بھارت کے یوگا گرو بابا رام دیو ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔ خیر، وہ خبروں میں کب نہیں ہوتے؟ مگر اس بار وہ خاصے زوردار انداز سے خبروں میں جگہ بنائے ہوئے ہیں۔ بابا رام دیو کے تذکرے سے بھارتی پارلیمنٹ کا ایوان بالا راجیہ سبھا بھی گونج رہا ہے۔
یوگا کی حد تک تو معاملہ درست تھا۔ بابا رام دیو کے چیلے رات دن یوگا کی مشقیں کرتے رہتے ہیں۔ اس میں تنفس درست کرنے کی مشق بھی شامل ہے جس کے ذریعے انسان کو اپنے حواس پر قابو پانے کا ہنر سیکھنے میں مدد ملتی ہے۔ بہت سے دل جلے تو طنزاً یہ کہنے سے بھی نہیں چُوکتے کہ بابا رام دیو کے چیلے علی الصباح گہرے گہرے سانس لے کر اچھی خاصی آکسیجن پھیپھڑوں میں بھر لیتے ہیں جس کے باعث عام لوگوں کو دن بھر سانس لینے میں دشواری کا سامنا رہتا ہے! ایسی باتوں کا بابا رام دیو نے کبھی بُرا نہیں مانا۔ بُرا کیوں مانیں؟ یہی تو وہ باتیں ہیں جن سے پریکٹیکل پولیٹیکل شو میں بھرپور ''لافٹر‘‘ آتا ہے!
بابا رام دیو اگر یوگا کی مشقوں تک محدود رہتے تو کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا؟ مگر وہ گرو ہی کیا جو کسی ایک معاملے تک محدود رہے؟ بابا رام دیو نے بھی خوب ہاتھ پاؤں پھیلا رکھے ہیں۔ انہوں نے دیسی علاج کے مراکز قائم کر رکھے ہیں اور جڑی بُوٹیوں سے ادویہ تیار کرنے کا ایک بڑا کارخانہ بھی قائم کر لیا ہے جس میں وہ ادویہ تیار کی جاتی ہیں جن کی بھارتی معاشرے کو اشد ضرورت ہے۔ بابا رام دیو کو اندازہ ہے کہ مارکیٹ میں کیا لانا چاہیے اور کیا نہیں لانا چاہیے۔ بھارتی معاشرے میں اولادِ نرینہ کو بھگوان کا سا درجہ حاصل ہے‘ اور سچ تو یہ ہے کہ جن گھرانوں میں چار پانچ لڑکیوں پر ایک لڑکا ہو ان میں لڑکے کو پُوجا کی حد تک چاہا جاتا ہے۔ گھر میں جو کچھ بھی لایا جاتا ہے اس پر پہلا حق بیٹے کا ہوتا ہے۔ اگر اس سے کچھ بچ جائے تو لڑکیوں کی باری آتی ہے۔
اولادِ نرینہ کی خواہش بھی مایا جال کے سِوا کچھ نہیں۔ اس بات کی ضمانت کون دے سکتا ہے کہ لڑکا بڑا ہوکر ماں باپ کا سہارا بنے گا؟ عمومی مشاہدہ ہے کہ زندگی بھر جس اولادِ نرینہ کے ناز اٹھائے جاتے ہیں وہ ماں باپ کو ان کے آخری وقت میں چھوڑ چھاڑ کر اپنی دنیا بسالیتے ہیں۔ مگر پھر بھی اولادِ نرینہ کو ہر معاملے میں اولیت دینے کا چلن ختم تو خیر کیا ہوگا، کمزور پڑنے کا نام بھی نہیں لیتا۔
اولادِ نرینہ کے معاملے میں فکر کی کجی کچھ بھارت کا ''خاصہ‘‘ نہیں۔ ہم بھی اسی کشتی کے سوار ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں بھی اولادِ نرینہ کو دنیا و آخرت میں نجات کا ذریعہ سمجھنے والوں کی کمی نہیں۔ بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دینے کی سوچ اتنی گہری جڑیں رکھتی ہے کہ اسے اکھاڑ پھینکنے کے لیے باضابطہ انقلاب کی ضرورت ہے!
بات ہو رہی ہے یوگا گرو بابا رام دیو اور ان کے دوا ساز کارخانے کی۔ راجیہ سبھا میں ارکان نے شور مچایا ہے کہ بابا رام دیو کی قائم کردہ ''دِویا فارمیسی‘‘ اولادِ نرینہ پیدا کرنے میں مدد دینے والی دوا فروخت کرنے کے نام پر عوام کو بے وقوف بنارہی ہے۔ دِویا فارمیسی نے ''پتر جیوک بیج‘‘ کے نام سے ایک خاص دوا تیار کی ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ اس دوا کے استعمال سے بیٹا پیدا کرنے والے بیضوں کی تعداد بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔
''پتر جیوک بیج‘‘ کا ایک پیکٹ راجیہ سبھا میں ارکان کے سامنے لہراتے ہوئے کے سی تیاگی نے کہا کہ بابا رام دیو عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ کے سی تیاگی نے معاملہ اٹھایا تو راجیہ سبھا میں اس پر گرما گرم بحث ہوئی۔ ذرا سی دیر میں معاملہ فلمی ہوگیا۔ پہلے معروف اداکارہ جیہ بچن نے کے سی تیاگی سے دوا کا پیکٹ جھپٹ کر مرکزی وزیر صحت جے پی نڈّا کو دے دیا! پھر معروف اسکرین رائٹر اور شاعر جاوید اختر نے بھی خاصا طنزیہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے حکومت پر تنقید کی اور توجہ دلائی کہ ایسی ہر دوا یکسر غیر قانونی ہے جو رحمِ مادر میں پلنے والی زندگی کی صنف کا تعین کرتی ہو۔ جاوید اختر بھلا خاموش کیسے رہتے؟ راجیہ سبھا کا ماحول مکمل فلمی منظر پیش کر رہا تھا! وہ راجیہ سبھا کے سیشن میں باقاعدگی سے شریک ہوتے ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ جو مکالمے وہ گھر میں بیٹھ کر ذہن کے لاکھ گھوڑے دوڑانے پر بھی نہیں سوچ سکتے وہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں گرما گرم بحث کے دوران سُوجھتے ہیں!
بابا رام دیو زیادہ متنازع اس لیے بھی ہوگئے ہیں کہ وہ ریاست ہریانہ کے برانڈ ایمبیسیڈر ہیں جہاں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد خاصی کم ہے۔ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ ہریانہ اور اس سے متصل علاقوں میں لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینے کا رواج لوگوں کی نفسی ساخت کا لازمی حصہ ہے۔ رحمِ مادر میں جنس کا تعین ہوتے ہی یعنی لڑکی کا پتا چلتے ہی حمل ضائع کرادیا جاتا ہے۔
بابا رام دیو کی دِویا فارمیسی کہتی ہے کہ اس نے کوئی ایسی دوا تیار نہیں کی جس کا مقصد اولادِ نرینہ کے بیضے پیدا کرنا ہو۔ یہ وضاحت مضحکہ خیز ہے کیونکہ دوا کا نام ہی ''پتر جیوک بیج‘‘ (بیٹے کو جنم دینے والا بیضہ) ہے! تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی چکن تِکّہ بیچ رہا ہو اور زبان پر دعویٰ ہو‘ مکس سبزی فروخت کرنے کا! جیہ بچن نے سوال کیا کہ حکومت بہت سی یقین دہانیاں کرا رہی ہے مگر اس دوا پر یا اسے تیار کرنے والے ادارے پر پابندی عائد کرنے کا یقین کیوں نہیں دلا رہی۔
بابا رام دیو خاموش ہیں۔ خوش نصیبی یہ ہے کہ اس کٹھن وقت میں ان کی مدد کے لیے جہاں دیدہ فلم میکر سبھاش گھئی منظر عام پر آئے ہیں۔ جب معاملہ بہت حد تک فلمی منظر نامے سے ملتا جلتا ہو تو فلمی شخصیات کا متحرک ہونا بھی کچھ حیرت انگیز نہیں! ہوسکتا ہے کہ سبھاش گھئی اس پورے معاملے میں کوئی ڈھنگ کی فلمی کہانی سُونگھ رہے ہوں! اب تک بابا رام دیو نے جو کچھ کیا ہے‘ وہ کئی یادگار فلمی مناظر کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسے میں راجیہ سبھا میں ان ارکان کا متوجہ ہونا بھی حیرت انگیز نہیں جو فلمی پس منظر رکھتے ہیں۔
ہندو معاشرہ آج بھی بیٹوں کی آرتی اتار رہا ہے اور بیٹیوں کو پیدا ہونے سے پہلے قتل کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ مرزا تنقید بیگ ہندوانہ تمدّن کے زیر اثر اولادِ نرینہ کو لڑکیوں پر فوقیت دینے والوں سے بہت خار کھاتے ہیں۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کو اپنے زورِ بازو کی بنیاد پر زندگی بسر کرنی ہوتی ہے۔ جو لوگ بیٹے کے جوان ہونے کی آس پر زندہ رہتے ہیں وہ بڑھاپا آنے سے پہلے عملاً موت کو گلے لگالیتے ہیں! مرزا کے دو بیٹے ہیں مگر انہوں نے کبھی ان دونوں بیٹوں کو اپنی تین بیٹیوں پر ترجیح نہیں دی۔ تعلیم کے معاملے میں سب کو یکساں مواقع فراہم کئے ہیں۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بیٹیاں پڑھ لکھ کر سُلجھی ہوئی سوچ کی مالک ثابت ہوئی ہیں اور گھر میں برابری کے سُلوک نے اُنہیں بہتر اور متوازن زندگی بسر کرنے کی تحریک دی ہے۔ مرزا کے پانچوں بچے اپنے اپنے شعبوں میں پورے توازن سے کام کرتے ہوئے باپ کی نیک نامی میں اضافے کا وسیلہ ثابت ہو رہے ہیں۔
ایک مرزا پر کیا موقوف ہے، آپ ہم سبھی بیٹوں اور بیٹیوں کو مساوی اہمیت دے کر اپنے دل و دماغ کو پُرسکون رکھنے کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ اس دنیا میں ہر ذی نَفس کو کسی نہ کسی مقصد کی تکمیل کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ نے مرد اور زن دونوں کو مخصوص کردار سونپے ہیں جو انہیں ہر حال میں پوری دیانت کے ساتھ ادا کرنے ہیں۔ سوال کمتر یا برتر ہونے کا نہیں، اِس دنیا کے لیے، طے شدہ حدود میں رہتے ہوئے، مفید ثابت ہونے کا ہے۔ یہی ''بیٹے کی بُوٹی‘‘ ہے! جس نے یہ راز پالیا وہی سچا ''گرو‘‘ ہے، ورنہ طرح طرح کے بابا رام دیو تو قدم قدم پر پائے جاتے ہیں!