امریکی شہر نیو یارک میں ایک خاتون اور اُن کے کتے کا بڑا چرچا ہے۔ جیسیکا نے ''کمال‘‘ کر دکھایا ہے۔ انہوں نے اپنے کتے کو بھونکنے کے ''آداب‘‘ سکھائے ہیں۔ ایک مقابلے کے دوران جیسیکا نے اُس لیاقت کا مظاہرہ کیا جو انہوں نے اپنے کتے میں پیدا کی ہے۔ جیسیکا سرکس میں شیر کو کرتب دکھانے کی ہدایات دینے والے رِنگ ماسٹر کی طرح کھڑی ہوگئیں اور اپنے کتے کو ہدایات دیتی گئیں۔ سب سے پہلے انہوں نے کتے سے کہا کہ حلق کا پورا زور لگاکر بھونکو۔ کتے نے بھونکنا شروع کیا۔ حاضرین کے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ پھر حکم دیا کہ ذرا والیوم کم کرو۔ اس مرتبہ کتے نے ذرا کم والیوم سے بھونکنے کا مظاہرہ کیا۔ کچھ لوگ متوجہ ہوئے۔ تیسری مرتبہ جیسیکا نے حکم دیا کہ اب اور کم والیوم سے بھونکو۔ کتے نے مالکن کا حکم سر آنکھوں پر رکھتے ہوئے والیوم مزید کم کردیا۔ اب تو حاضرین کی بڑی تعداد حیران ہوتے ہوئے متوجہ ہوئی۔ چوتھی مرتبہ کتے کے بھونکنے کی شدت مزید کم ہوئی۔ پانچویں مرتبہ کتے کے حلق سے انتہائی ''سُریلی‘‘ بھونک برآمد ہوئی۔ اور چھٹی بار تو بھونک کی جگہ کھرج کے سُر برآمد ہوئے!
حاضرین نے جیسیکا کو کتے کی شاندار تربیت کرنے پر بہت دیر تک تالیاں بجاکر داد دی۔ جیسیکا اور ان کے کتے کو مقابلے کا فاتح قرار دیا گیا۔
مرزا تنقید بیگ ایسی خبریں بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ کہتے ہیں سیاسی بکواس پڑھنے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان دلچسپ خبریں پڑھے اور سیاسی بیانات کے جنگل میں چند لمحات محفوظ ٹھکانے میں گزارے۔ ہم اس معاملے میں ان سے بہت حد تک متفق ہیں۔ سیاست دانوں کے بیانات اور واقعات نے قوم کے دل و دماغ کا وہ حشر نشر کیا ہے کہ اب تو جی چاہتا ہے قدرتی ماحول سے متعلق دستاویزی فلمیں دیکھ دیکھ کر فراغت کے لمحات گزارے جائیں!
جیسیکا کے فن اور کتے کی لاجواب فرماں برداری کا تذکرہ کرکے جب ہم نے مرزا سے دونوں کے لیے داد چاہی تو انہوں نے زور بیان کی سپتک پر اختلافی نوٹ لگاتے ہوئے کہا: ''نہ تو جیسیکا نے کوئی انوکھا کام کیا ہے اور نہ ہی کتے نے کچھ ایسا کیا ہے جسے بھرپور داد کے قابل سمجھا جائے۔‘‘
ہم حیران رہ گئے۔ ایک خاتون نے کتے کو اپنی ہدایات کے مطابق بھونکنے کی کامیاب تربیت دی ہے اور مرزا ہیں کہ اس کارنامے کو درخورِ اعتناء سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم نے شدید حیرانی کے عالم میں جب مرزا سے اس معاملے میں متاثر نہ ہونے کا سبب پوچھا تو وہ کہنے لگے: ''میاں! تم شادی شدہ ہوکر بھی نہیں سمجھتے کہ دنیا کی ہر عورت وہ فن جانتی ہے جو نیو یارک کی جیسیکا نے دکھایا ہے۔ اور اس فن کے مظاہرے کے لیے عورت کا شادی شدہ ہونا بھی کچھ لازم نہیں۔ تم نے دیکھا نہیں کہ کوئی لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کو کس طرح انگلی کے اشاروں پر نچاتی ہے۔ ایک اشارے پر وہ پتا نہیں کہاں کہاں سے کیا کیا لاکر اس کے قدموں میں ڈھیر کرتا چلا جاتا ہے اور بعد میں برسوں تک 'بخوشی‘ کمیٹیاں بھگتتا ہے! اور جب معاملہ شادی تک پہنچ جاتا ہے تب تو محترمہ کی فنکاری واقعی قابل دید اور قابل داد ہوتی ہے۔ اگر پریمی جوڑے کی حیثیت سے کافی وقت ساتھ گزارا ہو تو شادی کے بعد شوہر کو نچانے کے لیے بیوی کو انگلی کا اشارا کرنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی۔ شوہر بے چارا آنکھ کے اشارے ہی سے تمام ہدایات سمجھ لیتا ہے اور پھر اسی طرح ناچتا ہے جس طرح اہلیہ محترمہ نچانا چاہتی ہیں۔‘‘
ہم نے عرض کیا کہ جانور انسانوں کی بات نہیں سمجھتے۔ ایسے میں اگر جیسیکا نے کتے کو کچھ سکھایا ہے تو اس کی داد تو دی جانی چاہیے۔ یہی دیکھیے کہ وہ اپنی فطرت کے خلاف جاکر خاتون کا حکم مان رہا ہے۔
مرزا تنک کر بولے : ''یہی بات تو ہم تمہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی بھی لڑکی اپنے بوائے فرینڈ یا شوہر کو جب اپنے اشاروں پر نچانے کا تہیّہ کرلیتی ہے تو اس بے چارے کو اپنی فطرت بھی یاد نہیں رہتی۔ ہم نے اچھے خاصے لڑنے بھڑنے اور بات بات پر چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھانے والوں کو اپنی بیوی کے سامنے انتہائی بھیگی بلی کی طرح نرم آواز سے میاؤں میاؤں کرتے دیکھا ہے! امریکی خاتون کا فن یا تو کچّا ہے یا پھر انہیں تھوڑا بہت رحم آگیا۔ ان خاتون کے حکم پر کتا آخر میں کھرج کے سُروں میں سرگوشی کے انداز سے بھونکتا ہے۔ ہمارے ہاں بیشتر خواتین اپنے شوہروں کو اس قابل بھی نہیں چھوڑتیں۔ بے چارے کھرج کے سُر بھی بھول جاتے ہیں اور بہت سے معاملات میں وہ منہ تو کھولتے ہیں مگر آواز برآمد نہیں ہوتی! ایسے میں وہ سہمی ہوئی آنکھوں سے اپنی اہلیہ کی طرف دیکھتے ہوئے محض سر ہلاکر رضامندی کا اظہار کر پاتے ہیں! یہ ہے فن کا درجۂ کمال! اچھے اچھوں کو ہم نے اپنی اپنی اہلیہ کے سامنے وہ دم ہلاتے ہوئے دیکھا ہے جو قدرت نے انہیں عطا ہی نہیں کی!‘‘
مرزا جب بھی بیگمات کے کمالات اور شوہروں کی فرماں برداری کا تذکرہ کرتے ہیں تو پتا نہیں کیوں ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ دنیا والوں پر ڈال کر اپنے غم کی داستان بیان کر رہے ہوتے ہیں! مگر ہم اس حوالے سے اپنے احساسات بیان کرنے سے ممکنہ حد تک گریز کرتے ہیں کیوںکہ بھابی نے کمالِ فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرزا کی جو آواز دبا رکھی ہے اسے وہ ہم پر آزما بیٹھتے ہیں اور وہ بھی پورے والیوم کے ساتھ!
مرزا مزید فرماتے ہیں : ''لوگ امریکہ کے ہوں یا یورپ کے، وہ بہت سے بنیادی فنون بھول چکے ہیں۔ جو کاری گری ان کے ہاں دو ڈھائی سو سال پہلے پائی جاتی تھی وہ اب ناپید ہے۔ ایسے میں انہیں بہت سی ایسی باتیں بھی انوکھی لگتی ہیں جو دراصل گھریلو اور معاشرتی امور کا حصہ ہیں۔ اہلِ مغرب نے چونکہ شادی کے ادارے کو چُھٹی دے دی ہے اس لیے انہیں کچھ اندازہ ہی نہیں کہ ازدواجی زندگی میں کیسے کیسے تماشے ہوتے ہیں اور تفریح کا کتنا سامان قدرت نے ان تماشوں میں سمو رکھا ہے۔ جب ازدواجی زندگی ہی زندگی کا حصہ نہیں رہی تو انہیں کیا پتا کہ گھویلو زندگی کے چونچلے کیا ہوتے ہیں۔ جب شوہر رکھنے کا رواج ہی دم توڑ چکا ہو تو مجبوراً انہیں فرماں برداری کے لیے جانوروں کی تربیت کرنی پڑے گی ناں!‘‘
مرزا کی بات سے اختلاف؟ ایسا سوچتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتا ہے! خیر، مرزا نے بات ہی ایسی کہی ہے جس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے ہاں آج بھی خواتین گھریلو زندگی میں ایسے کمالات دکھاتی ہیں کہ جانوروں کو سدھارنے والی خاتون دیکھیں تو شرمندہ ہوں اور خود کو کسی قابل نہ سمجھیں۔ ایک زمانہ تھا جب سرکس ہوا کرتے تھے۔ تب سِدھانے کے لیے جانور بھی تھے۔ سرکس ختم ہوئے تو یہ ہنر شوہروں پر بروئے کار لایا جانے لگا! اب میدان کچھ وسیع ہوا ہے۔ سیاست دان اور کارکن بھی اسی اصول کے تحت تیار کئے جارہے ہیں! بہت سے سیاست دان آرڈر پر مال تیار کرتے ہیں یعنی جیسی فرمائش ہو اتنا ہی اور ویسا ہی بولتے ہیں۔ میڈیا والے لاکھ اکسائیں، وہ اپنی ''لکشمن ریکھا‘‘ پار نہیں کرتے! اور کارکن بھی آرڈر پر مال تیار کرنے کے معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ آسمان سر پر اٹھانے کی صلاحیت رکھنے والے یہ ''اہل ہنر‘‘ حکم کے مطابق یوں اچانک زمین پر آ رہتے ہیں کہ آسمان بھی ان کے منہ تکتا رہ جاتا ہے!
تربیت کا یہی ہنر میڈیا کے کچھ لوگوں پر بھی کامیابی سے آزمایا گیا ہے۔ ہم تو خیر کس گنتی میں ہیں مگر ہاں بعض لوگ فرمائش یا حکم کے مطابق ''حسن تحریر‘‘ کا والیوم گھٹاتے بڑھاتے رہتے ہیں! اچھا خاصا زوردار لکھنے والے بھی کبھی کبھی اچانک کسی تحریر میں محض ''ممیا‘‘ کرکے رہ جاتے ہیں اور اپنے پڑھنے والوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں!