تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     04-05-2015

ایس ایس پی ملیر

تیس دسمبر 2014ء کو علی الصبح نور عالم ولد نور رحمن اپنے معمول کے مطابق فجر سے پہلے کراچی سبزی منڈی پہنچا کہ وہاں سے سبزیاں اور پھل اپنی پک اپ گاڑی میں لاد کر اپنے مستقل گاہکوں کو سپلائی کرسکے۔خریدار ی سے فارغ ہوکر وہ اپنا سامان گاڑی میں رکھ رہا تھا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ پولیس اہلکاروں نے اسے بغیر کوئی جرم بتائے اغوا کیا اور ایک سرکاری گاڑی میں ڈال کر اس کے بھائی شیر عالم کی ٹائر کی دکان پر لے گئے اور اس سے بھائی کو چھڑوانے کے لیے تاوان مانگا۔ شیر عالم نے انکار کیا تو پولیس اہلکاروں نے دکان پر موجود دو رشتہ داروں گل پیر خان اور امیر خان کو بھی اغوا کیا اور جاتے ہوئے بتا گئے کہ ملیر کا ایس ایس پی بہت سخت ہے ۔ شیر عالم نے انصاف کے دروازے کھٹکھٹانے شروع کیے لیکن ملیر کے ایس ایس پی کا نام سنتے ہی ہر دروازہ بند ہوجاتا۔ دو تین دن میں جب کچھ نہیں بن پایا تو اسے سمجھ میں آیا کہ ـملیر کا ایس ایس پی کتنا سخت ہے۔اب وہ ڈرا کہ کہیں اس کا بھائی اور دو رشتے دار ایس ایس پی کی سختی کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں۔ کسی نے اسے مشورہ دیا کہ ان تینوں کی زندگی بچانے کے لیے وہ سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کردے۔ اگلے دن اس نے پٹیشن کی تیاری شروع کردی اور ساتھ ہی آئی جی سندھ کو بھی تحریری درخواست دے دی
کہ ایس ایس پی ملیر نے اس کے رشتہ داروں کو اغوا کرلیا ہے۔ چھ جنوری 2015ء کو اس نے سندھ ہائیکورٹ میں بھی پٹیشن دائر کردی لیکن بہت دیر ہو چکی تھی ۔ ناردرن بائی پاس پر اس کے بھائی اور رشتہ داروںکی لاشیں پڑی تھیں۔ ٹی وی سکرینوں پر ٹکر چل رہے تھے کہ تین دہشت گرد پولیس کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے ہیں اور ملیر کا ایس ایس پی صحافیوں کو بتا رہا تھا کہ یہ تینوں خطرناک طالبان تھے اور کراچی میں کسی بڑی واردات کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ ان کے قبضے سے نقشے، خودکش جیکٹیں ، راکٹ لانچر اور دستی بم برآمدہوئے ،پولیس کی حاضر دماغی، دلیر ی اور منصوبہ بندی کی وجہ سے ان لوگوں کی مزاحمت کام نہ آئی اور یہ مارے گئے جبکہ پولیس والوں میں سے کسی کو کچھ نہیں ہوا۔ شیر عالم اپنے بھائی کا مقدمہ لڑے بغیرہی ہار چکا تھا اور ملیر کا ایس ایس پی فاتحانہ انداز میں اس کے بھائی کی لاش کی نمائش کررہا تھا۔ ملیر کے ایس ایس پی سے کوئی اس مقابلے میںمرنے والوں کے خلاف ثبوت نہیں مانگ سکتا تھا کیونکہ ملیر کا ایس ایس پی راؤ انوار تھا، وہی راؤ انوار جو دنیا کے
سامنے خود کو آصف علی زرداری کا آدمی کہتا ہے، وہی راؤ انوار جس پرقاتلانہ حملہ ہو ا اور پانچ حملہ آور جوابی کارروائی میں مارے گئے ، جی ہاں وہی راؤ انوارجنہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں پر بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ سے تعلق کا الزام لگا کر کراچی میں قانون نافذ کرنے کے لیے جاری آپریشن کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔
کراچی میں مجرموں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف آپریشن کافیصلہ وفاقی حکومت کے دباؤ پر کیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے خود وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف نے صوبائی حکومت سے لے کر جماعت اسلامی تک ہر فریق کو اعتماد میں لیا تھا۔آئی ایس آئی،سندھ رینجرز، پاک فوج، آئی بی اور سندھ پولیس نے ایک نئے عزم کے ساتھ ستمبر 2013ء سے جس کام کا آغاز کیا تھا اس میں پہلی رکاوٹ سندھ حکومت کی طرف سے آئی جب اس نے شاہد حیات کو کراچی پولیس کی سربراہی سے ہٹایا تھا۔ اس کے بعد پولیس میں پے درپے تبدیلیاں کرکے یہ پیغام دیا تھا کہ صوبائی حکومت اس آپریشن کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف یہ سب کچھ دیکھتے بھی رہے اور اپنے اپنے طور پر اس کا توڑ بھی کرتے رہے۔ پولیس نے قدم پیچھے ہٹائے تو رینجرز نے اپنا کام تیز کردیا ۔ رینجرز کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے کی کئی کوششیں ہوئیں لیکن وفاقی حکومت اور پاک فوج کی طرف سے آنکھیں دکھائی جاتیں تو کچھ عرصے کے لیے ایسی کوششیں دم توڑ جاتیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کی حمایت نے رینجرز کو اتنا طاقتور کردیا کہ اس نے شہر میں تقریبا چار ہزار چھاپے مارے ، لوگوں کو پکڑا اور مقابلے کی صورت میں مارا بھی لیکن چھوٹی موٹی شکایات کے سوا کوئی سیاسی جماعت ان پر امتیازی سلوک کا الزام نہیں لگا سکی۔ رینجرز کے آپریشن کا نقطۂ عروج اس وقت آیا جب یہ متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو کے اندر داخل ہوگئے۔ اصولاً تو نائن زیرو پر چھاپے سے کراچی میں یہ پیغام جانا چاہیے تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اب کسی کا لحاظ نہیں کریں گے لیکن صولت مرزا کے ویڈیو بیان کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایم کیو ایم نے کراچی میں جاری آپریشن کو متنازع قرار دینا شروع کردیا۔ اس طریقے سے گویا اس نے پیغام دے دیا کہ ستمبر 2013ء میں جس اتفاق رائے سے کراچی کا امن وامان بحال کرنے کا منصوبہ بنا تھا، وہ اتفاقِ رائے اب قائم نہیں رہا۔
کراچی آپریشن کو متنازع بنانا اس وقت ان لوگوں کی بھی ضرورت ہے جو کراچی میں سیاسی طور پر تو اہم نہیں لیکن ان کے مفادات اسی شہر میں ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ اگر آپریشن کا رخ ان کی طرف ہوا تووہ ایم کیو ایم جتنے سخت جان ثابت نہیں ہوسکیں گے۔ ان کا مفاد اسی میں ہے کہ ایم کیو ایم کو دھکیل کر اس مقام تک لایا جائے جہاں وہ واضح لفظوں میں اس آپریشن کو ناقابل برداشت قرار دے دے۔ اس کے لیے کبھی صولت مرزا کا بیان آتا ہے، کبھی ذوالفقار مرزا بروئے کار آتے ہیں۔ یہ عناصر آخرکار الطاف حسین سے وہ سب کچھ کہلوانے میں کامیاب ہوگئے جو وہ چاہتے تھے۔ملیر کے ایس ایس پی کے جواب میں الطاف حسین کی تقریر اور پھر اس پر ردعمل نے آخرکار کراچی میں قانون نافذ کرنے کی بہترین کوششوں کو تباہ کردیا۔ اب قانون نافذ کرنے کی ہر کوشش انتقامی کہلائے گی اور ہر مجرم سیاست کی آڑ لے کر انجام سے بچ نکلے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved