تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-05-2015

شیخ محشر میں جو پہنچے

خدا کے بندو، خدا کے بندو، ملک اور معاشرے کی اصلاح کا آغاز اپنی ذات سے ہوا کرتا ہے۔ اپنے گھر، اپنے حلقے اور اپنی پارٹی سے۔ اللہ کی آخری کتاب میں یہ لکھا ہے: تم وہ بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں۔
شیخ محشر میں جو پہنچے تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
طارق کھوسہ کے مضمون نے ہلا کر رکھ دیا۔ ایک کے بعد قتل کے دوسرے پراسرار واقعے پر نیک نام افسر رنجیدہ ہے۔ کمال مہارت اور یکسوئی کے ساتھ اس رنج کو اس نے کاغذ پر منتقل کر دیا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق سے بے نظیر بھٹو کے قتل تک، پاکستانی پولیس ہر جرم کا سراغ لگانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ سبین محمود کے سانحے کی بھی، مگر اسے موقعہ نہ دیا گیا، آزادی نہ بخشی گئی۔ ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔ دو اور متعلق ماہرین سے بات کرنے کی کوشش بھی کی مگر افسوس کہ مصروف لوگوں میں سے ایک کا فون بند تھا، دوسرا غالباً کسی اہم اجلاس میں۔ طارق کھوسہ کا کہنا یہ بھی ہے کہ ضرورت پڑنے پر خفیہ ایجنسیوں سے مدد لی جا سکتی ہے مگر بات بات پر جے آئی ٹی (مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ) تشکیل دینے کا ہرگز کوئی جواز نہیں۔ رہے عدالتی کمیشن تو ہمیشہ وہ بے ثمر ثابت ہوئے۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہم اس قدر بے بس اور لاچار کیوں ہیں؟ جب اس سوال کی گہرائی میں اترا جائے تو یہ اذیت اور بھی بڑھنے لگتی ہے۔ بجا طور پر انہوں نے یہ کہا کہ ہر حادثے کو غیر ملکی ہاتھ سے منسوب کرنا معقولیت نہیں۔ میری معلومات اور اس کے نتیجے میں رائے اگرچہ اب بھی یہی ہے کہ سبین کے قتل میں بیرونی ہاتھ کارفرما ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے۔ ان کا بنیادی نکتہ مگر درست ہے۔ تفتیش کے ہنگام سارے امکانات کو ملحوظ رکھنا چاہیے وگرنہ یہ فراری ذہنیت کا مظہر ہو گا۔
کیا ہم ایک فراریت پسند (Escapist) قوم ہیں؟
سارا دن مراقبے میں گزر گیا۔ میں لاپتہ افراد یا سبین محمود کے بارے میں نہیں سوچ رہا تھا، این جی اوز والے جنہیں خواہ مخواہ ایجنسیوں پر تھوپ دینے پر تلے رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ رحیم یار خان سے اغوا ہونے والے پولیس اہلکاروں کے بارے میں؛ اگرچہ وہ آزاد کرا لیے گئے مگر نوبت یہاں تک کیسے پہنچی؟ کیا یہ ایک انتہائی خطرناک صورتِ حال نہیں۔ ضربِ عضب اگر سو فیصد بھی کامیاب رہے مگر پولیس مکمل طور پر تباہ ہو جائے تو جرم کو ایک وبا کی طرح پھیلنے سے کون روکے گا؟ آخرکار یہ سول ادارے ہی ہوتے ہیں، جو معاشرے کی تعمیر اور فروغ میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ تشویش کا سبب یہ ہے کہ سات سال گزر جانے کے باوجود حکمران نون لیگ اس سمت میں ایک قدم اٹھانے پر بھی آمادہ نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پولیس کا تعلق صوبے سے ہوتا ہے۔ چھ ماہ ہوتے ہیں، جب ایک طویل ملاقات میں وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف سے یہ سوال کرنے کی جسارت کی تھی: 1999ء میں پولیس کو بہتر بنانے کے لیے آخری اقدام آپ نے کیا تھا۔ اس کے بعد کیوں نہیں؟ وہ دھرنے کے بارے میں بات کرنے کے آرزومند تھے اور بعض نکات پر مجھے ان سے اتفاق تھا مگر میں نے یہ کہا: مگر پولیس؟ مگر عدالت؟ مگر ٹیکس وصولی؟ وقت اور توانائی کا زیاں کہ سول اور فوجی ادارے باہم الجھتے رہتے ہیں۔ چھ ماہ بعد ان کی طرف سے بہاولپور میں شمسی توانائی پارک کے افتتاح میں شرکت کی دعوت موصول ہوئی۔
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی
ایک اخبار نویس کو ہمہ وقت سفر درپیش رہتا ہے۔ ایسے میں کبھی وہ اکتا بھی جاتا ہے۔
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
سوچا کہ وہاں بات کرنے کی فرصت کسے ہو گی، پھر کبھی، پھر سہی۔ ایک ایک کرکے دن گزرتے جا رہے ہیں اور اصل مسائل پر غور و فکر کی فرصت کسی کو نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ذہن الجھتے جا رہے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی اچھا بھلا آدمی چیخ کر کہتا ہے: جنرل راحیل شریف کو کس چیز کا انتظار ہے؟ خدا خدا کر کے تیل کی قیمت میں کمی اور چینی سرمایہ کاری کے طفیل اقتصادی نمو کا امکان پیدا ہوا ہے۔ مگر کوئی معاشرہ فقط بیرونی امداد اور حسنِ اتفاق کے بل پر سرخرو نہیں ہو سکتا۔ جب بھی کسی قوم نے ادبار سے نجات پائی تو اداروں کے بل پر۔ ایک عظیم مغالطہ یہ ہے کہ کاش کوئی اچھا حکمران مل جائے۔ ارے بھائی، ایک اچھا حکمران بھی دراصل ایک ادارہ ہی ہوتا ہے۔ خیر خواہ، عادل، ایثار کیش، متحرک اور مشورہ کرنے والا۔ پاکستان کو اگر کوئی لیڈر میسر نہیں تو اور کس ملک کو ہے؟ نریندر مودی کہاں کا لیڈر ہے کہ دس لاکھ کا سوٹ پہن لیا اور سال بھر کے بعد عام آدمی پارٹی سے پٹ گیا۔ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد؟ اشرف غنی غنیمت ہیں مگر ابھی ان پر فیصلہ صادر ہونا ہے۔ ایک ممتاز برطانوی اخبار نویس نے مجھ سے کہا: ہم اپنے لیڈروں سے تنگ آ چکے۔ جس ملک کو کریدو، یہی عالم ہے۔ جس کی دم اٹھائو، وہی مادہ۔ فرق اگر ہے تو یہ کہ کہیں ادارے کارفرما ہیں اور کہیں معدوم۔
خواجہ سعد رفیق نے وہ بات کہی ہے کہ اگر دریائے سندھ میں ملا دی جائے تو اس کا سارا پانی کڑوا ہو جائے۔ فرمایا کہ لندن پلان اور دھرنا اب بھی جاری ہے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ میرے خلاف سازش کی گئی۔ ان کے ساتھیوں کی رائے یکسر مختلف ہے اور ہر ہوش مند کی۔ سعد رفیق کیوں برہم ہیں؟ وہی ذہنیت: اگر باقیوں پر قانون کا اطلاق نہیں تو مجھ پر کیوں؟
ان کا حریف بھی کچھ ایسا بااصول نہیں۔ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ خواجہ بڑا فنکار ہے یا اس کا مدّمقابل۔ صبح سویرے تحریکِ انصاف کے ایک لیڈر نے فون کیا۔ اس کے بقول لاہور کنٹونمنٹ کی پی پی 155 میں پارٹی کی طرف سے جاری کیے گئے دس میں سے پانچ ٹکٹ شاہ محمود قریشی اور اعجاز چوہدری نے دھوکہ دہی سے منسوخ کر دیے۔ کپتان نے تحقیقات کی مگر کسی مجرم کو سزا نہ دی۔ اگر یہ کہانی درست ہے تو اعجاز چوہدری اور شاہ محمود کو برطرف ہونا چاہیے۔ تحریکِ انصاف میں مگر کوئی برطرف نہیں ہوتا۔ ہر ایک کو سات خون معاف ہیں۔
خدا کے بندو، جمہوری معاشرے کا سب سے اہم ادارہ ایک جدید جمہوری سیاسی جماعت ہوا کرتی ہے، جو معاشرے کی روایات، اقدار، تہذیب اور تمدّن کو ملحوظ رکھے۔ قائد اعظم کے مطابق A modern muslim state۔ پارلیمنٹ اس میں سے پھوٹتی ہے، جس کا کام پالیسیوں کی تشکیل ہے۔ اسی پارلیمان میں سے کابینہ جنم لیتی ہے، جو فیصلے صادر کرتی ہے۔ وہ پارٹی کہاں ہے؟ وہ پارلیمان اور کابینہ کہاں ہے؟ بس ایک نواز شریف ہیں، بس ایک آصف علی زرداری ہیں، بس ایک عمران خان۔ ٹیلی ویژن پر بحث دوسری ہے۔ گلوکارہ سچی ہے یا اس کا شوہر۔ سعد رفیق سچے ہیں یا حامد علی خان، جن پر الزام ہے کہ اپنی پسند کے جج مقرر کرانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے لیڈر نے کہا: حامد خان ہار جائیں گے۔ کہنے کو میں نے اس سے کہہ دیا ''تو بھگتو، خود کردہ را علاجے نیست‘‘ مگر دل دکھتا رہا۔
خدا کے بندو، خدا کے بندو، اصلاحِ معاشرہ کا آغاز اپنی ذات سے ہوا کرتا ہے۔ اپنے گھر، اپنے حلقے اور اپنی پارٹی سے۔ اللہ کی آخری کتاب میں یہ لکھا ہے: تم وہ بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں۔
شیخ محشر میں جو پہنچے تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved