تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     02-05-2015

ہے کوئی زینل بیگ؟

اگرآپ برصغیر پاک و ہندکا نقشہ غور سے دیکھیں تو جنوبی حصے کے مغربی ساحل پر ایک ننھی منی ریاست نظر آئے گی جو پورے نقشے پر ایک نقطے سے زیادہ نہیں! رقبے کے اعتبار سے یہ سب سے چھوٹی بھارتی ریاست ہے۔ اس کے ایک طرف مہاراشٹر اور دوسری طرف کرناٹک ہے۔ یہ گوا ہے۔
گوا کی تاریخ دلچسپ ہے۔ کبھی اس پر دہلی کے سلاطین کا قبضہ تھا۔ پھر یہ جنوب کی دو طاقتوں کے درمیان فٹبال کی طرف لڑھکتا رہا۔ کبھی وجیانگر کی ہندو ریاست کا حصہ رہا اور کبھی بہمن مسلمان حکومت کا۔1510ء میں پرتگال کے بحری بیڑے نے اسے بیجاپور کے سلطان عادل شاہ سے چھین لیا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پرتگال کا قبضہ اس پر ساڑھے چار سو سال رہا۔ انگریزوں نے برما سے لے کر وزیرستان تک اور نیپال سے لے کر سری لنکا تک ایک ایک انچ پر قبضہ کرلیا مگر گوا کی پرتگالی ریاست کو نہ چھیڑا۔ یہاں تک کہ برصغیر تقسیم ہوگیا۔ 1961ء میں بھارت نے لشکر کشی کرکے اسے ضم کرلیا۔
ساڑھے چار سو سال تک گوا نصرانیوں کی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہا اور جہاںتک ہوسکا ، جب بھی ہوسکا، علاقے کی سیاست میں بھی دخیل رہا۔ سترہویں صدی کا آغاز ہوا تو ایران کے شاہ عباس صفوی اور سلطنت عثمانیہ کی باہمی دشمنی عروج پر تھی۔ گوا کے بڑے پادری نے گوا کے پرتگالی حکمران کو حکم دیا کہ ایرانی بادشاہ کے پاس ایلچی بھیجے۔ اس مشہور ایلچی کا نام ڈی گووا تھا۔ ایران کے شاہ عباس نے یورپی طاقتوں سے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف مدد مانگی تھی۔ ڈی گووا کو یہ پیغام دے کر ایران بھیجا گیا کہ ہاں! یورپ ترکوں سے جنگ کرے گا! ڈی گووا کا یہ پہلا سفر 1602ء میں تھا۔1608ء میں اسے دوبارہ بھیجا گیا۔ اب کے اس کے پاس ہسپانیہ کے بادشاہ کا خط بھی تھا۔ اس خط میں ہسپانوی بادشاہ نے شاہ عباس کی تعریف کی تھی کہ اس نے ترکوں کا دماغ ''درست‘‘ کیا ہے۔ شاہ عباس اب کے غصے میں تھا۔ اس کی توقع کے مطابق ہسپانیہ نے ترکوں پر حملہ نہیںکیا تھا۔
ڈی گووا نے دو سفرنامے لکھے جو اس زمانے کے ایران اور علاقائی سیاست کے متعلق بہت کچھ بتاتے ہیں۔ ہابس برگ کے جرمن شہنشاہ نے شاہ عباس سے پکا وعدہ کیا تھا کہ وہ سلطنت عثمانیہ پر حملہ کرے گا۔ ڈی گووا لکھتا ہے کہ اس ''دوستی‘‘ کی وجہ سے شاہ عباس، جرمن شہنشاہ سے اس قدر محبت کرتا تھا کہ اس نے اپنی خوابگاہ کے دروازے پر اس کی تصویر آویزاں کی ہوئی تھی اور اندر جاتے وقت احتراماً اس کے سامنے سر جھکا لیتا تھا! جب پوپ نے شاہ عباس کے پاس اپنی سفارت بھیجی تو ساتھ ہی بائبل کا ایک دیدہ زیب نسخہ بھی بھیجا۔ اتفاق سے شاہ عباس نے جو صفحہ کھولا اس پر ایک تصویر تھی۔ اس تصویر میں سینٹ مائیکل نے جھکے ہوئے شیطان پر تلوار تانی ہوئی تھی۔ شاہ عباس نے پوچھا''تلوار کس پر سونتی گئی ہے ''پادری سفیر نے جواب دیا''شیطان پر‘‘ اس پر شاہ عباس ہنسا اور کہنے لگا۔ میں سمجھا ''ترک پر‘‘۔ ساتھ ہی اس نے دربار میں موجود ترک سفیر کو تمسخر سے دیکھا۔ ڈی گووا لکھتا ہے کہ شاہ عباس عثمانیوں کے سفیر کا مذاق اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا!
پوپ کے اس سفیر کے ہاتھ شاہ عباس نے جوابی مکتوب بھیجا۔ اس نے یورپی بادشاہوں کو ایک مکمل منصوبہ پیش کیا۔ اس کی تجویز یہ تھی کہ یورپ کے نصرانی بادشاہ مل کر سلطنت عثمانیہ پر حملہ کریں۔ شام کے ساحل پر اتریں۔ پھر حلب پر حملہ آور ہوں۔ مشرق سے شاہ عباس اناطولیہ پر حملہ کرے گا۔ یوں ترک دونوں طرف سے پھنس جائیں گے۔ ایران نے پوپ سے یہ بھی کہا کہ یورپی حکومتوں پر سلطنتِ عثمانیہ سے تعلقات ختم کرنے کیلئے زور ڈالے۔ یہ بھی کہ ہسپانیہ قبرص پر قبضہ کرلے اور پھر حلب پر لشکر کشی کرنے کیلئے اسے مرکز کے طور پر استعمال کرے۔
کتنی سیہ بختی تھی مسلمانوں کی کہ وہ ایک دوسرے کو ختم کرنے کیلئے کبھی پوپ سے مدد مانگتے تھے اور کبھی ہسپانیہ اور دیگر عیسائی حکومتوں سے۔ حقیقت یہ تھی کہ عیسائی طاقتیں ایران کی خیر خواہ نہیں تھیں۔ اور ترکوں سے تو وہ جنگ کر ہی رہی تھیں۔ عبرت انگیز واقعہ یہ ہے کہ شاہ عباس نے ایک سفیر بھیجا جو چھ سال تک یورپی دارالحکومتوں میں سرگرم کار رہا کہ ترکوں کے خلاف مدد حاصل کی جائے۔ اس کا نام زینل بیگ تھا۔ 1609ء میں اس نے شاہ عباس کو صاف الفاظ میں لکھا کہ نصرانی بادشاہوںکے دوستی کے دعوے جھوٹے ہیں۔ ''وہ صرف یہ مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ترک اور ایرانی آپس میں لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو نیست و نابود کردیں اور یوں مسلمانوںکا مذہب ہی مٹ جائے‘‘۔
زینل بیگ کے اس خط کو چار سو چھ سال ہو گئے ہیں۔ چار صدیاں! آپ کا کیا خیال ہے ان چار سو سالوں میں مسلمان زینل بیگ کی بات سمجھ سکے ہیں؟ آج بھی صورتحال وہی ہے۔ بلکہ بدتر ہے۔ اس وقت صرف ایران اور سلطنتِ عثمانیہ مدمقابل تھے۔ آج بدقسمتی سے ایران کے تعلقات ترکی کے ساتھ ساتھ عربوں سے بھی خراب ہیں اور اب ایران بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کی معیشت پر ضرب لگانا چاہتا ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ مل کر گوادر بندرگاہ قائم کر رہا ہے اور چین ہی کے ساتھ مل کر شمال سے جنوب تک وسیع و عریض جدید شاہراہ بھی بنا رہا ہے۔ اگر ایران بھارت کے بجائے پاکستان کے ساتھ مل کر گوادر سے فائدہ اٹھاتا تو وسط ایشیا، پاکستان اور ایران مل کر اپنی اپنی اقتصادیات کو آگے... بہت آگے... لے جا سکتے تھے۔ لیکن اس کے بجائے، ایران نے گوادر کے مقابلے پر، اس سے ذرا ہی دور، پاکستانی سرحد کے بالکل قریب چاہ بہار کی بندرگاہ کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس منصوبے میں پشت پناہی بھارت کر رہا ہے۔ بھارت کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ وسط ایشیا گوادر کو استعمال کرکے پاکستان کو فائدہ نہ پہنچائے۔ اتحاد بین المسلمین کے نعرے تو سننے کو بہت ملتے ہیں لیکن اس کے عملی تقاضے کوئی نہیں پورے کرتا۔
یمن میں دیکھئے، صورتحال کتنی حوصلہ شکن ہے۔ حوثی بھی مسلمان ہیں۔ سعودی بھی مسلمان ہیں۔ مگر آپس میں سب دست و گریبان ہیں۔ مسلمان حکمرانوں پر لازم تھا کہ وہ درمیان میں پڑ کر یہ جنگ روکتے‘ لیکن پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ میجرجنرل محمد علی جعفری نے جو بیان جاری کیا ہے وہ حوصلہ شکن ہی نہیں، یاس انگیز بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حوثیوں کی کارروائی ایرانی انقلاب کی ایک نئی فتح ہے۔ تہران میں نئے کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے بتایا کہ ایرانی انقلاب کو بیرونِ ملک بطریقِ احسن برآمد کیا جا رہا ہے۔
اگر یہ انقلاب یورپ اور امریکہ کو برآمد کیا جاتا تو تمام مسلمانوں کیلئے باعث فخر ہوتا مگر یمن جیسے ملک تو پہلے ہی تار تار اور تباہ و برباد ہیں۔ مرے کو مارے شاہ مدار۔ اس برآمد میں آخر کیا حکمت ہے اور کس کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے؟
ہم ایران کے خلاف ہیں نہ کسی اور طاقت کے‘ ہم پاکستانی مسلمان تو اقبال کے لفظوں میں یہ خواب دیکھ رہے ہیں۔
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرئہ ارض کی تقدیر بدل جائے
اس کے لئے ضروری ہے کہ ایران بیک وقت ترکوں، عربوں اور پاکستانیوں سے مخاصمت کا رویہ نہ رکھے۔ عربوں پر بھی لازم ہے کہ دشمنوں کی چال کو سمجھیں اور ترکی‘ ایران اور پاکستان کے ساتھ مل کر ، ایک میز کے گرد سر جوڑ کر بیٹھیں۔ دوریاں ختم ہوں، وگرنہ ہمارے جو دوست بار بار کہتے ہیں کہ چودہ صدیوں میں ملت متحد نہ ہوسکی تو اب کیسے ہوگی، ان کا کہنا درست ثابت ہوگا!
چار صدیاں گزر چکیں۔ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں تھے۔ خم ٹھونکے، ایک دوسرے کے گلے کو پکڑنے کے لئے پہلے سے زیادہ آمادہ ۔
ہے کوئی زینل بیگ جو ہمیں ایک بار پھر سمجھائے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved