تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-05-2015

دھاندلی اور ایک پنجابی محاورہ

ملتان ٹکنا ہی نصیب نہیں ہوتا۔ کئی روز بعد شہر واپس آتا ہوں تو تازہ حالات کا پتہ چلتا ہے۔ دوستوں سے ملاقات ہوتی ہے‘ گپ شپ ہوتی ہے۔ معاملات پر نئے زاویے سے گفتگو ہوتی ہے۔ کنٹونمنٹ کے الیکشن والے روز بہرحال میں نہ صرف ملتان میں تھا بلکہ ایک دو دوستوں کے ہمراہ کئی گھنٹے تک کنٹونمنٹ کے علاقے میں گھومتا بھی رہا اور نہ صرف یہ کہ گھومتا رہا بلکہ ووٹ بھی مانگتا رہا۔ اسے میری بدقسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ میرے دونوں دوست تھوڑے تھوڑے ووٹوں سے ہار گئے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ میرے ان دونوں دوستوں کا تعلق تحریک انصاف سے تھا۔ نتیجہ آنے سے قبل ہی مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ دونوں دوست بہرحال ہار رہے ہیں۔ تاہم یہ بات میں اپنے ذاتی یقین کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ میرے یہ دونوں دوست الیکشن ہارنے کے معیار پر میرٹ سے پورے اترتے تھے۔ دھاندلی کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ہمارے ملک میں الیکشن ہارنے کے لیے میرٹ پر پہلا نمبر شرافت کا ہے۔ میرے یہ دونوں دوست کنفرم شریف آدمی ہیں۔ دوسرا نمبر اخلاص کا ‘ تیسرا سچائی کا اور چوتھا اصول پسندی کا ہے۔ الحمدللہ دونوں دوست چاروں خوبیوں سے مالا مال تھے لہٰذا ہار گئے ۔ اب اگر وہ خود بھی کہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے تو کم از کم یہ عاجزان کی بات سے متفق نہیں ہو گا۔ تاہم ابھی تک صورتحال یہ ہے کہ ہر دو اشخاص نے ذاتی طور پر ایسا کوئی دعویٰ کیا بھی نہیں۔
پرسوں ایک جگہ دوست بیٹھے تھے کہ خان اچانک مجھ سے پوچھنے لگا کہ پنڈی کنٹونمنٹ میں پی ٹی آئی کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا: راولپنڈی میں وہی کچھ ہوا ہے جو باقی جگہوں پر ہوا اور ملتان میں ہوا۔ خان پھر کہنے لگا‘ مجھے تفصیل سے بتائو کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا: تم محض دل لگی کر رہے ہو‘ بلکہ صحیح الفاظ میں ''مسخری‘‘ کر رہے ہو۔ تم پرانے الیکشن باز ہو۔ تمہاری ساری عمر الیکشن لڑواتے گزر گئی ہے۔ تم گزشتہ کئی عشروں سے اپنے موضع میں یکطرفہ الیکشن کروا رہے ہو۔ تمہیں کوئی اور کیا بتائے کہ الیکشن کس طرح لڑا جاتا ہے‘ پاکستان میں الیکشن لڑنے کے لیے کیا ضروری لوازمات ہیں۔ الیکشن ایک باقاعدہ مضمون ہے‘ سائنس ہے‘ مکمل طریقہ کار ہے۔ خاص طور پر الیکشن ڈے۔ الیکشن ڈے پورے الیکشن کا پچپن فیصد ہے۔ باقی سارا الیکشن پینتالیس فیصد ہے۔ووٹروں کو گھروں سے نکالنا‘ پولنگ سٹیشن تک لانا‘ پولنگ ایجنٹوں کا انتخاب باقی سارے والے انتخاب پر بھاری ہوتا ہے۔ الیکشن ایک مینجمنٹ کا نام ہے۔ یہ کورس تجربے سے ملتا ہے۔ بار بار کا تجربہ اور اس میں نئی نئی اختراعات اسے مزید پُرپیچ بنا دیتی ہیں۔ نئے بندے کو تو ہارنے تک سمجھ نہیں آتی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ 
ہمارے دونوں دوست اپنے سے جیتنے والوں سے کہیں بہتر امیدوار تھے‘ مگر ہار گئے۔ صرف اس لیے کہ وہ الیکشن کو ٹربیونلوں کے ذریعے درست کرنے کی منطق پر سو فیصد یقین رکھتے ہیں اور الیکشن کے موجودہ طریقہ کار میں غیبی امداد کے منتظر ہیں۔ اگر وہ موجودہ الیکشن موجودہ حوالے سے درکار طریقہ کار سے نہیں لڑتے تو ہارتے رہیں گے۔ جب تک موجودہ طریقہ کار میں بہتری نہیں لائی جاتی یا تو ہار کے لیے تیار رہیں یا الیکشن لڑنے کے علاوہ کوئی اور کام کریں۔ اگر الیکشن لڑنا ہے تو پھر اسے کم از کم درکار لوازمات کے ساتھ لڑنا ہو گا وگرنہ نتیجہ وہی نکلے گا جو میرے دونوں دوستوں کا نکلا ہے۔ وہ الیکشن ڈے نہیں سنبھال سکے۔ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے پڑھے لکھے ووٹرز کو اپنے الیکشن کیمپ میں بیٹھ کر گھر سے نکال لیں گے۔ نہ ان کے پاس علاقے کے لوگوں کو جاننے والے پولنگ ایجنٹ تھے اور نہ ہی گھروں سے ووٹر اٹھانے اور پولنگ سٹیشن پر لانے والی ٹیم۔ انہیں خود پر اعتماد بلکہ زعم تھا اور اپنے ووٹروں پر یقین۔ دن ڈھلے انہیں اچانک پتہ چلا کہ ان کا خود پر اعتماد بیکار تھا اور اپنے ووٹروں کے بارے میں خوش فہمی تھی۔ انہیں پتہ چلا مگر تب جب الیکشن کا وقت ختم ہو گیا‘ اور ساتھ ہی ساری امیدیں بھی۔
ایک دوست کہنے لگا کیا یہاں دھاندلی ہوئی؟ میں نے کہا‘ منظم اور مربوط دھاندلی کے بارے میں تو اب گیند الیکشن ٹربیونل میں ہے اور بارِثبوت عمران خان کے کندھوں پر ہے۔ مجھے اس وسیع تر دھاندلی کا تو پتہ نہیں البتہ یہ پتہ ہے کہ پرانے الیکشن بازوں کے پاس بے شمار 
طریقے ہیں اور وہ یہ طریقے اپنے زور بازو پر آزماتے ہیں۔ اگر انہیں پولیس‘ پٹواری‘ ضلعی انتظامیہ سے مدد ملتی ہے تو یہ بھی ان کی ذاتی صلاحیتوں کا کمال ہوتا ہے۔ علاقے کا تھانیدار جانتا ہے کہ اس نے ان کے ساتھ ہی رہنا ہے اور گزارا کرنا ہے۔ اسی طرح وہ خود بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ باہمی بھائی چارے کا ہے۔ میں نے خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کیا خیال ہے خان؟ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟ تم بغیر دھاندلی کیے اپنے موضع میں یکطرفہ پولنگ کرواتے ہو۔ عمران نے پوچھا‘ وہ کیسے؟ میں نے کہا‘ خان خود اپنے پولنگ سٹیشن پر بطور ایجنٹ بیٹھتا ہے۔ یہ سارے موضع کو جانتا ہے۔ تقریباً آٹھ سو ووٹ کاسٹ ہوتے ہیں۔ ساڑھے سات سو ووٹ خان اپنے دوست کو ڈلواتا ہے۔ آپ گھنٹوں پولنگ سٹیشن پر کھڑے ہو جائیں۔ آپ دھاندلی کاایک تولہ بھی برآمد نہیں کر سکتے۔ خان جعلی ووٹ نہیں ڈلواتا۔ لوگوں کے شناختی کارڈ جمع نہیںکرتا۔ اندر بیٹھ کر دھونس دھاندلی نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ اشارہ بازی تک نہیں کرتا۔ کسی پر اندر بیٹھ کر دبائو نہیں ڈالتا۔ یہ کام وہ پہلے ہی کر چکا ہوتا ہے۔ آپ اس کے پولنگ سٹیشن پر کیمرے لگا دیں ‘ میڈیا کی فوج کھڑی کر دیں۔ رینجرز کی ڈیوٹی لگا دیں ‘ فوج کے نگرانی میں الیکشن کروا لیں۔ خان کے پولنگ سٹیشن سے ساڑھے سات سو ووٹ اس کے امیدوار کے اور زیادہ سے زیادہ پچاس ووٹ مخالف امیدوار کے نکلتے ہیں۔ یہ عرصے سے ہو 
رہا ہے۔ اگر ووٹروں کی تعداد بڑھ جائے تو خان کو فائدہ ہوتا ہے کہ اس کے ووٹوں کی تعداد اسی نسبت سے بڑھ جاتی ہے۔ اب اگر یہ دھاندلی ہے تو آپ کی مرضی مگر یہ وہ لوازمات ہیں جو آپ ذاتی زور پر پیدا کرتے ہیں اور یہ کہیں دھاندلی ثابت نہیں ہو سکتے۔
خان اس سارے طریقہ کار کی ایک مثال ہے۔ میں ملتان سے الیکشن لڑنے والے ایک شخص کو جانتا ہوں جو کسی بھی پارٹی کا ٹکٹ لے‘ بیس پچیس ہزار ووٹ وہ گھر سے لے کر نکلتا ہے۔ اس کے آبائی قصبے میں موجود پولنگ سٹیشن پر علاقے کا کوئی شخص اس کے مخالف کی پولنگ ایجنٹی نہیں کرتا۔ اس کے آبائی پولنگ سٹیشن پر ہمیشہ باہر سے لا کر پولنگ ایجنٹ بٹھایا جاتا ہے۔ وہ اپنے پولنگ سٹیشن پر سوفیصد کے لگ بھگ ووٹ کاسٹ کرواتا ہے اور پچانوے فیصد ووٹ لیتا ہے۔ اس کے علاقے کا ووٹر جانتا ہے کہ اس نے بہرحال یہیں رہنا ہے۔ میڈیا کی ٹیموں نے‘ رینجرز نے ‘ پولیس نے بالآخر واپس چلے جانا ہے جبکہ اس نے یہی مرنا جینا ہے۔ ویسے بھی وہ اپنے قصبے اور اردگرد کے لوگوں کے لیے ہمہ وقت حاضر ہے۔ اس کا ڈیرہ آباد ہے۔ سائلوں کو سنا جاتا ہے۔ اب بھلا آپ اس کے قصبے کے پولنگ سٹیشن کو کیسے دھاندلی زدہ ثابت کر سکتے ہیں؟ ملتان کے ساتھ والے ضلع میں بھی ایسے دو امیدواروں کو میں جانتا ہوں جو اپنے زیر اثر علاقے میں اسی طرح ووٹ ڈلواتے ہیں۔ یہ برسوں کی روایت ہے اور کوئی اس سے انحراف کی جرأت نہیں کرتا۔ اب بھلا یہ دھاندلی تھیلوں میں بھی ثابت نہیں ہو سکتی۔ آپ ان کے تھیلے کھلوا لیں‘ آپ کو شرمندگی ہو گی۔
(باقی صفحہ 13پر) 
بقیہ: خالد مسعود خان 
مسئلہ اس الیکشن کا یا گزشتہ الیکشن کا نہیں ہے۔ مسئلہ اگلے الیکشن ہیں۔ اس کمیشن سے‘ ٹربیونل سے اور دھرنوں سے 2013ء کے الیکشن کا نتیجہ نہیں بدلے گا۔ جنہوں نے جہاں جہاں دھاندلی کی بھی ہے‘ اچھے خاصے فول پروف طریقے سے کی ہے۔ جو جعلی ووٹوں سے صندوقچی بھر سکتا ہے وہ تھیلے بھی ٹھیک کر لیتا ہے۔ اتنے عرصے میں جو تھیلے ٹھیک نہیں کر سکتا وہ الیکشن والے دن بے ایمانی بھی نہیں کر سکتا اور جو الیکشن والے دن دھاندلی کر سکتا ہے وہ تھیلے بھی ٹھیک کر سکتا ہے۔ بھلا تھیلے اس دوران کوئی مریخ پر بھجوا دیئے گئے تھے؟۔
میں نہ تو دعوے کرتا ہوں اور نہ ہی میرے پاس کوئی بابے وغیرہ ہی ہیں جو الہامی گفتگو کریں اور مستقبل کے بارے مجھے اشارے دیں۔ مگر میرا اندازہ ہے کہ 2013ء کے الیکشن کی دھاندلی والا بھوت کسی کے قابو میں نہیں آئے گا۔ ٹربیونل کا کوئی نتیجہ نہیں ہو گا۔ اس نتیجے سے مراد وہ نتیجہ ہے جو عمران خان چاہتا ہے۔ ہاں آئندہ کے لیے بہتری کے اقدامات ہو سکتے ہیں۔ عمران خان پہیے کو الٹا گھمانے پر اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے بجائے پہیے کو سیدھا چلانے کے لیے زور لگائے اور پاکستان کے الیکشن کے طریقہ کار میں ایسی تبدیلیاں کروا دے کہ آئندہ الیکشن کو اغوا کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے۔ بائیو میٹرک ووٹ‘ آرٹیکل 63,62کی تشریح اور اس کا اطلاق‘ پاکستان کے باہر مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کا حق اور اسی قسم کی دوسری مثبت تبدیلیاں آئندہ الیکشن میں ایسی تبدیلیاں لا سکتی ہیں کہ لوگ عمران خان کو دھرنوں اور 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی سے متاثرہ شخص کے بجائے پاکستان کے الیکشن طریقہ کار کے محسن کے حوالے سے تادیر یاد رکھیں گے۔
''زمین پر گر جانے والے دودھ پر جتنا بھی رولیں ‘ وہ واپس نہیں مل سکتا‘‘۔شاید عمران خان نے یہ پنجابی محاورہ سنا ہو؟ اگر نہیں سنا تو کوئی سمجھدار اسے سنا دے۔ تاہم اسے یہ محاورہ شاہ محمود اور جہانگیر ترین اینڈ کمپنی سے بچ بچا کر سنانا چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved