تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     08-05-2015

ایک غنیمت آدمی

پھر کتاب یاد آئی: جسے چاہتا ہے وہ عزت عطا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے ذلّت... اور عارف نے یہ کہا تھا: آخری سانس تک زندگی ایک امتحان ہے۔ کون جانتا ہے کہ آنے والا کل کس کے لیے کیا لائے گا۔
وہی بات، سیاست میں سب سے اہم چیز شخصیات اور پارٹیاں نہیں، صورتِ حال ہوتی ہے۔ رفیق رجوانہ کا انتخاب یاد دلاتا ہے کہ انسانی تقدیروں کے فیصلے زمین نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ ان کے ہم نفس خالد مسعود نے بتایا کہ وہ امیدوار نہ تھے۔ خود ان سے بھی تصدیق کی۔ عطاء الحق قاسمی اس لیے بھی نظر انداز ہوئے کہ جنوبی پنجاب کے احساسِ محرومی کو بجھانا مقصود ہے، اگرچہ صرف اس سے نہ بجھے گا۔
سعود مجید پر ایک مقدمہ قائم تھا۔ آخر کو دو باقی بچے، تہمینہ دولتانہ اور رفیق رجوانہ۔ کہا جاتا ہے کہ تہمینہ کو شہباز شریف نے ویٹو کر دیا۔ وفادار وہ بھی ہیں مگر تند مزاج ہیں، کاروباری ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ کو ایک ایسا گورنر درکار ہے، جو کبھی ان کے لیے دردِ سر نہ بنے۔ رفیق رجوانہ وزیرِ اعلیٰ تو کیا، اپنے کسی ماتحت کے لیے بھی پریشانی کا باعث نہ ہوں گے۔ با دشمناں تلطف، با دوستاں مدارا۔ دوستوں کی مدارات، دشمنوں کا احترام۔
جب بھی انہیں دیکھا، حیرت ہوئی کہ کارِ سیاست میں اس معقول دکھائی دیتے آدمی کا کیا کام ع
یہاں پگڑی اچھلتی ہے، اسے میخانہ کہتے ہیں
غلام اسحٰق خان ایک عجیب آدمی تھے۔ عمر بھر خوشامد کی اور نہ کبھی کسی کو گالی دی۔ اس کے باوجود نصف صدی تک ان کا پھریرا لہراتا رہا۔ نسخہ ان کا یہ تھا: کسبِ کمال کن کہ عزیز جہاں شوی۔ اپنے فن میں کمال پیدا کرو کہ دنیا تمہیں عزیز رکھے۔ ریاضت بے پناہ۔ نائب تحصیلدار تھے، جب عملی زندگی کا آغاز کیا۔ افسر شاہی میں شاید ہی کوئی بڑا منصب ان سے بچ رہا ہو۔ ظاہر ہے کہ فرشتہ نہ تھے۔ آدمی کو خطا و نسیان سے بنایا گیا ہے۔ رفیق رجوانہ میں غلام اسحٰق خان ایسا ہنر اور کمال نہیں مگر خرابی اور خامی بھی مشکل سے تلاش کرنا پڑتی ہے۔
سوال خالد مسعود خان سے کیا کہ جنوبی پنجاب کے ایک ایک اہم آدمی سے آشنا ہیں۔ کسی کارنامے، کسی کرامت کا حوالہ نہ دیا مگر دل کھول کر تحسین کی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ الیکشن 2008ء کے ہنگام انہی کے گھر پہ ایک طویل ملاقات ہوئی تھی۔ ان کے بقول موصوف کو اس ناچیز نے قائل کیا کہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں۔ قومی اسمبلی کی نشست جاوید ہاشمی کے لیے چھوڑ دیں۔ عرض کیا: مجھے تو ہرگز یاد نہیں۔ ایک دھندلی سی تصویر بھی نہیں۔
انسانی ذہن عجیب چیز ہے۔ کمال تفصیل اور پوری جزئیات کے ساتھ یاد رکھتا ہے۔ کبھی یکسر بھول جاتا ہے۔ دماغ کے لیے حکم ہم صادر کرتے ہیں یا کوئی اور؟ فرمایا ''زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں، جسے ہم نے ماتھے سے تھام نہ رکھا ہو‘‘۔ فرمایا: اللہ رب العالمین نہ چاہے تو تم کچھ چاہ بھی نہیں سکتے۔ پھر کس چیز پہ آدمی فخر کرتا ہے ؎
اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا
ناز بھی کر تو با اندازۂ رعنائی کر
با اندازۂ رعنائی بھی نہیں۔ عارف نے یہ کہا تھا: خود کو کبھی رعایت نہیں اور دوسروں کو ہمیشہ۔ رفیق رجوانہ کیا ایسے ہی ایک آدمی ہیں؟ جی نہیں، وہ وکیل اور سیاستدان ہیں۔ آرزو پالتے اور موکل کا مقدمہ لڑتے ہیں لیکن ایک ذرا باوقار انداز میں۔ کذب بیانی کے بغیر، چھچھورے پن کے بغیر۔ اس لحاظ سے وہ ہماری سیاست کی مستثنیات میں سے ایک ہیں۔
رجوانہ صاحب سے میں نے پوچھا: کیا آپ امیدوار تھے؟ کہا: ہرگز نہیں۔ صبح دس بجے وزیرِ اعظم ہائوس بلایا گیا۔ میاں صاحب نے مطلع کیا تو میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ عرض کیا: میرے لیے یہ ایک اعزاز ہے۔ وہ بولے: نہیں بلکہ ہمارے لیے بھی کہ آپ ایک مخلص، محنتی اور ایماندار آدمی ہیں۔ پارٹی کے پرانے کارکن اور وفادار۔ ملتان کے اخبار نویس یہی کہتے ہیں۔ ا زراہِ احتیاط میں نے تحریکِ انصاف کے رہنما اسحٰق خاکوانی سے پوچھا۔ پچھلی صف میں آسودہ رہنے، خوشامد اور تلخی سے گریز کرنے والے، وہ ایک باخبر اور ذہین سیاستدان ہیں۔ بتایا کہ پرسوں پرلے روز جوڈیشل کمیشن میں کارروائی کے ہنگام انہوں نے مجھے کھانے کی دعوت دی۔ خاکوانی کے مزاج میں ایک ذرا سی شوخی ہے۔ انہوں نے کہا: آپ کی نوکری خراب ہو گی۔ جواب ملا: بالکل نہیں۔ میں نے پوچھا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ وہ ایک شریف آدمی ہیں۔ کہا: بالکل!
یہ ہے اصل رفیق رجوانہ۔ دل سنبھالے رہو زباں کی طرح۔ میر تقی میرؔ کے ہاں کہ شعر کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں، یہ مضمون کئی بار آیا ہے۔ ہر بار ایک دمکتے ہوئے ہشت پہلو ہیرے کی طرح ؎
زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یوں سمجھ لے کوئی مینا خانہ بارِ دوش ہے
حیات ابتلا میں ڈال کر ہیجان پیدا کرتی ہے۔ متلاطم زمانے اور بھی زیادہ۔ آدمی کو امتحان کے لیے پیدا کیا گیا۔ وہ آزمایا جاتا ہے، بھوک سے، خوف سے، مال اور جان کی بربادی سے، طمع سے، خواہشات سے۔ کامران وہ ہے جو طرح دے جائے۔ عربوں کا محاورہ یہ ہے ''السعید من وعظ بغیرہ‘‘ سعید وہ ہے، جو دوسروں کے حال سے نصیحت حاصل کرے۔ ملتان میں لباس کی طرح پارٹیاں بدلنے والے ''خاندانی‘‘ سیاست دانوں کے درمیان رفیق رجوانہ ایک استثنیٰ ہیں۔
جنرل راحیل شریف چیف آف آرمی سٹاف بنائے گئے تو دن بھر میں ان کی ستائش کرتے بڑوں، ہم عمروں اور خوردوں سے پوچھتا رہا کہ کوئی کمزور پہلو بھی لازماً ہو گا۔ بریگیڈیئر عارف صدیقی نے چڑ کر کہا: مجھے معلوم ہی نہیں، آپ کو کہاں سے بتائوں۔ یہ نہیں کہ کوئی کمی ایسے لوگوں میں ہوتی ہی نہیں لیکن شائستگی اگر دائمی ہو تو اللہ کیا، بندے بھی مہربان ہو جاتے ہیں۔ فرمایا: نرمی کرو، تمہارے ساتھ نرمی کی جائے گی۔
اگرچہ دل دکھتا ہے کہ اب جنرل راحیل شریف کے بعض ماتحتوں کی زبانیں بھی قابو میں نہیں رہیں۔ کسی کے ثبات کی عمارت دوسروں کی نفی پر استوار نہیں کی جاتی۔ کیانی اگر نہ ہوتے تو جنرل راحیل بھی کوئی معرکہ سر نہ کر سکتے۔ سوات اور جنوبی وزیرستان اگر سر نہ ہوتے تو شمالی وزیرستان بھی نہیں۔ اس خدا کی قسم، جس کے قبضۂ قدرت میں انسانوں کی جان اور آبرو ہے، خاموش رہنے والے باوقار آدمی کے بارے میں سنائی جانے والی ہر دس کہانیوں میں سے نو صریحاً جھوٹی ہیں اور دسویں میں رنگ آمیزی۔ ایک سالن اس آدمی کے گھر میں پکتا ہے۔ ایک مزدور کی زندگی اس نے بسر کی۔ تاریخ میں وہ ایک عظیم محب وطن، ایک کامیاب حکمت کار اور ایک نجیب آدمی کے طور پر یاد ر کھا جائے گا۔ رہے کہانیاں کہنے والے تو وہ کب نہ تھے اور کہاں نہ تھے۔ سستی شہرت کے خوانچہ فروش ؎
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
جنرل ضیاء الحق کو قادیانی قرار دینے والوں کا منہ کالا ہوا تھا۔ خامیاں اور خطائیں مگر مالی معاملات میں وہ مکمل طور پر ایک ایماندار آدمی تھے اور عامیوں کے ساتھ آسودہ رہنے والے۔
کیانی بھی ایسے ہیں اور رفیق رجوانہ بھی۔ اگرچہ انتخاب، میرا خیال ہے کہ ان کی خوبیوں کے سبب نہیں بلکہ اس لیے کہ وہ یکسر بے ضرر ہیں۔ با ایں ہمہ کاسہ لیسوں اور نعرہ بازوں کے درمیان وہ ایک غنیمت آدمی ضرور ہیں۔ پھر کتاب یاد آئی: جسے چاہتا ہے وہ عزت عطا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے ذلّت... اور عارف نے یہ کہا تھا: آخری سانس تک زندگی ایک امتحان ہے۔ کون جانتا ہے کہ آنے والا کل کس کے لیے کیا لائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved