دنیا کے ہر میدان میں ہار جیت ہوتی ہے لیکن اخلاق میں کبھی ہار اور تکبر میں کبھی جیت نہیں ہوتی۔ ایسا لگتا ہے کہ کراچی کے حالیہ ضمنی الیکشن کے آفٹر شاکس کا سلسلہ بجائے رکنے کے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایس ایس پی رائو انوار نے جو کہا اور ا س کا جواب ایم کیوا یم نے جس لہجے سے دیا دونوں کو ہی قابل اعتراض کیا جا سکتا ہے۔ رائو انوار کی اس پریس کانفرنس سے تین دن قبل ایک صاحب نے رائو انوار کے بارے میں جو انکشافات کئے کیا یہ اس کا ردعمل تھا؟۔ 23 اپریل کو کراچی کے حلقہNA-246 میں الیکشن شروع ہونے سے کوئی دو گھنٹے بعد ملک بھر کے تمام ٹی وی چینلز بریکنگ نیوز دے رہے تھے کہ ایک اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسر اور ایک ووٹر کو جعلی ووٹ کاسٹ کرتے اور کراتے ہوئے رینجرز نے گرفتار کر لیا ہے اور بتایا جا رہا تھا کہ یہ دونوں ایم کیو ایم کی مخالف جماعت کے حق میں ووٹ ڈلوا رہے تھے اور رینجرز‘ جنہیں اس الیکشن میں امن عامہ اور شفاف انتخابات کرانے کیلئے فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات دیئے گئے تھے‘ نے ایک لمحے کی کوتاہی کئے بغیر ان دونوں افراد‘ جن کا تعلق ایم کیو ایم کی مخالف جماعت سے تھا‘ کو موقع پر ہی بالترتیب تین اور چھ ماہ قید کی سزائیں مع جرمانہ سناکر جیل بھجوا دیا ۔ اس سے ایک بات حقیقت بن کر سامنے آ گئی کہ رینجرز پارٹی نہیں تھی۔ اگر رینجرز ایم کیو ایم کے خلاف ہوتی تو پھر وہ کبھی ان کو قید کی سزائیں نہ دیتی اور ایم کیو ایم کی یہ پہلی ایسی انتخابی جیت بھی نہ بنتی‘ جس میں نو منتخب رکن قومی اسمبلی کنور نوید جمیل قومی اسمبلی کے ایوان میں حلف لینے کیلئے کھڑے ہوتے تو ان پر ٹھپوں کی آواز یں کسنے والا کوئی نہ ہوتا۔ یہ اعزاز جو ایم کیو ایم کو اس سے پہلے کبھی نہیں ملا‘ اس دفعہ صرف رینجرز کی زیر نگرانی کرائے گئے شفاف انتخاب کی وجہ سے ممکن ہوا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے کراچی کے اس ضمنی الیکشن کے چھ دن بعد الطاف بھائی کو فون کر کے کامیابی پر مبارک باد دی؟ اتنی دیر بعد ان کے یہ الفاظ کہ آپ کی اس کامیابی سے الزامات لگانے والوں کے منہ بند ہو گئے ہیں‘ الطاف بھائی تک پہنچے۔ لیکن میں نے آج ہی دیکھا ہے کہ پیپلز پارٹی کے کچھ ہمدردوں کے منہ تو پہلے سے بھی زیا دہ کھلے ہوئے تھے۔ ایم کیو ایم کے دوستوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر کراچی رینجرز کے بارے میں جس قسم کے خیالات کا اظہار کیا جا رہاہے وہ کسی طرح بھی درست نہیں۔ شاید اس طرح وہ کراچی رینجرز کے احسانات کا بدلہ چکارہے ہیں۔ میرے خیال میں ایم کیو ایم کو رینجرز کا شکر گذار ہوناچاہئے کہ انہوں نے ان کی جیت پر شفافیت اور اصلیت کی مہر ثبت کر دی۔ آج اگر آپ سینہ تان کر کراچی کو صوبہ بنانے کی بات کر رہے ہیں تو صرف رینجرز کی جانب سے شفاف انتخاب میں ملنے والی کامیابی کی وجہ سے ۔
ایم کیو ایم اور اس کی قیادت ٹھنڈے دل سے سوچے کہ اگر رینجرز اس ضمنی الیکشن میں تعینات نہ ہوتی اور امن عامہ کیلئے اپنا سخت ڈسپلن نہ دکھاتی تو ان کی اس جیت کوکتنے لوگوں نے درست ماننا تھا؟ اگر رینجرز کی بجائے ہمیشہ کی طرح پولیس تعینات ہوتی تو آپ اگر ایک لاکھ کے قریب ووٹوں کی بجائے صرف پچاس ہزار ووٹ لے کر بھی جیت جاتے تو اس کی اتنی اہمیت نہیں ہونی تھی جتنی اب ہے کیونکہ اس طرح بعض حلقوں کی جانب آپ کی جیت مشکوک اور ٹھپے کی مرہون منت قرار دی جانی تھی۔ 23اپریل کے الیکشن میں ایم کیو ایم کے نوجوان جس قسم کی ہلڑ بازی کا مظاہرہ کرتے دیکھے جا رہے تھے اگر رینجرز کی بجائے پولیس تعینات ہوتی تو ان لڑکوں نے پولیس کی پروا کئے بغیر پولنگ بوتھوں کے اندر اور باہر جو اودھم مچانا تھا اس کے بعد ایم کیوایم اپنی جیت کی جتنی چاہے خوشیاںمناتی جس قدر چاہے شفاف الیکشن کے دعوے کرتی کسی نے بھی اس کی جیت کو تسلیم نہیں کرنا تھا حتیٰ کہ اس میڈیا نے بھی نہیں جو آج آپ کی کامیابی پر پھولا نہیں سما رہا۔ سچل( سندھ) رینجرز کی وجہ سے آ پ پاکستان اور بیرون ملک سر خرو ہوئے ہیں۔ جب آپ کی رابطہ کمیٹی کے فاروق ستار یہ بتا رہے ہیں کہ حلقہ246 کے اس ضمنی الیکشن کا شہرہ امریکہ اور چین کی قیا دتوں تک پہنچا ہوا تھا اور چین کے صدر شی چن پنگ خود فاروق ستار سے پوچھ رہے تھے کہ246 کی کیا صورت حال ہے تو بتایئے اگر ان پر آج رینجرز کی شفافیت کی مہر نہ ہو تو آپ کی یہ کامیابی کس کھاتے میں جاتی؟۔
ایم کیو ایم کو اس سے بھی بڑی کامیابی کون سی چاہئے کہ عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید‘ جن کی زبان سے ٹھپوں کے شعلے نکلا کرتے ہیں‘ وہ بھی ایک ٹی وی چینل پر بیٹھے کہہ رہے تھے کہ آج کا ہونے والا انتخاب پاکستان کی تاریخ کا سب سے شفاف اور صاف انتخاب ہے اور اس میں ایم کیو ایم کی ایک لاکھ کے قریب ووٹوں سے کامیابی نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کراچی میں اپنا بھر پور اثر و رسوخ رکھتی ہے۔گزشتہ بیس برسوں سے جن کی زبان سے ایم کیو ایم کے بارے میں منفی جملے نکلا کرتے تھے آج رینجرز کی مہربانی سے وہ الطاف حسین کے کراچی میں اثر و نفوذ کو تسلیم کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور سندھ کی قوم پرست جماعتیں‘ جنہوں نے ہمیشہ ایم کیو ایم کی کامیابی پر طنزیہ جملوں کے تیر چلائے آج خاموش ہیںاور الطاف بھائی ذرا سوچئے!آپ کے مخالفین اب کس منہ سے آپ کے خلاف ٹھپا کا لفظ منہ سے نکالیں گے؟۔ ایک چیز البتہ سب کو حیران کر رہی ہے اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ اس جیت پر ایم کیوا یم کے ساتھ نواز لیگ زیا دہ خوشیاں کیوں منا رہی ہے؟ یہ ساری باتیں اپنی جگہ لیکن ایم کیوا یم نے دو روز قبل جس طرح افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کو للکارا ‘اس نے ان کی اس کامیابی کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ بہادر وہی ہوتا ہے جو غصہ میںبے قابو نہیں ہوتا۔ سنا ہے کہ انتخاب کی رات پارلیمنٹ ہائوس کے لاجز میں نواز لیگ کے ایک گروپ نے ایم کیوا یم کی کامیابی کی خوشی میں خوب'' جشن‘‘ منایا۔ شاید اس کو کہتے ہیں '' بیگانی شادی میں عبد اﷲ دیوانہ‘‘۔تحریک انصاف میں اگر کوئی سوچنے سمجھنے والا ہے تو اسے جان لینا چاہئے کہ مستقبل کے عام انتخابات میں پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی جماعتیں اسے شکست دینے کیلئے آپس میں متحد ہوں گی جس کی ایک جھلک ان جماعتوں نے حالیہ کنٹونمنٹ بورڈز کے بلدیاتی انتخابات میں دکھا بھی دی ہے۔
ضمنی انتخاب میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ اس کا تنا سب عام انتخابات کے برا بر ہوا ہو اور ایسی صورت میں جب کراچی میں اس دن قومی تعطیل بھی نہ ہو۔ یہ تناسب بھی صرف ا س لئے ممکن ہو سکا کہ گھروں سے نکلنے والے ووٹروں کو یقین تھا کہ رینجرز ان کی جان ومال کی حفا ظت کیلئے موجود ہے۔ رینجرز کو پاکستان میں پہلے صاف اور شفاف انتخاب کرانے کا اعزاز حاصل رہے گا اور بلا شبہ جنرل راحیل شریف کو پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی بنیاد رکھنے کا شرف حاصل ہو چکا ہے ۔ دنیا کے ہر میدان میں ہار جیت ہوتی ہے لیکن اخلاق میں کبھی ہار اور تکبر میں کبھی جیت نہیں ہوتی!