تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     09-05-2015

بھارت میں ٹی وی صحافت کا لیول

نیپال کے متاثرین زلزلہ کی جیسی خدمت بھارت نے کی‘ ویسی کسی بھی ملک نے نہ کی ہو گی۔ ہمارے وزیر اعظم نے نیپال کیلئے امداد اتنی ہی تیزی سے دوڑائی‘ جتنی تیزی سے وہ بھارت کے کسی بھی علاقے کیلئے دوڑاتے۔ نیپال کے وزیر اعظم کو ان کے ملک میں زلزلے کا پتا بھی ہمارے وزیر اعظم کے ٹویٹ کے ذریعے چلا۔ بھارت سرکار کے ملازموں‘ ہمارے سیاستدانوں اور فوج نے اپنے نیپالی بھائیوں کیلئے اپنی جان لڑا دی۔ اس بہادری اور فراخدلی کے سبب نیپال کے لوگوں نے شکریہ اس میٹھے انداز میں ادا کیا کہ ہمارے سیکڑوں شہری بھی مدد کیلئے خود ہی نیپال پہنچ گئے‘ لیکن ہمارے ٹی وی صحافیوں نے ایسے کارنامے کر دکھائے کہ ان کی وجہ سے مددگار لوگوں کو 'بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے‘ کی مثال بننا پڑا۔ نیپال کی سرکار نے چونتیس ملکوںکے ان سبھی رضاکاران کو نیپال چھوڑنے کا حکم دے دیا‘جو زلزلے سے متاثر لوگوں کو بچانے کیلئے وہاں گئے ہوئے تھے۔ نیپال چھوڑنے کا جو حکم جاری کیا گیا‘ اس کی زبان اتنی سخت ہے کہ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نیپالی عوام اور سرکار ہمارے ٹی وی صحافیوں سے کتنے ناراض ہیں۔
ہمارے کئی ٹی وی چینلوں کے رپورٹروں نے متاثرین زلزلہ کے غیر ضروری مناظر اور خطرناک تباہی کو بھی کروڑوں لوگوں کے سامنے پیش کر دیا۔ اسی کے سبب نیپال کی مدد کیلئے کئی ملک دوڑ پڑے‘ لیکن ہمارے کچھ ٹی وی رپورٹروںکی جلد بازی اور نادانی نے سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ کچھ رپورٹروں نے کٹھمنڈو ہوائی اڈے پر داداگیری کی اور کچھ نے فوج کے ہیلی کاپٹروں کا استعمال صرف اپنی ٹی آر پی بڑھانے کیلئے کیا۔ ہماری فوج بھی پبلسٹی کے چکر میں پڑ گئی۔ نیپالیوں کا کہنا ہے کہ ان ٹی وی صحافیوں نے تباہ کن مناظر کو کسی ٹی وی سیریل کی طرح پیش کیا۔ انہیں متاثرین کی تکلیف نہیں محسوس ہو رہی تھی۔ اس تکلیف میں سے وہ دلچسپ کہانیاں نکال رہے تھے۔ وہ بھارتی امداد کو اس طرح پیش کر رہے تھے‘ جس سے نیپالیوں کی غیرت کو چوٹ پہنچی۔
بھارتی ٹی وی صحافت کو بے حد ذمہ دار اور حد میں رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ جتنی اثردار ہے‘ اسے اتنا ہی متوازن ہونا چاہئے۔ کسی بھی واقعہ کو چٹ پٹا بنا کر پیش کرنے کے مقابلے نے ان کی عزت کو پیندے میں بٹھا دیا ہے۔ اگر بھارت میں ٹی وی صحافت اسی طرح چلتی رہی تو اس کے دو انجام ہو سکتے ہیں۔ ایک تو عام آدمی اس پر بھروسہ کرنا ہی چھوڑ دے گا اور دوسرا سرکار کو اس پر طرح طرح کی پابندیاں لگانا پڑیں گی۔ یہ دونوں ہی ٹھیک نہیں ہیں۔ نیپال کا واقعہ ٹی وی صحافت کے گرے ہوئے لیول کا خود ثبوت ہے۔
لیڈر‘ اینکر اور جوکر
عام آدمی پارٹی کے اور ہندی کے شاعر کمار وشواس کے خلاف آج کل جو مشن چل رہا ہے‘ وہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ عآپ کی جو کارکن متاثر مانی جا رہی ہے‘ اس کی تکلیف کیا ہے؟ اس کی تکلیف یہ نہیں کہ وشواس نے اس کے ساتھ کوئی قابل اعتراض سلوک کیا‘ بلکہ یہ ہے کہ اس کے اور وشواس کے بارے میں جھوٹی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اس عورت کا پریشان ہونا فطری ہے اور اس سے بھی زیادہ پریشان اگر کوئی ہو گا‘ تو وہ وشواس ہے‘ لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ اس عورت نے اپنی پریشانی پولیس کو بتائی اور خبرچیوں کو بتائی۔ اس سے اس کو کیا فائدہ ہوا؟ جو افواہ سو دو سو لوگوں تک پھیلی ہو گی‘ وہ اب لاکھوں کروڑوں لوگوں تک پھیل چکی ہے۔ خبرچیوں کی چاندی ہو گئی۔ وہ اپنا دھندہ کر رہے ہیں۔ انہیں کوئی شرم لحاظ نہیں۔ ان کی بلا سے کوئی خود کشی کر لے‘ طلاق لے لے‘ کسی کا قتل کر دے۔ ان کا کیا بگڑ رہا ہے۔ وہ تیتر بٹیر دنگل دکھا رہے ہیں۔ اپنے ناظرین کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں اور پیسہ کما رہے ہیں۔
لیکن اس سے زیادہ تعجب مجھے بھاجپا اور کانگریس کے لیڈروں پر ہے جو بھارتی ٹی وی چینلوں کے جوکروں (اینکروں) سے بھی بڑے مسخرے ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ کمار وشواس اور اروند کجری وال کے خلاف مظاہرے کروا رہے ہیں۔ عورتوں کی کمیشن سے نوٹس بھجوا رہے ہیں۔ انہوں نے سیاست کو مسخری میں بدل دیا ہے۔ اروند اور وشواس کے خلاف ان کو لڑنا ہے تو سیاسی حوالوں سے لڑیں۔ وہ جس مدعہ کو عورتوں کی عزت کا سوال بنا رہے ہیں‘ اس سے وہ ملک کی عورتوں کی توہین کر رہے ہیں۔ جو عورت ایک افواہ سے پریشان ہے‘ اس کی تکلیف کو انہوں نے ہزار گنا بڑھا دیا ہے۔
اس سارے معاملے سے اروند کجری وال کا آپے سے باہر ہو جانا سمجھ میں آتا ہے۔ پہلے میں نے لکھا ہے کہ ہمارے ٹی وی رپورٹروں اور اینکروں کی کرامت سے نیپال میں ہماری کیسے بدنامی ہوئی‘ انہوں نے پھر ایسی ہی کیفیت اندرون ملک پیدا کر دی ہے کہ چینلوں پر سخت پابندیاں لگانا ضروری سمجھا جائے گا۔ یہ مانگ بھی کی جا سکتی ہے کہ چینلوں کو دن میں صرف تین بار خبر دکھانے کی چھوٹ ہو اور جو بحث مباحث ہوتے ہیں‘ ان میں اگر کوئی بھی اعتراض والی بات کہی جائے اور وہ ننگی اور توہین والی ہو تو اس کے لئے چینل کے مالک‘ اینکر‘ ترجمان کو قانونی سزا دی جائے۔ اس کا انحصار چینلوں پر ہے کہ وہ ڈسپلن پسند کرتے ہیں یا پھر اپنے خلاف سخت کارروائی کو دعوت دیتے ہیں۔
سلمان کی سزا اتنی کم کیوں؟
فلم سٹار سلمان خان کو پانچ سال کی سزا کیا ملی‘ مانو بھارت کی سینما نگری دکھ کے سمندر میں ڈوب گئی۔ فلم والوں نے یہ نہیں سوچا کہ سلمان نے شراب کے نشے میں جس ایک آدمی کا خون کیا اور چار آدمیوں کو زندگی بھر کیلئے معذور کر دیا‘ ان کے گھر والوں پر کیا بیت رہی ہو گی۔ وہ پانچوں غریب مسلمان فیملی کے لو گ دانے دانے کو محتاج ہو گئے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ سلمان نے یہ سنگین جرم جان بوجھ کر نہیں کیا‘ لیکن اس نے شراب تو جان بوجھ کر پی تھی اور شراب پی کر وہ جانتے بوجھتے ممبئی کی سڑکوں پر اپنی کار دوڑا رہا تھا۔ اس کے پاس لائسنس بھی نہیں تھا۔ عدالت کو سلام کہ وہ کسی بھی دباؤ میں نہیں آئی اور ججوں نے سلمان کو جیل کر دی‘ لیکن اس چھوٹے سے اور شفاف معاملے میں عدالت نے بارہ برس اور سات مہینے لگا دیے‘ یہ کون سا انصاف ہے؟ اس مقدمہ کے دوران جو سب سے جاندارگواہ تھا‘ سلمان کا محافظ اور پولیس کا جوان رویندر پاٹل‘ وہ مشتبہ حالت میں مر گیا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مقدمہ کے آخری دور میں سلمان کو بچانے کیلئے اس کے غریب ڈرائیور کو قاتل کی جگہ کھڑا کر دیا گیا۔ درجنوں گواہوں کی فائلوں کو بھی غائب کروا دیا گیا۔ اس کے باوجود عدالت نے دس سال کی سزا کو پانچ سال کم کر دیا‘ پھر بھی سلمان کے چاہنے والے جس طرح سینہ بجا رہے ہیں‘ وہ تعجب خیز ہے۔ حقیقت میں سلمان کو بیس سال کی سزا ہونی چاہئے تھی۔ دس سال خون کیلئے اور دس سال سارے معاملے کو رفع دفع کرنے اور عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے۔ عدالت پھر بھی رحم والی ہے۔ اس نے فوراً عبوری ضمانت بھی دے دی۔
سلمان پر ابھی چار مقدمے الگ سے چل رہے ہیں۔ لگتا ہے قانون توڑنا اس کی عادت ہے۔ وہ اداکاری جتنی اچھی کرتا ہے‘ زندگی اتنی ہی بری جیتا ہے۔ بری زندگی کو اچھی اداکاری سے ڈھکا نہیں جا سکتا۔ اداکاری تو اداکاری ہوتی ہے۔ وہ نقلی ہے۔ زندگی اصلی ہے۔ جو نقلی کو اصلی سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں‘ وہ لوگ سطحی سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔ کروڑوں ہیں ایسے لوگ‘ ان کی رائے اتھلی ہوتی ہے‘ جس کی کوئی اہمیت نہیں‘ قانون اور انصاف کی نظر میں۔ ایسے ہی سطحی لوگوں نے کہہ دیا کہ فٹ پاتھ پر سونے والے کُتے ہیں۔ ان کتوں کو سرکاریں گھر کیوں نہیں دیتیں؟ ایسا بے شرم بیان دینے والوں کو شاید یہ پتا نہیں کہ ان کے بارے میں لوگ کیا سوچتے ہیں۔ وہ سلمان کے دوست نہیں‘ دشمن ہیں۔ سلمان کی عزت جتنی زیادہ ہے ‘ اس کی سزا بھی اتنی زیادہ ہونی چاہئے‘ تبھی ملک کے خوشحال اور طاقتور لوگوں کی ہڈیاں کانپیں گی اور وہ اپنی کاروں سے سڑک پر غریب لوگوں کو کچلنے سے گریز کریں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved