تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     06-05-2015

سیاہ ابر سے جھانکتے ستارے

نہیں جناب ! ایسا نہیں ! نہایت احترام سے دست بستہ گزارش ہے کہ سی ایس ایس کے سارے افسر، سی ایس ایس کے سارے گروپ ایسے نہیں جیسے آپ کہہ رہے ہیں! آپ نے جو کچھ لکھا ہے، حرف بہ حرف درست ہے۔ صرف مقطع میں سخن گسترانہ بات آ پڑی ہے۔ اس سب کچھ کا سی ایس ایس کے سارے گروپوں اور تمام افسروں پر اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ صرف ایک گروپ ہے۔ ایک گروہ ہے بلکہ اسے طائفہ کہنا اولیٰ ہے۔
سی ایس ایس کے سارے گروپ ایسے نہیں! ہرگز نہیں! ان گروپوں میں کام کرنے والے، ریاست کا نظام چلانے والے، سیاست اور سیاست دانوں سے کنارہ کش رہ کر سر جھکا کر فرائض سرانجام دینے والے گروپ بھی شامل ہیں۔ ایک خاص گروپ نے جو ظلم ڈھائے، ان کا سی ایس ایس کے دوسرے گروپوں سے کوئی تعلق نہیں اور اگر ہے، تو ''الشاذ کالمعدوم‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔
آپ صرف ایک مثال لیجیے اور چاول کے اس دانے سے پوری دیگ کا اندازہ لگایئے۔ جھوٹے سے جھوٹا شخص بھی اس برہنہ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ کسی بھی شہر میں کچہری بدعنوانی کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اسے بے شک چیلنج سمجھ لیجئے، بغیر سفارش کے ملک کی کسی بھی کچہری میں کسی بھی کام کے لیے جایئے‘ فرد نکلوانا ہو، زمین کا یا مکان کا انتقال کرانا ہو، یا کوئی اور اس قبیل کا کام، رشوت کے بغیر ناممکن ہے۔ محکمہ مال میں پٹواری سے لے کر نائب تحصیلدار اور تحصیلدار تک سب کس کے ماتحت ہیں؟ کرپٹ سیاست دان، جاگیردار، خان اور ملک سب اپنے بھائیوں بھتیجوں کو تحصیلدار کیوں لگواتے رہے ہیں؟ پٹواری اور تحصیلدار رشوت کا پیسہ جس نالی میں ڈالتے ہیں، وہ نالی سی ایس ایس کے کس گروپ
کی جھولی میں جا گرتی ہے؟ یہ کون لوگ ہیں جو ایک بار کسی سب ڈویژن یا ضلع پر مسلط ہوتے ہیں تو بقیہ ساری سروس کے دوران اس کے فیوض و برکات اور ثمرات سے ''فیض یاب‘‘ ہوتے رہتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں جو کیریئر کا آغاز کرتے ہیں تو مقامی فیوڈل ان کے گھر میں بھینس بھیج دیتا ہے۔ پھر وہ ساری زندگی اس فیوڈل کے کھونٹے سے بندھے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب دارالحکومت پہنچ کر بڑی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو وہ فیوڈل بھی ایم این اے یا ایم پی اے بن کر اسی دارالحکومت میں براجمان ہو چکا ہوتا ہے۔ یوں یہ ''مقدس‘‘ تعلق قائم رہتا ہے۔ ایک سیاستدان وزیر بنا تو اس نے اپنی وزارت کا میر منشی نوکر شاہی کے اس گماشتے کو مقرر کرایا جو اس کے ضلع کا حاکم رہا تھا۔ وہ کس اسلوب میں اس کا ذکر کیا کرتا، اس کا عینی شاہد یہ قلم کار بھی ہے۔ یاد کرنے سے گھن آتی ہے مگر منصب کے لیے عزت نیلام کرنی پڑے تو کچھ لوگوں کے نزدیک سودا گھاٹے کا نہیں!
سی ایس ایس میں ایسے گروپ بھی ہیں جن کے ارکان حکمران اعلیٰ کے میر منشی لگنے کے شائق ہوتے ہیں نہ لگنے کے بعد ہوس کے جانور کی گردن سے پٹہ نکال لیتے ہیں۔ وہ نیم خود مختار ادارے کی سربراہی ہتھیانے کے لیے سمریاں میزوں کی درازوں میں نہیں چھپاتے۔ یہ اعزاز بھی صرف ایک ہی گروپ کو ملا ہے کہ ملک کی تاریخ میں ایوان بالا‘ یک زبان ہو کر اس گروپ کے رکن کو ہٹانے کیلئے قراردادپاس کرتا ہے۔
سی ایس ایس کے سارے افسر ایفی ڈرین کیس میں ملوث نہیں ہوتے نہ ہی ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ سارے افسر باڑ (Fence) پر نہیں بیٹھتے کہ پھدک کر کبھی ایک طرف ہو جائیں تو کبھی پھدک کر دوسری طرف پہنچ جائیں۔ سارے افسر ''انکوائری‘‘ کے لیے مشرق بعید نہیں جاتے اور رپورٹ ''حسب خواہش‘‘ لکھ کر پہاڑی والے دفتر میں تعینات نہیں ہو جاتے۔ سارے افسر چالیس چالیس سال تک لاہور کے ایکڑوں پر مشتمل گھروں پر پیران تسمہ پاکی طرح مسلط ہو کر دوسروں کے منہ سے ان کا حق نہیں چھینتے۔ سارے افسر اسی اسی سال کے ہو کر بھی برادری کی بنیاد پر حکمرانوں کے سامنے کمرِ زریں باندھ کر دست بستہ نہیں کھڑے ہوتے۔ اقبال نے یہی تو رونا رویا تھا ؎
تیرے فقیر حال مست تیرے امیر مال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی‘ خواجہ بلند بام ابھی
غور کیجیے‘ اقبال نے کیا نگاہ دور رس پائی تھی اور ''خواجہ‘‘ کا ذکر کس الہامی پیرائے میں فرمایا ہے!
ایک زمانے میں معروف کالم نگار اجمل نیازی نے ڈنکے کی چوٹ پہ لکھا تھا کہ فلاں اہلکار اتنے پلاٹوں کا مالک ہے۔ اجمل نیازی نے پلاٹوں کی صحیح تعداد لکھی تھی جو ساٹھ سے اوپر تھی! یہ کس گروپ کی بات تھی! یہ کون صاحب تھے جو خود بتاتے تھے کہ وہ ایوب خان کے سامنے کس طرح دست بستہ کھڑے ہوتے تھے۔ کاش! جمیل الدین عالی داستان کے سارے حصے بیان کر جائیں۔ خدا انہیں عمر خضر عطا کرے، کہیں بہت سے واقعات ان کے سینے ہی میں نہ رہ جائیں۔ کچھ عرصہ پہلے جب یہ لکھنے والا ان کی خدمت میں حاضر ہوا، (معروف ادیب، برادر عزیز جناب مبین مرزا ہمراہ تھے) تو عالی صاحب نے صرف ایک واقعہ سنایا اور دماغ چکرا کر رہ گیا۔ ایسی بلندی! ایسی پستی! ساری زندگی مناصب کے لیے دریوزہ گری کی اور کتاب میں مافوق الفطرت اور عینی واقعات لکھ دیئے۔ اس ملک میں یہی تو تیر بہدف نسخہ ہے۔ پیر سپاہی تو رائٹرز گلڈ کا معمار بھی نہ تھا پھر بھی پھونک کا تبرک لینے کے لیے لاکھوں کا مجمع لگتا تھا۔ اس گروپ کے ادیب ''صوفیوں‘‘ کے بارے میں مزید جاننا ہو تو مشفق خواجہ کے مضامین پڑھیے جو ان صاحب اور ان کے دو ''روحانی‘‘ یاروں کے متعلق لکھے گئے!
درست ہے کہ اس گروپ میں مردان حق آگاہ بھی تھے۔ شیخ محمد اکرام تھے۔ مختار مسعود تھے۔ آج عبدالرئوف چودھری جیسے نرم گفتار اور دردمند افسر اسی گروپ کے ممبر ہیں۔ جلال حیدر جیسا فقیر تھا جو سارے ٹھاٹھ چھوڑ کر ٹورنٹو میں جا بیٹھا، مگر اس قبیل کے افراد تو آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔ اکثریت ان طالع آزمائوں کی ہے جو ہر آمر کے دست راست رہے۔ کبھی ''ترقی کا عشرہ‘‘ (Decade of Development) مناتے رہے۔ کبھی سقوط ڈھاکہ کی خبریں دباتے رہے۔ ان کی اکثریت وہ ہے جو خدا کی قسم! زندگی میں ایک بار بیرون ملک تعیناتی کو صرف اپنی زندگی کا نہیں‘ پوری کائنات کی تخلیق کا مقصد گردانتے ہیں۔ ہاں، ان میں وہ چند صاحبان جو مسلح افواج سے آ کر گروپ میں داخل ہوئے ہیں، وضعداری رکھتے ہیں، کچھ اصول اپناتے ہیں اور عسکری پس منظر کے سبب بے خوف ہو کر سچی بات کرتے ہیں۔
سی ایس ایس کے سارے افسر ایسے نہیں ہوتے۔ یہ صرف چند ہیں جو کشف و کرامات کو جھنڈے کی طرح لہرا رہے ہیں، سی ایس ایس میں تو محمود لودھی جیسے افسر بھی تھے جو عروج پر پہنچ کر بھی سائیکل پر دفتر آتے تھے۔ شوکت کاظمی جیسے فقیر اور بے نیاز تھے۔ سید بلال احمد کی طرح صدق مقال کی برہنہ شمشیر تھے۔ ڈاکٹر صفدر محمود جیسے انتھک اور بے غرض محقق اور سکالر تھے۔ چودھری محمد علی بھی تو سی ایس ایس سے تھے‘ سابق وزیراعظم کی حیثیت سے علاج کے لیے ریاست سے اٹھائیس ہزار روپے قرض لیا اور پائی پائی واپس کی۔ سرتاج عزیز تھے جن پر کرپشن کا الزام کیا، شائبہ تک نہیں پڑ سکتا اور جن کی علمی دھاک پوری دنیا پر بیٹھی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد اور سید ابن الحسن تھے جنہوں نے ادب و شعر میں نام کمایا مگر بیورو کریسی کی چوٹی پر پہنچ کر بھی عجز و انکسار کو ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
بہت ادب کے ساتھ ! آسمان پر صرف بادل ہی نہیں، کہیں کہیں ستارے بھی جھانک رہے ہیں۔ ہوا جسم کو جھلسا رہی ہے مگر دیکھئے، ٹھنڈے جھونکے بھی محسوس ہو رہے ہیں۔ درست ہے کہ جنگ زرگری میں ہر اہلکار اگلی صف میں داد شجاعت دے رہا تھا مگر ایسے بھی تھے جو چائے کا سامان بھی گھر سے لاتے تھے۔ ذاتی استعمال کے لیے سرکاری قلم اور کاغذ سے بھی احتراز کرتے تھے اور وہی بات کہتے تھے جسے سچ سمجھتے تھے۔ یہ تعداد کم ہو رہی ہے مگر ختم نہیں ہوئی! ابھی اس گرد میں سوار موجود ہیں۔ خرد کی یلغار زوروں پر ہے مگر کچھ جنوں والے ڈٹے ہوئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved