2012ء میں امریکہ کے Harper,s Magazineنے ایک سٹوری شائع کی جس کا عنوان تھا How to Rig an Election?یہ مضمون الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہونے والی اس دھاندلی کے بارے میں تھا‘ جسے عام شخص کے لیے جانچنا اور پرکھنا مشکل ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ دنیا میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کو دھاندلی کے امکانات سے پاک سمجھا جا رہا ہے‘ حالانکہ ووٹنگ کے اس سسٹم کے ذریعے بھی انتخابی نتائج میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ممکن ہے۔ اس میں مشین کے سوفٹ ویئر میں تبدیلی کر کے ووٹوں کی گنتی کو کسی خاص رخ میں بڑھایا یا گھٹایا جا سکتا ہے۔ امریکہ کی ایک ایک ریاست میں درجن درجن بھر تنظیمیں اسی مقصد کے لیے کام کر رہی ہیں کہ الیکشن کے عمل کو کیسے شفاف اور دیانتدارانہ بنایا جائے۔ امریکہ جیسا ملک جہاں جمہوری عمل اور انتخابات کا طریقہ کار ہمیں فول پروف دکھائی دیتا ہے وہاں بھی الیکشن میں دھاندلی ہوتی ہے۔ اس پر آوازیں بھی اٹھتی ہیں اوراحتجاج بھی ہوتا ہے۔ لیکن شفاف الیکشن کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے اور تنظیمیں تحریک کی صورت مسلسل مصروف عمل ہیں تاکہ انتخابات میں دھاندلی کے امکانات کو مکمل طور پر روکا جائے۔ عوام‘ جمہوری نظام کے اندر سب سے اہم اور بنیادی اکائی ہیں۔ انتخابات میں وہ جس رائے کا اظہار کریں‘ نتائج بھی وہی نظر آنے چاہئیں‘ اور انتخابات کے کسی بھی مرحلے پر کسی کو عوام کا مینڈیٹ چوری کرنے کی جرأت نہ ہو۔
دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں جہاں عوام میں تعلیم اور شعور کا تناسب انتہائی کم ہے‘ وہاں انتخابات میں کئی مرحلوں میں دھاندلی کے امکانات ہوتے ہیں۔ پاکستان کا شمار بھی ایسے جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے‘ یہاں انتخابات میں دھاندلی صرف بیلٹ پیپر کے ذریعے ہی نہیں ہوتی بلکہ الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی پری پول رگنگ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ علاقے میں اپنی مرضی کے پولیس آفیسر لگوائے جاتے ہیں‘ تبادلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ بیوروکریسی کے اہم عہدوں پر بھی اپنی پسند کے لوگ تعینات کرائے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ نگران حکومت کے ذریعے عمل میں لایا جاتا ہے۔ یوں پورا سپورٹ سسٹم بنا کر پولنگ سٹیشنز کے اندر، دھاندلی کے عمل کو مزید آسان کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں 1970ء کے الیکشن کے بعد ہر انتخابات پر دھاندلی کے الزامات لگے، لیکن پھر نئی حکومتیں احتجاج کی آوازوں کو ''کچھ لو کچھ دو‘‘ کے اصول پر خاموش کرا دیتی رہیں۔ یوں انتخابی عمل میں ہونے والی دھاندلیوں کی تحقیق کرنے کا عمل کبھی بھی شروع نہ ہوا اور انتخابی اصلاحات صرف نعرہ ہی رہیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ ان کے 126 دن کے دھرنے کے نتیجے میں حکومت پر دبائو بڑھا اور مئی 2013کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کا جوڈیشل کمیشن بنا۔ عمران خان نے اس ایشو کو عوامی ایشو بنا دیا۔ یوں سب کی نظریں الیکشن ٹربیونل کے فیصلے پر ہی مرکوز تھیں ۔ ملک کے باشعور عوام لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ اس ایشو کو اہمیت دے رہے تھے اور انتظار میں تھے کہ الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ آئے۔ اس حوالے سے آنے والا پہلا ہی فیصلہ بڑا اہم نوعیت کا ہے ٹربیونل نے فیصلہ دیا کہ این اے 125میں سنگین انتخابی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ ایک ہی نام پر چھ چھ ووٹ ڈالے گئے اور مزید شواہد کی روشنی میں ‘ یہاں ہونے والا الیکشن دھاندلی زدہ قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس فیصلے سے مسلم لیگ ن کے اہم رہنما خواجہ سعد رفیق قومی اسمبلی کی سیٹ اور وزارت سے بھی محروم ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی پی پی 125کا الیکشن بھی ٹربیونل سے کالعدم قرار دیا۔ شنید ہے کہ مزید51حلقوں میں بھی انتخابی عمل کے دوران سنگین بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔ یوں اکیاون حلقوں کے انتخابات کالعدم ہونے کا اندیشہ ہے اگر ایسا ہو، تو ان حلقوں میں دوبارہ الیکشن کرانے پڑیں گے۔ اس صورت حال پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں لیکن سب سے پہلے انتخابی دھاندلیوں پر تحقیقات اور آزادانہ فیصلوں کے عمل کو سراہنا چاہیے۔ یہی دنیا کے مہذب جمہوری ملکوں کا وتیرہ ہے۔ دھاندلی کے الزامات لگتے ہیں۔ ایسے الزامات اور شکایات کی چھان بین اور تحفظات کی جانچ پڑتال کے لیے الیکشن ٹربیونلز سے رجوع کیا جاتا ہے۔ جو مکمل تحقیق کے بعد آزادانہ فیصلے کرتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں بھی انتخابی اصلاحات پر بات ہوتی ہے۔اور اس جمہوری عمل کو زیادہ سے زیادہ شفاف اور فول پروف بنانے کے انتظامات کئے جاتے ہیں۔ سو پاکستان کوئی واحد ملک نہیں جہاں انتخابات کی شفافیت پر انگلی اٹھتی ہے۔ کم و بیش دنیا کے سبھی ملکوں میں انتخابی نتائج پر اعتراضات ہوتے رہتے ہیں۔ انتخابی اصلاحات بھی ایک پورے پراسس سے گزرنے کے بعد ہی نتیجہ خیز ہو سکتی ہیں۔ یہ سبز بتی جلانے اور سرخ بتی بند کرنے جیسا عمل نہیں ہے ایک ایسے ملک میں جہاں ملک کی آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتی ہو وہاں عوام کی رائے کا معتبر ہونا بھی ایک سوال ہے؟ کرپشن زدہ معاشرے میں جہاں دو وقت کی روٹی کی تگ و دو میں صبح سے شام کرتے ہوئے‘ غربت زدہ عوام کے وجود ہی معتبر نہ ہوں‘ وہاں ان کی رائے کو چند پیسوں میں آسانی سے خریدا جا سکتا ہے آپ اور ہم یہاں ہونے والے ہر الیکشن میں یہی کچھ دیکھتے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ 2014ء کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان کی 45.6فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے جی رہی ہے۔ جن کے بچے صحت کی سہولتیں نہ ملنے سے مر جاتے ہوں‘ جو معاشرے کی ناانصافیوں کی بھینٹ چڑھتے ہوں‘ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم پر مبنی سماج میں جینے کی سزا کاٹ رہے ہوں انہیں ووٹ کی اہمیت پر ہونے والی تقریریں سمجھ نہیں آتیں۔ پاکستان کی ستر فیصد غریب آبادی دیہات میں جاگیرداروں اور زمینداروں کے حکم کو حرف آخری سمجھتی ہے۔ سادہ لوح دیہاتی ان کے حکم پر ٹرالیوں میں جاتے ہیں اور پولنگ سٹیشنوں پر جا کر ان کی منشاء کے مطابق ٹھپہ لگا کر انتخابی عمل کا حصہ بنتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں دھاندلی زدہ حکومتیں وجود میں آتی ہیں۔ شفاف انتخابات ایک ایسی منزل ہے جس کے لیے لمبا سفر طے کرنا ہو گا۔ کرپشن کو کنٹرول کرنا‘ غربت کی شرح کو کم کرنا‘ روزگار عام کرنا‘ بہتر تعلیم اور بہتر صحت کی سہولتیں سب تک پہنچانا ہوں گی۔ احتیاجات سے آزاد انسان ہی ‘ آزادانہ رائے کا سوچ سکتا ہے۔ اس کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں گی تو اُسے اپنی رائے اور اپنے ووٹ کی طاقت کا احساس ہوگا۔ ایسے ووٹ آسانی سے نہیں خریدے جا سکیں گے!عام آدمی کو جاگیرداروں، زمینداروں اور سرمایہ داروں سے بے نیاز بنائے بغیر‘ شفاف الیکشن اور انتخابی اصلاحات کی بات کرنا خام خیالی ہو گی۔