانڈو ٹریننگ کی ترغیب دی‘ را سے اسلحہ دینے کی اپیل کی ‘فوج کو مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کے طعنے دیئے اور کہا کہ فوج کے تمغے‘ بلّے اور عیش و آرام مہاجروں کی کمائی کا ثمر ہیں۔ 1988ء کے عشرے میں الطاف بھائی نے ٹی وی بیچو‘ کلاشنکوف خریدو کا نعرہ دیا۔ یہ کلاشنکوف آج تک کراچی میں چل رہی ہے۔کوئی مہاجر‘ پنجابی‘پختون‘ بلوچ‘سرائیکی اس سے محفوظ نہیں۔
لوگ حیران ہیں کہ آپریشن جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہو رہا ہے۔ ایم کیو ایم ان سے اظہار برأت کرتی ہے۔ ''را‘‘ اور بھارت کی مداخلت کی نشاندہی رائو انوار نے کی ہے جنہیں فوج اور رینجرز کے بجائے آصف علی زرداری کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ زرداری ایک روز قبل نہ صرف الطاف بھائی کو فون کر چکے ہیں بلکہ ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل کرنے کے خواہاں ہیں مگر ایم کیو ایم کے سربراہ کو غصہ پاکستان اور اس کی حفاظت و سلامتی پر مامور اداروں پر ہے اور وہ ان کا مقابلہ'' را‘‘ سے مل کر کرنا چاہتے ہیں۔ اب الطاف حسین کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات طنزیہ کی‘یعنی دشمن کو دعوت دینا بھی طنز اور مزاح ہے۔ اہل زبان اب سلیس‘ شستہ اور شائستہ زبان میں اظہار مدعّا سے قاصر ہیںکیا؟ ۔
قوم یہ تماشہ ایوب دور سے دیکھ رہی ہے جب اگرتلہ سازش کیس کو سیاستدانوں نے محض اپنے گروہی و طبقاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا اور بھارت کے ایجنٹوں کو کمک فراہم کی۔ شیخ مجیب الرحمن نے رہائی کے بعد اگرتلہ سازش کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ عرصہ دراز سے بھارت کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کر رہے تھے۔ بعد میں کئی مواقع پر حکمرانوں وسیاستدانوں کی مصلحت اندیشی نے ایسے گل کھلائے۔ کراچی میں ہر آپریشن کی ناکامی کی راہ ہماری سیاسی مصلحتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی کمزوریوں کا نتیجہ ہے ورنہ فوج‘ رینجرز اور پولیس نے مل کر دہشت گردوں کا ناطقہ بند کر دیا تھا اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا مشکل نہ رہا تھا۔
اب ایک بار پھر ریاست دوراہے پر کھڑی ہے۔ اقبال نے کہا تھا ؎
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
پاکستان اپنی بقاء و استحکام اور تعمیر نو کی جنگ پامردی سے لڑ رہا ہے اور بھارت کے علاوہ اس کے عالمی سرپرستوں نے اپنے درندوں کو قبائلی علاقہ جات‘خیبر پختونخوا‘ کراچی اور بلوچستان میں زور و شور سے ابھارا ہے۔ ان درندوں کا ٹارگٹ پاکستان اور اس کے عوام ہیں‘ پاکستان کی جنگ لڑنے والے ادارے اور ہمارے قومی مفادات۔ جو بھی ان درندوں کو للکارتا اور ان کے اندرونی و بیرونی پشتیبانوں کو بے نقاب کرتا ہے اس کا تحفظ ریاست اور اس کے وسائل و اختیارات پر قابض حکمرانوں کی ذمہ داری ہے مگر یہاں ہو کیا رہا ہے؟۔دلیر افسروں کی حوصلہ شکنی۔
الطاف حسین کے نفرت انگیز بیان کے خلاف سیاستدانوں نے چوبیس گھنٹے بعد ردعمل ظاہر کیا‘ وہ بھی ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ کے بعد ‘ جبکہ رائو انوار کو اپنے منصب سے اسی رات سبکدوش کر دیا گیا۔ سیاستدان سوچ کی سستی کا شکار ہیں یا تذبذب اور مصلحت پسندی سے مغلوب؟ دہشت گردوں‘ تخریب کاروں اور دشمن کے ایجنٹوں کو اس سبکدوشی سے کیا پیغام ملا؟ یہی کہ ہمارے آقا اس قدر طاقتور ہیں کہ ان کی شان میں گستاخی کرنے والا اپنے منصب پر برقرار نہیں رہ سکتا۔پاکستان کے قومی ادارے غریب کی جورو ہیں۔ ان کے خلاف لاف گزاف بکنے کی ہر ایک کو آزادی ہے ورنہ پیمرا بروقت حرکت میں آتا۔ بانیان پاکستان کی اولاد میں سے کوئی اپنے قائد کی زبان روکتا اور میاں نواز شریف و آصف علی زرداری میں سے کوئی الطاف حسین سے برملا احتجاج کرتامگر کچھ بھی نہ ہوا۔ بلوچستان اسمبلی نے البتہ وطن سے محبت کا حق ادا کیا۔ ''را‘‘ اور بھارت کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں روز افزوں اضافہ حیرت کی بات نہیں۔ مالی و اسلحی امداد حاصل کرنے والے حق نمک ادا کریں گے‘ بلکہ کر رہے ہیں مگر اب کوئی سرکاری افسر ''را‘‘ یا بھارت کے خلاف لب کشائی نہیں کر سکتا؟ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے خلاف ‘ فوج‘ عدلیہ اور ریاستی اداروں کے خلاف گستاخانہ انداز میں بات ہو سکتی ہے۔''را‘‘ کے خلاف نہیں کیونکہ یہ آداب ملازمت کے منافی اور چین آف کمانڈ کی خلاف ورزی ہے۔ ماشاء اللہ ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved