عارف نے یہ کہا تھا: کاش لوگ سمجھ سکتے کہ سیکھنے کی مسرّت کیسی عظیم ہے، Pleasure of Knowing۔
کنور دلشاد سے میں نے یہ کہا: کم از کم آج کے دن آپ کو ''کنور زیادہ دلشاد‘‘ کہنا چاہیے۔ پھر ان سے سوال کیا کہ اب کیا ہو گا؟ کہا: حتمی پیش گوئی اگرچہ ممکن نہیں مگر امکان موجود ہے کہ عدالت خواجہ سعد رفیق کے حق میں حکمِ امتناعی جاری نہ کرے۔ فیصلہ اس وقت آیا ہے، جب سپریم کورٹ دھاندلی کی تحقیقات کر رہی ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے اس سے رجوع یا دوبارہ الیکشن لڑنے کا عندیہ دیا ہے۔ ممکن ہے کہ عدالت جلد فیصلہ کر دے۔ حکمِ امتناعی اگر جاری نہیں ہوتا۔ از سرِ نو الیکشن اگر قرار پاتا ہے تو نتیجہ کیا ہو گا؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنی سیاسی مہارت اور سلیقہ مندی سے کنٹونمنٹ الیکشن میں نون لیگ نے جو کچھ کمایا تھا، وہ دریا برد ہوا۔ کیے کرائے پہ پانی پھر گیا۔ خواجہ صاحب اور ان کی پارٹی ایک بار پھر وہیں کھڑے ہیں، چھائونیوں کے انتخابات سے قبل کہ جہاں تھے۔ تاثر اب یہ ہو گا کہ اس الیکشن میں ظفر مندی ریاضت کے طفیل تھی، مقبولیت کے بل پر نہیں۔ حکومتی ترجمانوں کی بات دوسری ہے کہ کوّا ان کے لیے سفید ہی رہتا ہے۔ غیر جانبدار لوگوں کا تاثر مختلف ہے۔ فیصلے کے بعد دو گھنٹے سفر میں گزرے۔ جس سے بھی ملاقات ہوئی، واقعے کو اس نے تحریکِ انصاف کی اخلاقی فتح قرار دیا۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ 265 میں سے 260 پولنگ سٹیشنوں کا ریکارڈ مدّعی نے پیش کیا۔ مطلب یہ ہے کہ مقدمے کی حد تک خوب محنت کی ہے۔ سیاست مگر دوسری چیز ہے۔
دھاندلی اوّل دن سے آشکار تھی۔ دور دراز حلقوں کے نتائج سنا
دیے گئے تھے مگر لاہور کے روک لیے گئے۔ این اے 125 کا نتیجہ اگلی صبح سامنے آیا۔ اہم بات یہ ہے کہ دو برس کے بعد نہیں، انتخابی تنازعات کا فیصلہ چند ہفتوں کے بعد آنا چاہیے۔ اگر دھاندلی ہوئی اور یقینا ہوئی تو اس حلقے کے عوام کا حق چھین لیا گیا۔ دو برس تک خواجہ صاحب وفاقی وزیر رہے اور امکان موجود ہے کہ اب بھی وزارت میں رہیں۔ تب عرض کیا تھا کہ احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق کو وزیر نہ بنانا چاہیے۔ سرکاری اخبار نویس اس پہ برہم تھے۔ برہم نہ ہوتے تو اور کیا کرتے۔ ان کے آب و دانہ کا انحصار اسی پر ہے کہ جس طرح پرویز رشید کا جواز عمران خان کی کردار کشی پر۔ کسی ریستوران میں، کسی ہوائی اڈے پر، کسی محفل میں آئے دن کوئی نہ کوئی روک کر سوال کرتا ہے: پرویز رشید کیسے آدمی ہیں کہ خاموش ہوتے ہی نہیں۔ کیسے وہ خاموش ہو جائیں؟ اس کے سوا کوئی ہنر بھی نہیں رکھتے۔ ملازمت کر سکتے ہیں اور نہ کاروبار۔ ؎
کروں گا کیا‘ جو ''محبت‘‘ میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
الیکشن 2013ء سے قبل کچھ سوالات اٹھائے گئے۔ ووٹروں کی ملک گیر فہرست، الیکشن کمیشن کی تشکیل، نگران حکومت اور سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ۔ ووٹروں کی فہرست عسکری قیادت کی مداخلت سے موزوں کر دی گئی؛ حالانکہ حکومت اس کی آرزومند نہ تھی۔ الیکشن کمیشن دونوں بڑی پارٹیوں کی سازباز سے بنا اور نگران حکومتیں بھی۔ سندھ میں ایم کیو ایم بھی اس کاروبار میں شریک ہوئی۔ الیکشن سے چند ہفتے قبل وہ حزب اختلاف بن گئی تا کہ عارضی صوبائی حکومت کی تشکیل میں حصہ رسدی وصول کرے۔ پنجاب میں نجم سیٹھی کو وزیرِ اعلیٰ بنانے کی فرمائش پیپلز پارٹی نے کی۔ نون لیگ کو بھی وہ اتنے ہی سازگار تھے۔ پیپلز پارٹی کو فائدہ اس لیے نہ پہنچا کہ اس کے حامی ووٹروں کی اکثریت دست کش ہو گئی تھی۔ تحریکِ انصاف کی تنظیم اس قدر ناقص تھی اور امیدوار اس قدر کم تر کہ نون لیگ یوں بھی جیت جاتی۔ مرضی کے الیکشن کمیشن، مرضی کے وزیرِ اعلیٰ، سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ سے محروم رکھنے کی بنا پر حکمران پارٹی کی سیٹوں میں اضافہ ہوا۔ تحریکِ انصاف پنجاب کی نالائق قیادت نے کسی بھی چیز سے زیادہ اس کی مدد کی، جو اب خود رحمی کا شکار ہے۔
تقاضے اور بھی ہیں مگر سیاسی استحکام قائم ہو ہی نہیں سکتا، الیکشن اگر ٹھیک نہ ہوں۔ ناکردہ کار اور کرپٹ پولیس، سفّاک پٹوار اور عام آدمی سے بے نیازی کے طفیل حکمران پارٹی جلد ہی نامقبول ہو جاتی ہے۔ لوگوں کی ہمدردیاں پھر اپوزیشن کے ساتھ ہوتی ہیں۔ لوٹ مار سے اشرافیہ باز نہیں آتی اور نتیجہ معلوم۔ ایک ایک کرکے الیکشن میں دھاندلی کے ثبوت سامنے آنے لگتے ہیں۔ امیدوں کی پامالی سے ناراض ہجوم بروئے کار آتے اور انتشار پھیلنے لگتا ہے۔ پروردگار نے زندگی کو اس طرح بنایا ہے کہ تضاد آشکار ہو کے رہتا ہے۔ ان تضادات کا بوجھ اٹھا کر ہم اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتے۔ وہ سب کچھ جو خالص اور خوبصورت ہوتا ہے، خام اور بھدّا بن جاتا ہے۔ ٹوٹ کے گر پڑتا ہے، پیچھے رہ جاتا ہے اور بھلا دیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔ آخر کار دیہی سندھ میں اس کے تحلیل ہونے کا عمل شروع ہو چکا۔ ذوالفقار مرزا مشتعل مزاج نہ ہوتے تو کچھ اور بھی تیز ہو جاتا۔ نون لیگ کا انجام بھی یہی ہے۔ آخری تجزیے میں وہ ایک خاندان کی محافظ ہے اور اس کے حواریوں کی۔ تین برس یا بیس برس، کون جانتا ہے؟ انحصار اس کا تحریکِ انصاف پر ہے اور وہ نالائق لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ وہ جو اپنی خامیوں پر کبھی غور نہیں کرتے۔ اپنی اصلاح پر کبھی آمادہ نہیں ہوتے۔ جو سن کر نہیں دیتے کہ زندگی دوسروں کی خامیوں پر نہیں، اپنی خوبیوں پر بسر کی جاتی ہے۔
گلگت بلتستان کے الیکشن مہینے بھر کے فاصلے پر ہیں۔ مقابلہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں ہے۔ مذہبی فرقہ پرستوں کی مخالفت کے باوجود، کمزور تنظیم اور طالبان کی مخالفت سے گریز کے طفیل شمال میں عمران خان کی حمایت کم ہے۔ جو ہے، وہ بھی متشکّل نہیں ہو سکتی۔ ابھی سے اس کے امیدوار باہم الجھ رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قبل انہیں ایک مثالی پارلیمانی بورڈ تشکیل دینا چاہیے تھا۔ زیادہ سے زیادہ تین ماہ قبل بیشتر امیدواروں کا انتخاب کر لینا چاہیے تھا۔ اعلان خواہ تاخیر سے کیا جاتا۔
خود اچھے وکیل ہیں اور عدالتوں کے اندازِ کار سے خوب آشنا۔ رسوخ بھی ہے۔ حامد خان مقدمہ جیت سکتے ہیں مگر کیا الیکشن بھی؟ مجھے اس میں شک ہے۔ انتخابی مہم کو گھر گھر (Door to Door) پہنچانے کی اہمیت سے وہ تو کیا، تحریکِ انصاف کی قیادت بھی واقف نہیں۔ علیم خان پیسہ پانی کی طرح بہا سکتے ہیں مگر سیاسی مہارت ہرگز نہیں رکھتے کہ حامد خان کی کچھ زیادہ مدد کر سکیں۔ تین سو تربیت یافتہ کارکن تین ماہ کی ریاضت سے بیس ہزار زائد ووٹ حاصل کر سکتے ہیں مگر یہ بات کون سمجھائے۔ دو برس میں کم از کم سات بار اس ناچیز کو این اے 125 جانے کا موقعہ ملا۔ عمران خان کی حمات میاں محمد نواز شریف سے یقینا زیادہ ہے۔ الیکشن مگر ایک سائنس ہے۔ سیاست بجائے خود ایک آرٹ ہے۔ سیکھتا وہی ہے، جو سیکھنا چاہے۔ فرد ہو یا جماعت، سب سے اہم یہ ہے کہ اپنی خامیوں کا اسے ادراک ہو، اپنی اصلاح کا جذبہ۔ سارا وقت دوسروں کو گھٹیا ثابت کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ وقت برباد، توانائی برباد!
عارف نے یہ کہا تھا: کاش لوگ سمجھ سکتے کہ سیکھنے کی مسرّت کیسی عظیم ہے، Pleasure of Knowing۔
پس تحریر : این اے 125 کے بارے میں الیکشن ٹربیونل کے فیصلے سے کپتان کا بنیادی استدلال درست ثابت ہوا کہ الیکشن 2013ء میں ریٹرننگ افسروں نے کرشمے دکھائے۔ دوسرے تو کیا، خود سعد رفیق بھی مان گئے ہیں؛ اگرچہ تاثر دیتے ہیں کہ ریٹرننگ افسروں نے اپنے طور پہ گڑ بڑ کی۔ اپنے طور پہ؟