اہم منصوبے تیز رفتاری سے
مکمل کیے جائیں: نواز شریف
وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''اہم منصوبے تیز رفتاری سے مکمل کیے جائیں‘‘ جبکہ ایسے منصوبے جن سے بچنا بچانا کچھ بھی نہیں ہے‘ ان پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''فنڈز مناسب طریقے سے جاری کیے جائیں‘‘ جیسے کہ ہمیشہ سے جاری کئے جا رہے ہیں اور معزز ارکان اسمبلی اور ٹھیکیدار حضرات کا خاص خیال رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''فنڈز یقینی استعمال کیے جائیں‘‘ اور‘ یہ پریکٹس بند ہونی چاہیے کہ کام صرف کاغذوں میں ہی ظاہر ہوتا ہے موقعہ پر اس کا کوئی نام و نشان ہی نہیں ہوتا‘ اس لیے آئندہ براہ کرم ایسا نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''جہاں زیادہ فنڈز کی ضرورت ہو وہاں زیادہ استعمال کیے جائیں‘‘ اور لاہور کی مثال سامنے رکھی جائے جہاں جنوبی پنجاب کے حصے کے فنڈز بھی عین قومی مفاد میں خرچ کیے گئے تھے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک کے تمام صوبوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں‘‘ کیونکہ اب یاد آیا ہے کہ ملک میں پنجاب کے علاوہ بھی کئی صوبے موجود ہیں جس پر خاکسار کی یادداشت کی داد نہ دینا انتہائی زیادتی ہو گی اور یہ سب کچھ دن رات کی سوچ بچار ہی کا نتیجہ ہے۔ آپ اگلے دن اسلام آباد میں ایک اہم اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
زرداری اسلام آباد پہنچ گئے
اخباری اطلاع کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری کرپشن کیس میں پیش ہونے کیلئے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ بظاہر یہ بڑی خوش آئند بات ہے لیکن ایسے مقدمات کے کسی منطقی انجام کو پہنچنے کا یقین کسی کو بھی نہیں ہے، نہ ہی اسے ہماری دلی خواہش سمجھا جائے کیونکہ آئین اور قانون کی پاسداری جس حد تک ہمارے ملک میں موجود ہے اور جس کی مثالیں اور مظاہر آئے دن نظروں سے گزرتے رہتے ہیں ان کے پیش نظر ان خبروں کو لیپا پوتی کے علاوہ کوئی نام دینا ممکن نہیں ہے۔ پچھلے دنوں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی وزیراعظم سے ملاقات کے بعدان کے 7 ارب کے کرپشن کیس کی انکوائری کرنے والا افسر ہی تبدیل کر دیا گیا تھا‘ جس کا وفاقی وزیر داخلہ نے نوٹس تو لیا لیکن اسے واپس لانے کی کوئی خبر نہیں آئی۔ اسی طرح زرداری صاحب کو عدالت میں پیشی کے لیے طلب کیا گیا تو سماعت کرنے والے جج کو ہی تبدیل کر دیا گیا۔ امید ہے آپ کی تسلی ہو گئی ہو گی۔
گونگے بہرے لوگوں کا مظاہرہ
اگلے روز سینکڑوں گونگے اور بہرے افراد نے ملازمتوں
کے لیے پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا اور دھرنا دیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے لیے ملازمتوں کا الگ کوٹہ مقرر کیا جائے۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ اگرچہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم نے ایک ماہ میں مطالبات پورے کر دینے کا وعدہ کیا اور مظاہرین منتشر ہو گئے لیکن اگر حکومت کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھا جائے تو یہ بھی محض ایک لولی پاپ ہی لگتا ہے‘ بلکہ خوشی کی بات یہ ہے کہ حکومت نے ان پر لاٹھی چارج نہیں کروایا کہ وہ کسانوں اور نابینا افراد پر یہ ہنر پہلے آزما چکی ہے؛ چنانچہ سوال یہ ہے کہ ملک عزیز میں جہاں بولنے اور سننے والے لاکھوں، کروڑوں لوگ دو وقت کی روٹی اور طبی و تعلیمی سہولیات سے محروم، کیڑے مکوڑوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں‘ وہاں گونگوں اور بہروں کا پُرسان حال کون ہو گا۔ اس حوالے سے ہمارے دوست اور ایک گمنام پنجابی شاعر ظفرل کی یہ نظم قابلِ ملاحظہ ہے۔
تاریخ دسدی اے
سکندرنے مرن پچھوں
تہی دستی دی کیتی سی نمائش
نواں سورج چڑھے گا جد
نویں دھرتی جنم لیسی
اودوں تاریخ دسّے گی
کہ اس دھرتی دے
لکّھاں تے کروڑاں
زندہ انساناں دے
دونویں ہتھ خالی سن!
حکومت نابینا، گونگے، بہرے اور معذور لوگوں کواگر نوکریاں نہیں دے سکتی تو ان کے ماہانہ وظائف مقرر کر دیئے جائیں تاکہ یہ بھی اپنے آپ کو زندوں میں شمار کرنے لگیں۔ لیکن اربوں کی ٹوٹ مار کرنے والے ہمارے سیاستدان ایسا کبھی نہیں کریں گے کیونکہ وہ انہیں انسان سمجھتے ہی نہیں... دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات۔
آج کا مطلع
سراب دیکھنے کو‘ انتظار کرنے کو
کرو تو کام پڑے ہیں ہزار کرنے کو