''ماہ نو‘‘ کا تازہ شمارہ زیر نظر ہے جو اگرچہ ماہِ اپریل کے اواخر میں موصول ہوا ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ پرچہ اپریل ہی کا ہے اور یہ وہ رسالہ ہے‘ کچھ عرصہ پہلے کئی کئی ماہ تک جس کی کوئی خبر ہی نہ ملتی تھی بلکہ کوئی سال ڈیڑھ سال پہلے تو یہ بند ہی ہونے جا رہا تھا اور اس بارے اس کی سمری بھی چلی گئی تھی۔ مجھے پتا چلا تو اس وقت شفقت جلیل صاحب کی جگہ اس کے مدارالمہام ہمارے برخوردار رائو تحسین علی خان تھے‘ میں نے انہیں روکا اور ڈانٹا بھی کہ یہ کیا کر رہے ہو۔ چنانچہ اس کُبڑے کو یہ لات کچھ ایسی راس آئی کہ نہ صرف یہ باقاعدگی سے چھپنے لگا بلکہ اس کا معیار بھی بہتر سے بہتر ہوتا چلا گیا۔
اس شمارے کی خاص چیز ہماری مرحوم شاعرہ ادابدایونی پر گوشہ ہے جو ٹائٹل کی تصویر سے آغاز کرتا ہے۔ مضمون لکھنے والوں میں زاہدہ حنا‘ امجد اسلام امجد‘ شاہدہ حسن اور کاظم جعفری ہیں جس کے علاوہ شاعرہ کی غزل اور نظمیں ہیں۔ لکھنے والوں میں ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ نیلم احمد بشیر‘ قائم نقوی‘ ڈاکٹر غافر شہزاد‘ سعود عثمانی‘ ظفر اکبر آبادی‘ رحمان فارس‘ محمد ممتاز راشد‘ ثناء اللہ ظہیر‘ علی اکبر ناطق اور دیگران شامل ہیں۔
اس شمارے کی دوسری خاص الخاص چیز سعود عثمانی کی سو سے زائد اشعار پر مشتمل طویل غزل ہے جس کے ساتھ شاعر کا نوٹ بھی شامل ہے۔ سعود عثمانی ان پانچ سات نئے شعراء میں سے ہیں جن کا تذکرہ میں اکثر اوقات کرتا رہتا ہوں۔ غزل کی عمومی صورت حال تو کوئی خاص اطمینان بخش نہیں ہے بلکہ میرے سمیت‘ اسے زوال پذیر ہی کہا جا سکتا ہے‘ حتیٰ کہ جن نئے شعراء کو میں خوشی سے شمار کیا کرتا تھا‘ ان دنوں ان کا کلام دیکھ کر بھی مجھے اگر مایوسی نہیں تو تشویش ضرور لاحق ہوئی اور جن میں قمر رضا شہزاد اور افضال نوید بطور خاص شامل ہیں جبکہ میں اپنے آپ سے تو شروع ہی سے مایوس چلا آ رہا ہوں۔
عمدہ شعر کہنا ایک تو ویسے بھی کوئی معمول کی بات نہیں ہے‘ دوسرے اپنے معیار کو پہلے قائم کرنا اور پھر اُسے برقرار رکھنا ایک دشوار تر مرحلہ ہے‘ اور یہ بات غزل کے حوالے سے زیادہ یقین سے کہی جا سکتی ہے؛ تاہم اس کے اس قدر پٹی
ہوئی صنفِ سخن ہونے کے باوجود ہر دور میں زیادہ یا کم عمدہ غزل بھی کہی جاتی رہی ہے جبکہ آج بھی کچھ نوجوان اس اجتہاد میں شامل نظر آتے ہیں۔ کچھ اس لیے بھی کہ غزل کا اساسی موضوع محبت ہے اور جب تک محبت کی جاتی رہے گی‘ غزل بھی کہی اور پڑھی جاتی رہے گی۔ پھر‘ جدید طرزِ اظہار سے بھی اس کی مختلف شاخیں نکلتی رہتی ہیں اور یہ پودا پھول اور پھل لاتا رہتا ہے‘ حتیٰ کہ کلاسیک سے لے کر ہمارا آج تک کا شعری سرمایہ بھی زیادہ تر غزل ہی پر موقوف ہے۔
مشکل یہ بھی ہے کہ ہم لوگ شاعری کو زیادہ وقت بھی نہیں دے پاتے۔ نہ ہی قاری کے پاس اس کے لیے کچھ زیادہ وقت باقی رہ گیا ہے اور نہ ہی ناشر شعری مجموعہ کچھ زیادہ ذوق و شوق سے شائع کرتا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں اس کا رِسک بھی کئی گنا بڑھ چکا ہے جبکہ شوقیہ شاعری کرنے والوں کی تعداد بھی ہمیشہ کی طرح زیادہ چلی آ رہی ہے جو اپنی کتاب اپنی گرہ سے چھپواتے اور صاحبِ کتاب ہو کر سرخرو ہو جاتے ہیں۔ سو‘ اس ماحول میں شعر کے عمدہ معیار کو قائم رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
اس طویل غزل کی تعریف کئی لحاظ سے کی بھی جا سکتی ہے لیکن اس میں سعود عثمانی کم کم ہی نظر آتا ہے۔ مثلاً اس کا یہ شعر میں آدھی دنیا کو سُنا چکا ہوں ؎
تجھے خبر بھی نہیں‘ تجھ میں خاک ہونے تک
ہزار دشت سے گزری ہے آبجو میری
عرض کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ یہ غزل پڑھ کر سعود عثمانی مجھے ایک اور طرح کا شاعر نظر آیا ہے۔ وہ خود مندرجہ بالا شعر اس غزل کے مقابلے میں رکھ کر دیکھیں تو انہیں دونوں کے درمیان فرق کا پتا چلا جائے گا۔ یہ غزل مکمل طور پر بے عیب ہونے کے باوجود اس میں کوئی ایسا شعر نظر نہیں آیا جسے دوسری بار پڑھنے کی خواہش ہو‘ جو کسی کو سنایا جا سکے یا اس کا بطور خاص کوئی حوالہ دیا جا سکے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر شعر محبت ہی کے موضوع پر ہو۔ سعود کا یہ شعر دیکھیے ؎
پلٹا ہوں تو چیزوں پہ بہت گرد پڑی تھی
شاید کوئی دروازہ کھلا چھوڑ گیا میں
اعجاز حسین بٹالوی کہا کرتے تھے کہ غزل کے شعر کو خوش مزہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح فیضؔ صاحب کے نزدیک شعر کی تعریف یہ تھی کہ تازہ ہو۔ میں اس میں یہ اضافہ کروں گا کہ اس میں تاثیر بھی ہو۔ شاید دوسری یا تیسری بار پڑھنے پر یہ غزل کچھ مختلف نظر آئے!
آج کا مطلع
یہ سہولت ہے کوئی اور نہ سہارا ہونا
شہر میں پھر بھی غنیمت ہے تمہارا ہونا