عالمی سطح پر پٹرولیم کی قیمتوں میں جو زبردست کمی ہوئی ہے اس کے پیش نظر اندازہ لگایا گیا ہے کہ آئندہ تین برسوں کے دوران اگر یہ قیمتیں اسی طرح پر رہتی ہیں تو پاکستان کو لگ بھگ بارہ ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔ اتنی بڑی رقم کا کیا مصرف ہوگا، ہم آپ تو صرف سوچ ہی سکتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ایک ہستی ایسی ہے جس کے پاس امکان غالب ہے کہ مکمل پروگرام ہوگا کہ بارہ سو کروڑ ڈالر کی اس خطیر رقم کو کیسے اور کہاں استعمال کیا جائے گا۔ یہ ہستی ہیں وفاقی وزیرخزانہ۔
ہم سب پاکستانیوں کو مل کر دعا کرنی چاہیے کہ پروردگار ان کے دل میں عوام کے لئے رحم کا جذبہ اجاگر کردے اور ان کی شخصیت میں حب الوطنی مزید کوٹ کوٹ کر بھردے۔ جس شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنے فرزند ارجمند کو قرضہ حسنہ عطا کیا ہے۔ ویسی ہی شفقت کا پاکستانی عوام کے ساتھ مظاہرہ کرنے کی بھی پروردگار انہیں توفیق دے۔
ہم عام پاکستانیوں کو بھلا کیا معلوم کہ معیشت کیا ہوتی ہے۔ اس کے رموز سے تو محترم وزیر خزانہ ہی واقف ہیں مگر جو باتیں سیدھے سادے پاکستانیوں کو پتہ ہیں وہ ان کی اپنی زندگیوں سے متعلق ہیں اور جن کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ ان میں بہتری کے لئے اگر تھوڑی بہت رقوم صرف کر دی جائیں تو بہتوں کا بھلا ہوگا۔
مثال کے طور پر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بحیثیت قوم ہم انتہائی کم رقم خرچ کرتے ہیں۔ ان شعبوں میں کم رقم تو ہمارے ہاں شروع دن سے خرچ ہو رہی تھی مگر اس رقم کو انتہائی کم رقم میں تبدیل کرنے میں محترم اسحاق ڈار صاحب کا اپنا کرداربھی خاصا اہم رہا ہے۔ ان کے پیش کردہ ہر بجٹ میں گزشتہ کی نسبت صحت اور تعلیم کے شعبوں میں رقوم کم ہی ہوتی رہی ہیں۔
اب چونکہ کافی امکان ہے کہ پٹرولیم کی عالمی قیمتوں میں کمی سے سالانہ ہمیں چار سو کروڑ ڈالر کی بچت ہوگی تو محترم وزیر خزانہ کو آئندہ بجٹ میں اپنا پرانا ریکارڈ قائم نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ہمت کرکے اس کو توڑ دینا چاہیے۔ مگر مثبت انداز میں توڑنا چاہیے اور جی کڑا کرکے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں رقوم کی فراہمی میں اضافہ کم از کم اس قدر ضرور کر دینا چاہیے کہ نظر آئے کہ اضافہ ہوا ہے۔ اونٹ کے منہ میں زیرہ نہیں ہونا چاہیے اور اعدادوشمار کا ہیر پھیر نہیں ہونا چاہیے۔
اس کے بعد اس خطیر رقم میں سے کچھ رقم ملک کی یونیورسٹیوں کو صرف اور صرف ریسرچ کے لئے دینا چاہئے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وزیر خزانہ صاحب سب سے پہلے کسی انجینئرنگ یونیورسٹی کے پروفیسر سے طویل ملاقات کرکے یہ معلوم کریں کہ آج کے دور میں ریسرچ کی اہمیت کیا ہے اور ریسرچ کی قدر میں مختص کی گئی تھوڑی سی رقم کس طرح ملک کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔
جب وزیرخزانہ پر واقعتاً ریسرچ کی اہمیت واضح ہو جائے گی تو امکان غالب ہے کہ وہ ریسرچ کے لئے رقوم مختص کرتے ہوئے کنجوسی سے کام نہیں لیں گے۔ ہمارے ہاں جتنی کم رقم ریسرچ کے لئے رکھی جاتی ہے وہ اس امر کی غماز ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو ریسرچ کی اہمیت کا صحیح اندازہ فی الحال تو نہیں ہے۔ ایک اور گزارش ڈار صاحب کی خدمت میں یہ ہے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے کم از کم ایک دن نکالیں اور کسی بڑے شہر سے محض پندرہ بیس میل دور کسی گائوں کا دورہ کرلیں۔ شرط یہ ہے کہ کسی کو بتائے بغیر جائیں اور تنہا جائیں پھر دیکھیں کہ اکیسویں صدی میں ہمارے پاکستانی بھائیوں کی اکثریت کس طرح رہ رہی ہیں۔ گائوں میں ایک دن گزارنے کے بعد ایک
دیہی ترقیاتی پروگرام مرتب کریں اور اس کو مرکز کے تحت ہی رکھیں۔ اس پروگرام کے ذریعے براہ راست دیہی آبادی کی مدد کریں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بارہ سوکروڑ ڈالروں کا ایک انتہائی معمولی حصہ بھی اگر آپ اس پروگرام کے لیے مختص کردیں اور اس پروگرام کو صوبائی حکومت کے شکروں سے بچا کردیانتدار ایسے لوگوں کی مدد سے چلائیں‘ جو دیہی مسائل سے واقف ہوں تو نہ صرف ہماری دیہی آبادی شکرگزار ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ بھی ممکن ہے آپ کے اس عمل سے خوش ہو کرپاکستان کی مزید مالی اعانت کا سامان پیدا کردے۔
ڈار صاحب آپ کو تو معلوم ہے کہ غریبوں کی دعائوں میں بڑا اثر ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ایک زمانے میں آپ گلبرگ لاہور کے ایچ بلاک میں رہتے تھے اور وہاں آپ کے گھر کے باہر غریب غرباء کی قطار لگی رہتی تھی۔ ان غریبوں کی دعائوں سے دیکھیں آپ کہاںسے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ اب بطور مرکزی وزیر خزانہ آپ کے دفتر کے باہر سمجھیں کروڑوں غرض مند پاکستانیوں کی قطار موجود ہے۔
گزارش ہے کہ غرض مندوں کی اس قطار کو دیکھیں۔ ان بے چاروںکے مسائل کو دیکھیں۔ نوکر پیشہ لوگوں کی کم تنخواہوں کی طرف نظر کریں، پنشن پانے والوں کے دکھ درد کو محسوس کریں۔
گزارشات تو اور بھی بہت سی ہیںمگر کالم کی سطور محدود ہیں۔ آخر میں عرض کروں گا کہ اب تک آپ طاقتور لوگوں کے مفادات کا خاصا خیال رکھتے رہے ہیں۔ بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے کم مراعات یافتہ لوگوں اور غریب غرباء کا بھی خون نچوڑتے رہے ہیں۔ اس مرتبہ ہمت کرکے عام پاکستانیوں کی نمائندگی کا حق ادا کریں اور امراء کے مفاد کو ٹھوکر مارتے ہوئے غریبوں اور متوسط طبقے کی جھولیاں بھردیں۔
مجھے یقین ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے ایسے گِدھ ہیں جنہوں نے ان بارہ سو کروڑ ڈالروں پر نظر رکھی ہو گی۔ آپ سے بہتر ان گِدھوں کو کون جانتا ہے۔ خدارا ان گِدھوں کو مایوس کردیں۔ ہمارے دفاع کا فریضہ انجام دینے والوں کو البتہ مایوس نہ کریں۔ ہمارا ملک جن مسائل کا شکار ہے ان سے نبردآزما ہونے کے لئے ہم اپنے دفاع کی ضروریات سے غافل ہونے کی عیاشی نہیں کرسکتے۔
یاد رکھیں کہ اگران بارہ سو کروڑ ڈالر کی رقم کو آپ بدعنوان ہاتھوں سے بچالیں گے تو جو کچھ میں نے تحریر کیا ہے ان سب پر عملدرآمد کے بعد بھی قومی خزانے میں رقم بچ رہے گی کیونکہ بارہ ارب ڈالر کوئی کم رقم نہیں ہوتی۔