پیاری عیشا!
تم نے مجھے یہ کہا: چاچو! آپ کو مجھ سے پیار ہے تو مجھے
فرید الدین احمد کے گھر لے جائیں ورنہ میں آپ کے پورشن میں آنا چھوڑ دوں گی ۔دوسری جماعت کی طالبہ اور ایسا ذہانت بھرا جملہ؟ میں ششدر رہ گیا ۔ پھر مجھے اندیشوں نے آلیا۔ اس لیے کہ عقل کے ساتھ جوابدہی ہے۔ خدا کا قانون یہ ہے کہ ہر باشعور کو وہ آزمائش سے گزارتاہے ۔ گو کہ تم نے ایک متمول گھرانے میں آنکھ کھولی ہے ، جس کا ہر فرد تم بہنوں کے صدقے واری جاتاہے لیکن اس آزمائش سے تمہیں تنہا گزرنا ہوگا۔ہر کسی کو گزرنا ہوتاہے۔ چاچوکی محبت اس معاملے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتی ۔
دنیا امتحان گاہ ہے ۔ خواہشات کے بل پر زندگی بسر کرنا ممکن نہیں۔ حالات کے بے رحم دھارے کو ہماری آرزوئوں سے کوئی غرض نہیں ۔یہاں حالات کے تقاضوں کو سمجھ کر بر وقت درست فیصلہ کرنا ہوتاہے ۔ جو ایسا نہ کرے اور من مانی پہ تلا رہے ، وہ زمانے کی پے درپے ٹھوکروں کی زد میں رہتاہے ۔ ہوتا بالآخراس عظیم منصوبہ ساز کی منشا کے عین مطابق ہے لیکن اپنی ہٹ دھرمی اور عاقبت نا اندیشی سے آدمی نقصان سے دوچار ہوتاہے ۔
تم زندگی کا سنہرا دور بسر کر رہی ہو ۔ ایسا سکول ، جہاں ہر بچّے کو انفرادی طور پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے اور جہاں سز ا کا کوئی تصور نہیں ۔تمہاری ہر خواہش پوری کر دی جاتی ہے۔ ہفتے کے اختتام پر فرید الدین اور میکائیل رشید تم سے ملنے آتے ہیں ۔ تم کھیلتے اور گھومتے پھر تے ہو ۔ شام کو تحریم اور اس کا بھائی آ ٹپکتے
ہیں۔ آئس کریم والے کی مخصوص آوازکبھی تمہیں اس سے محروم رہ جانے کے اندیشے میں مبتلا نہیں کرتی۔ اکتا جائو تو نانی کا گھر تمہاری منزل ہوتا ہے۔تمہاری سالگرہ پہ پورا خاندان اکٹھا ہوتاہے اور تحائف کا ڈھیر لگ جاتاہے۔یہ مسرّتیں اپنی جگہ، ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے ۔ ان آسائشوں سے محروم غربا کی اولاد سخت جان ہوتی ہے اوریہ اپنی جگہ ایک نعمت ہوا کرتی ہے۔ امرا کے بچّے بالعموم نازک اندام رہ جاتے ہیں ، گو کہ زندگی رفتہ رفتہ اپنے سب تقاضے انہیں بھی سکھا دیتی ہے ۔
زندگی مسرّتوں کا مجموعہ نہیں ۔ اپنے جلو میں یہ غم اور بیماریاں بھی لاتی ہے ۔ یہاں اپنے پیاروں کی جدائی سے واسطہ پڑتاہے ۔ رانیا ہی کو دیکھو۔ تمہاری طرح ، اسے بھی میں گود میں اٹھائے اٹھائے پھرتا تھا۔ میرے سنگ اس نے کتنے لفظ سیکھے ۔کتنی بلّیوں کا ہم نے مل کر تعاقب کیا۔ ایک دو بار اس نے بلّی کو گاڑی کے نیچے سے نکل بھاگتے دیکھا تو اس مغالطے کا شکار ہوگئی کہ ہر گاڑی کے نیچے ایک مانو ہوتی ہے ۔کیسا خوشیوں بھرا ساتھ تھا ہمارا! پھر وہ سات سمندر پار جا بیٹھی اور مڑ کے نہیں دیکھا۔ اب تو شاید وہ مجھے بھول ہی چکی ہو۔میں بہرحال اسے نہیں بھولا۔
عقل کی دولت سے مالا مال ہم انسان خوش قسمت ہیں لیکن بدقسمت بھی ۔ اس لیے کہ ہمیں اس کی قیمت چکانا ہے۔ عقل جوابدہ پیدا کی گئی ہے ۔ آدمی اگراپنی ترجیحات کا درست تعین نہ کر سکے ، اگر زندگی کی بھول بھلیوں میں ، آرزوئوں کے تعاقب میں وہ محو ہو جائے تو یہ تباہی لاتی ہے ۔حبّ ِ جاہ کے شکار، اچھے بھلے سمجھدار جج کو یہ ایک ایسا شخص بنا ڈالتی ہے ‘ مقبولیت کے نشے میں جو آئینی تقاضے نظر انداز کر تے ہوئے ریٹرننگ افسران سے خطاب کرنے لگتاہے ۔
میری گڑیا، غلطی ہماری سرشت ہے لیکن سبق سیکھنے کی بجائے غلطی پر قائم ہو جانا بڑے خسارے کا سودا ہے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا، ہر غلطی کی ایک قیمت ہوتی ہے اور آدمی کو ضرور وہ چکانا پڑتی ہے ۔جب آدمی پے درپے ایسی حماقتوں اور ان کے نتیجے میں حاصل ہونے والی عارضی کامیابیوں پہ اترانے لگتاہے تو پھر اس کے زوال کا آغاز ہوتاہے ۔ پھر اس پہ قتل اور منی لانڈرنگ کے مقدمے قائم ہوتے ہیں ۔ پھر اس کے خلاف گواہ اور ثبوت سامنے آتے ہیں۔ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ آدمی کی اچھائی اور برائی اس کی زندگی ہی میں لازماً اور ہر صورت میں آشکار ہو کے رہتی ہے ۔خلقِ خدا کا اجتماعی شعور بڑا بھرپور ہوتا ہے ۔
ہم اندھی تقلید کے زمانے میں جی رہے ہیں ۔ ہم بھیڑ چال کے عہد میں زندہ ہیں ۔ دن میں تین بار روٹی اور چاول کی شکل میں ہم کاربو ہائیڈریٹس سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں ۔بڑے بڑے شہروں کے صاحبانِ عقل و شعور برگر سے بھوک مٹاتے ہیں؛ حالانکہ کرسی پر بیٹھ کر کمپیوٹر پر ذہنی کام کرنے والے ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ موزوں نہیں ۔ یہ تو محنت مشقت کرنے والے مزدور کی غذا ہے ۔صرف اسی کا جسم توانائی کے اس ذخیرے کو ہضم کر سکتاہے ۔ پھر ہم اپنے بڑھے ہوئے پیٹوں اور فشارِ خون میں اضافے پر تعجب کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ جسم کا یہ اضافی بوجھ ہمارے جوڑوں میں درد بٹھا دیتاہے ۔ اس صورتِ حال میں بھی ہم صحت مند غذا کی طرف رجوع نہیں کرتے ۔ جس آدمی کی ترجیحات اس قدر ناقص ہوں کہ اپنے جسم سے بھی وفا نہ کر سکے ، بھلا وہ ایک کامیاب زندگی کیونکر گزار سکتاہے ؟
چاچو کی جان ،ہم تادیر غفلت کے متحمل نہیں کہ مہلت محدود ہے۔ وہ آدمی اس دنیا سے ناکام اٹھا ، جودلائل اور نشانیوں کی بنا پر وجودِ خدا پہ یقین کی منزل تک نہ پہنچ سکا۔دوسری غلطیوں کی تلافی ممکن ہے ، زندگی کے اس سب سے بنیادی سوال سے پہلو تہی کرنے والے کے لیے کوئی چھوٹ نہیں ۔ بنیادی ناکامی صرف ایک ہے : خدا کا انکار ۔ باقی خطائیں عارضی سزائوں کا موجب ہیں۔
ہم سطحی زندگی گزارنے والے ہجوم کا حصہ ہیں ۔ زندگی کی حقیقت پر غور اور اس کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کرنے والے ہمیشہ ہر دور میں کم کم ہوا کرتے ہیں ۔ وہ لوگ جو کھلے ذہن کے ساتھ مذہب کے مآخذ کو نہیں پڑھتے ، وہ خدا کی تلاش کے مقدس فریضے کو بھی ایک مخصوص رنگ کی پگڑی تک محدود کر دیتے ہیں ۔ایسے میں مذہب بھی رسم و رواج بن کے رہ جاتاہے ۔ میری دعا ہے کہ تم اپنی آنکھ سے اس دنیا کو دیکھو اور اعلیٰ ترجیحات پر اپنی زندگی بسر کر سکو۔
پسِ تحریر: الیکشن میں ہار جیت کوئی بڑی بات نہیں ۔الیکشن ٹربیونل کی طرف سے دو برس کے بعد خواجہ سعد رفیق کی فتح کالعدم قرار دینا بھی کوئی عجوبہ نہیں ۔ زیادہ نقصان دہ روّیہ ہے۔ 11مئی 2014ء کو الیکشن کا ایک سال مکمل ہونے کے موقعے پر تحریکِ انصاف نے اسلام آباد میں جلوس کا اعلان کیا تو خواجہ صاحب کا کہنا یہ تھا: تحریکِ انصاف والے اپنی شکست کا ماتم کرنے آئیں گے اور ہم اپنی فتح کا جشن منانے ۔ اپنے سیاسی مخالفین کے باب میں وہ مسلسل اسی طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں ۔ الیکشن سے قبل ایک موقع پر پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے کپتان سے ان کے مذاکرات تقریباً مکمل ہو چکے تھے ۔ اس کے باوجود ، عمران خان کے بارے میں وہ مسلسل تحقیر آمیز پیرائے میں گفتگو فرماتے ہیں ۔ پاکستانی سیاست کی تلخیوں میں ایسے رویوں نے بے حد اضافہ کر دیا ہے۔