تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-05-2015

لندن سے آنے والی ایک گستاخانہ کال اور پیشگی معافی

آٹھ دس روز بعد فہد سے لندن بات ہو جاتی ہے۔ عموماً گفتگو کا موضوع کوئی خاص نہیں ہوتا۔ ادھر ادھر کی باتیں اور روایتی گپ شپ جس میں ہر ایک آدھ منٹ بعد یہ کہاجاتا ہے کہ ''اور سنائو؟ کوئی نئی تازہ‘‘۔ گزشتہ آٹھ دس دن سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ وجہ وہی پرانی اور گھسی پٹی تھی‘ یعنی سفر ۔ ملتان سے کراچی‘کراچی سے لاہور‘ وہاں سے خوشاب اور پھر ملتان ۔ درمیان میں ایک دو فیملی فنکشنز ۔ کل اس کا فون آیا اور پھر بات بلدیاتی انتخابات‘ حلقہ 246کے نتائج اور ایم کیو ایم سے گھومتی ہوئی لندن میں مقیم الطاف حسین پر آ کر ٹھہر گئی۔
میں نے فہد سے پوچھا کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے؟۔ الطاف بھائی پہلے چڑھائی کرتے ہیں‘ اداروں کو رگیدتے ہیں‘ میڈیا کی طبیعت صاف کرتے ہیں‘ دھمکاتے ہیں‘ لڑکوں کو کمانڈو ٹریننگ کی نصیحت فرماتے ہیں‘را کو مدد کے لیے بلاتے ہیں‘ فوج کو جی بھر کر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر اگلے روز معافی مانگ لیتے ہیں ۔ دس بارہ بار ایسا ہو چکا ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت سے استعفیٰ دیتے ہیں اور اول تو اسی وقت وگرنہ بہت تیر ماریں تو اگلے روز کارکنوں کے پر زور اصرار پر یہ استعفیٰ واپس لے لیتے ہیں۔آخر وہ یہ سب کیا کر رہے ہیں؟ فہد زورسے قہقہہ مار کرہنسا اور کہنے لگا اس کے دو جواب ہیں بلکہ جواب دو نہیں‘ سوال دوہیں۔ وہ یہ بات سوچ سمجھ کر یعنی پہلے سے لکھے ہوئے سکرپٹ کے مطابق کہتے ہیں؟ یا وہ یہ بات بلا سوچے سمجھے فی البدیہہ تقریر کے دوران جذباتی ہو کر دیتے ہیں؟ میرا جواب ان دو سوالات کے جواب پر منحصر ہے۔آپ اپنا سوال ان سوالات کے تناظر میں کریں‘ میں جواب دے دوں گا۔
میں نے کہا :فرض کریں کہ وہ یہ تقریر‘ الفاظ اور باتیں بلا سوچے سمجھے‘ جذبات کی رو میں بہہ کر کرتے ہیں تو آپ کا جواب کیا ہو گا؟ فہد ہنس کر کہنے لگا: ایسی باتوں کو تو سیریس لیا ہی نہیں جانا چاہیے۔ بھلا ہوش و حواس سے ماورا باتوں پر کیا گرفت ہو سکتی ہے؟ آپ کا تو سوال ہی معقولیت کی سطح سے نیچے کا ہے۔ اس کا جواب کیا دیا جائے؟ اشتعال میں کیا گیا قتل اور قتل عمد میں بڑا فرق ہے۔ عدالتیں بھی ہر دو صورتوں میں علیحدہ علیحدہ فیصلے دیتی ہیں۔ پولیس بھی ایسی صورت میں مختلف چالان مرتب کرتی ہے۔ مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے اور سزا میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات ثابت کرنا بہرحال ضروری ہوتا ہے کہ بوقت جرم ملزم کی ذہنی کیفیت کیا تھی؟ حالات کیا تھے اور ملزم کا ردعمل کن عوامل کے زیر اثر تھا۔ میں نے پوچھا کہ اگر آپ کی بات مان لیں تب یہ بتائیں کہ جب ہر چوتھی تقریر میں وہ یہی کچھ کرتے ہیں اور جذبات کی رو میں بہہ کر کچھ الٹ پلٹ بول دیتے ہیں ‘رابطہ کمیٹی وغیرہ والے انہیں مشورہ کیوں نہیں دیتے کہ وہ مناسب وقت پر تقریر کیا کریں۔ میرا مطلب ہے جب ان کے جذبات ٹھنڈے پڑ چکے ہوں اور غضب سے حالت سکون میں آ چکے ہوں تب تقریر فرمائیں اور فی البدیہہ کے بجائے لکھی ہوئی تقریر پر اکتفا کریں۔ فہد کہنے لگا :یہ بات میرے بس سے بلکہ رابطہ کمیٹی تک کے بس سے باہر ہے کہ وہ الطاف بھائی کو کچھ ہدایات ٹائپ چیز دے سکیں۔ میں نے پوچھا کہ ایم کیو ایم کے لندن سیکرٹریٹ میں بیٹھے محمد انور اور ندیم نصرت کی کیا ذمہ داری ہے؟ وہ کیا کرتے ہیں؟ فہد کہنے لگا :وہ زیادہ اہم کاموں میں مصروف ہیں۔ بھارتی شہری محمد انور پہلے مالی معاملات کو دیکھتے تھے آج کل منی لانڈرنگ والے کیس کو دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔ ندیم نصرت صاحب لندن کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کوآرڈی نیٹر ہیں اور پارٹی کے موجودہ انتظامی معاملات کو دیکھ رہے ہیں اور کسی بری صورتحال میں ان پر بہت بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ متوقع ہے‘ وہ ایسی کوئی بات کرنے سے پرہیز کریں گے جس سے الطاف بھائی کے ناراض ہونے کا اندیشہ ہو۔ الطاف بھائی سٹریس میں ہیں اور کسی بات پر بھی بھڑک سکتے ہیں۔پھر ہنس کر کہنے لگا میں آپ سے مذاق کر رہا تھا۔ دراصل الطاف بھائی جب بھی تقریر کرتے ہیں پوری طرح سوچ کر‘ اس کے عواقب کا انداز لگا کر اور معافی مانگنے کا ارادہ بنا کر تقریر کرتے ہیں۔ آدھ پون گھنٹہ بے عزتی کرنے‘ دھجیاں اڑانے‘ توہین کرنے‘ برا بھلا کہنے اور تضحیک کرنے کے بعد اگر غائبانہ قسم کی ایک ڈھیلی ڈھالی معافی مانگ لی جائے تو کیا حرج ہے؟فوج کے لتے لینے کے بعد‘ نجی نوعیت کے کمنٹس دینے کے بعد‘ ہتھیار ڈالنے پر بزدلی اور بے غیرتی کے طعنے دینے کے بعد‘ مخالف کو بھنگی قرار دینے کے بعد لوگوں کو اشتعال دلانے اور اکسانے کے بعد‘ ریاست کو للکارنے اور دشمن کو مدد کے لیے دعوت دینے کے بعد ایک ایسی دھنیا قسم کی معافی مانگ لی جائے جس کی آپ تک محض روایت پہنچی ہو ‘بھلا ایسی معافی مانگنے میں حرج ہی کیا ہے؟ الطاف بھائی تقریر کرنے سے قبل غالباًاپنے سیکرٹریٹ کو ہدایت دے دیتے ہیں کہ اگر میرے جذباتی ہو جانے پر پاکستانی فوج کے ذمہ داران‘ حکومتی ادارے یا میرے مریدین کے علاوہ والے عوام جذباتی ہو جائیں تو
آپ بلا تاخیر میرا معافی والا بیان جاری فرما دیں تاہم ایک احتیاط ضرور کیجئے کہ یہ بیان اس صورت میں جاری کیا جائے جب رابطہ کمیٹی میری اشتعال انگیز تقریر کا کماحقہ دفاع نہ کر پائے یا وہ اپنی نالائقی کے طفیل میری تقریر کا کوئی منطقی جواز پیش نہ کر پائیں۔ وگرنہ ان کی وضاحت ہی کافی ہو گی۔ یہی حال ان کے استعفے کا ہے۔ وہ استعفیٰ دینے سے پہلے ہی اس کے واپس لینے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں اور جونہی مجمع ان سے استعفیٰ واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے‘وہ فوراً سے پیشتر یہ استعفیٰ واپس لے لیتے ہیں۔ اگر انہیں یقین ہو کہ عوام میرا مطلب ہے ان کے جانثاران سے استعفیٰ واپس لینے کے لیے نہیں کہیں گے وہ خواب میں بھی استعفیٰ نہ دیں۔ الطاف بھائی کوئی بھولے بھالے تو ہیں نہیں کہ غلطی سے اتنا بڑا فیصلہ کریں اور استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ جائیں۔
فہد کہنے لگا :وسیع تر مفاد کے لیے چھوٹی چھوٹی قربانیاں دی جاتی ہیں اور یہ حکمت عملی کا حصہ ہوتی ہیں۔ آپ ہی ایک بار بتا رہے تھے کہ آپ نے اپنے ایک دوست وزیر سے پوچھا کہ وہ کس قبیل کا آدمی ہے اور کس قسم کے حکمران کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ پھر مجھ سے کہنے لگا :آپ یہ واقعہ خود ہی بتائیں کہ اس نے کیا جواب دیا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے جب اپنے اس دوست وزیر سے یہ سوال کیا کہ وہ کس قسم کی بے عزتی والا کام کر رہا ہے کہ ایک غاصب اور خائن کی حکومت کا دفاع کر رہا ہے اور اس کے ہرواہیات کام کی توجیہات اور صفائیاں پیش کرنے پر لگا ہوا ہے‘ اس سے اس کی عزت خراب ہو رہی ہے اور آبرو برباد ہو رہی ہے تومیرا وہ وزیر دوست زور سے ہنسا اور کہنے لگا‘ایسا
صرف تم جیسے چند لوگ سوچتے ہیں۔ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام میں میری بطوروزیر عزت ہے‘ بھلے وہ مجھے دل سے اچھا نہ سمجھیں‘ مگر آگے پیچھے پھرنے والوں کی تعداد ان سے سینکڑوں گنا زیادہ ہے‘ جو مجھے تمہارے پیمانے پر ناپتے ہیں۔ مجھے تم جیسے دو چار فیصد احمق لوگوں کی نہیں سننی ‘مجھے ان لوگوں کو دیکھنا ہے جو تمہارے نقطہ نظر سے ہٹ کر میری عزت کرتے ہیں۔ وزارت ‘ عزت‘ شہرت اور طاقت جیسی اعلیٰ اور ارفع چیزوں کو تم جیسے جذباتی لوگوں کی سوچ پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔
فہد ہنس کر کہنے لگا :آپ کو غالباً اب میری بات سمجھ آ گئی ہو گی ۔ میں نے کہا کہ کیا وہ اس قسم کی گفتگو سے گستاخی کا مرتکب نہیں ہو رہا؟ کیا اس کی یہ باتیں دوسروں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچا رہیں؟ وہ کہنے لگااگر آپ کا خیال ہے کہ میری ان باتوں سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے‘ جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے اور کسی کو برا لگا ہے تو میں معافی مانگ لیتا ہوں۔ اگر بڑے لیڈر کی معافی قبول ہو سکتی ہے تو مجھ جیسے معمولی اور عام سی سمجھ بوجھ کے مالک ایک بے نام و نشان شخص کو معافی کیوں نہیں مل سکتی؟ ابھی میرے پاس اور بڑی باتیں ہیں‘ غریب لوگوں کی نمائندگی کے دعویداروں کی جائیداد کی تفصیل ہے۔ بینکوں میں پڑی ہوئی بڑی رقموں کی تفصیل ہے۔ اگلی بار وہ بتائوں گا ۔ اور ہاں ! میں آپ کو پیشگی بتا رہا ہوں کہ میں جو باتیں آپ کو اگلی بار بتائوں گا اس کی بھی ابھی سے معافی طلب کر رہا ہوں کہ اگر اس سے کسی کا دل ٹوٹنے‘ جذبات کو ٹھیس پہنچنے اور دل آزاری کا اندیشہ ہے تو اس کی قبل از وقت معافی کا خواستگار ہوں ۔ امید ہے مجھے بھی معاف کر دیا جائے گا‘ویسے بھی میں یہ گستاخی پہلی بار کر رہا ہوں ‘پہلی بار معافی تو میرا پیدائشی حق ہے ۔ اور خاص طور پر لندن سے کی جانے والی گفتگو پر معافی ملنا تو ویسے بھی یہاں کی روایت اور سیاسی کلچر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved