تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     09-05-2015

’را‘ کا قصہ

کور کمانڈرزکے اجلاس میں' را‘ اس اہتمام کے ساتھ کیوں زیرِ بحث آئی؟
اس کے اسباب ایک سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔ ایک سبب میرے ذہن میں بھی ہے۔
ہدف بنا کر مارڈالنے کا عمل ہمارے ہاں اب بہت عام ہو گیا ہے۔مقتولین کی فہرست میں بہت سے نام ہیں۔یہ متنوع پس منظر رکھنے والے لوگ ہیں۔بہت سے مقتول یا مضروب توایسے ہیں کہ اُن کے قاتلوں کے بارے میں یہ قیاس کر نا ممکن ہے کہ وہ کون ہو سکتے ہیں۔جیسے ڈاکٹر فاروق خان یا مو لا نا حسن جان۔ مولاناسرفراز نعیمی یا ڈاکٹر شکیل اوج۔اِس معاملے میں قاتل بھی ہماری مدد کرتے ہیں کہ وہ فخر کے ساتھ ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔طالبان کے ہاتھوں مارے جانے والے مقتولین کا شمار اسی دائرے میں ہوتاہے۔ یوں ہمارے لیے قیاس کر نا آ سان ہو جاتا ہے۔بعض قتل مگر ایسے ہیں کہ انہیں اندھا قتل کہا جا سکتا ہے۔ان کے بارے میں تیقن کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ انہیں کس نے مار ڈا لا۔جیسے سلیم شہزادیا سبین محمود یا پھر ڈاکٹر وحید الرحمن۔
ان لوگوں میں کوئی قدرِ مشترک تلاش کر نی مشکل ہے۔ جیسے سبین سماجی کارکن تھیں‘ ڈاکٹر وحیدالرحمن ایک استاد تھے۔ان میں یہ قدر تومشترک ہے کہ وہ ایک آزاد سوچ رکھتے تھے۔تاہم یہ قدر بھی یقین کے ساتھ، ایک قاتل تک رسائی میں مدد گار نہیں۔جیسے اگر سوچ کی آزادی قتل کا محرک ہے تو ان سے کہیں زیادہ آزاد سوچ والے زندہ ہیں۔پھر اِس آزاد سوچ سے ایک سے زیادہ گروہ ناراض ہو سکتے ہیں۔یہ لوگ اپنی اس آزادی کو مذہب ، سماج، سیاست، کئی میدانوں میں استعمال کرتے تھے۔کسے معلوم کہ سوچ کی یہ آزادی کس میدان میں ناقابلِ برداشت ہے۔مذہب یاسیاست؟
مثال کے طور پر بلوچستان کے قصے کو بنیاد بنا کر کہا گیا کہ اس باب میں زیادہ قیل وقال سرکاری ایجنسیوں کو پسند نہیں۔سوا ل یہ ہے کہ اسی موضوع پر اس سے کہیں بڑا سیمینار کراچی یونیورسٹی میں ہوا ،جتنا یہ اجتماع سبین کے ادارے میں ہوا۔اس سیمینار کے ایک مقرر ،ممتاز پولیٹیکل اکونومسٹ اکبر زیدی صاحب نے اپنے ایک مضمون میں اس کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے جو 6مئی کو ایک انگریزی اخبار کے ادارتی صفحے پر شائع ہوا۔اگر بلوچستان کے گم شدہ افراد کو موضوع بنا نا جرم ہو تا تو اِن افراد کو روک دیا جاتا جو سبین سے زیادہ بلند آہنگ اور مؤثر ہو سکتے تھے۔میرے یہ دلائل اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ کوئی ریاستی ادارہ ایسے قتل میں ملوث ہو سکتا ہے۔ قیاس آرائیوں کا معاملہ لیکن یہ ہے کہ ایک دفعہ ان کا دروازہ کھل جائے تو بند کرنا مشکل ہو جا تا ہے۔ پھر ہر کوئی مشکوک دکھائی دینے لگتا ہے۔ میرے خیال میں، یہی وہ سبب ہے جس نے کور کمانڈرز کومجبور کیا ہے کہ وہ بلند آہنگی کے ساتھ ان واقعا ت میں 'را‘ کے کردارکا ذکر کریں۔
ایسے واقعات میں 'را‘ کا ملوث ہو ناقریبِ قیاس ہے۔اگر کسی ملک میں یہ تاثر پیدا ہو جائے کہ ریاستی ایجنسیاں اپنے ہی شہریوں کے قتل میں ملوث ہیں توریاست کے لیے اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔یہ تاثر ایسی خانہ جنگی کی بنیاد رکھ سکتا ہے جو قومی وحدت کے لیے زہرِ قاتل بن جائے۔'را‘ سابقہ مشرقی پاکستان میں یہ تجربہ کامیابی کے ساتھ دہرا چکی ہے۔ جب شہریوں میں یہ تاثر سرایت کر گیا کہ اُن کی فوج یا ایجنسیاں ان کو مار رہی ہیں تو پھر ریاست کے ساتھ ان کی وفا داری باقی نہیں رہی۔اس وجہ سے یہ کوئی انہونی بات نہیں ہو گی کہ چند لوگوں کو مار کر،یہ تاثر دیا جائے کہ ان کے قتل میں کوئی ریاستی ادارہ ملوث ہے۔جہاں سیاست میں فوجی مداخلت کی طویل تاریخ ہو اور جہاں آئی ایس آئی کے سابقہ ڈائریکٹرجنرل اعلانیہ اعتراف کریں کہ انہوں نے آئی جے آئی جیسا اتحاد بنوایا تووہاں ایسا تاثر پھیلانا نسبتاً آ سان ہو جاتا ہے۔ میرا تاثرہے کہ یہی بات کورکمانڈرز کی تشویش کا سبب بنی ہے۔
'را‘ کی مداخلت محض فوج کا نقطہ نظر نہیں ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بھی واضح کیا ہے کہ سیاسی حکومت بارہا بھارتی قیادت کو اس جانب متو جہ کر چکی اور یہ کور کمانڈرز کے اجلاس سے کہیں پہلے کی بات ہے۔اس سے 'را‘ کی مداخلت کا مقدمہ مستحکم ہو تا ہے۔وزیر اعظم نوازشریف جو بھارت کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے حامی ہیں،وہ بھی کہہ چکے کہ امن کے راستے میں بھارت کا رویہ رکاوٹ ہے۔ اس کے باوجودقیا س کا دروازہ بند نہیں ہو سکتا، جب تک ہم یہ نہ جان سکیں کہ سبین اور وحیدالرحمن جیسے لوگوں کے قاتل کون ہیں؟ کوئی ایک ہے یا اس سے زیادہ؟یہ فیصلہ ہونے تک ہر کوئی گناہ گار بھی ہے اور بے گناہ بھی۔یہ کام حکومتِ وقت کا ہے کہ وہ مجرموں تک پہنچے۔انصاف ہی سے شک کے دروازے بند ہوتے اور یقین کا در کھلتا ہے۔
جنرل راحیل شریف اور اس سے پہلے جنرل اشفاق کیانی، فوج اور عوام کے باہمی تعلق کے حوالے سے بہت حساس رہے ہیں۔یہ کریڈٹ جنرل کیانی کو جا تا ہے کہ انہوں نے فوج کی اُس ساکھ کو بحال کیا جسے جنرل مشرف نے برباد کر دیا تھا۔جنرل راحیل نے بھی دہشت گردی کے خلا ف ایک فیصلہ کن قدم اٹھا کربہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کر دیا ہے۔عمران خان کے دھرنے کے پس منظر میں بھی بہت سی کہانیاں گردش کرر ہی ہیں۔جاوید ہاشمی صاحب بہت کچھ کہہ چکے۔ایک معروف تجزیہ نگار نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ جنرل راحیل اس حوالے سے انکوئری کررہے ہیں۔اس انکشاف کی کوئی تردید نہیں آئی۔ اب ضرورت ہے کہ وہ اس بات کو آگے بڑھائیں۔ حکومت کی بھی یہ ذمہ د اری ہے کہ وہ اس معاملے کودیکھے اور قوم کو بتائے کہ حقیقت کیا ہے۔
'را‘ کی مداخلت کا معاملہ بھی واضح ہو نا چاہیے۔اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہو۔یہ بھی بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ این جی اوز کی مدد کرتی ہے، بالخصوص جو اہلِ صحافت سے وابستہ افراد نے بنا رکھی ہیں۔یہ لوگ قومی ایجنسیوں کو بدنام کر نے کی مہم میں شریک ہیں۔یہ معمولی الزام نہیں۔لازم ہے کہ اس کی بھی تحقیق ہو۔ پاکستان میں چونکہ الزام کے لیے ثبوت کبھی ضروری نہیں سمجھا گیا،اس لیے یہ اور بھی ضروری ہے کہ اس باب میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ این جی اور بنانا ایک قانونی عمل ہے۔اگر کوئی فرد قانون کے تقاضے پورا کرتے ہوئے یہ کام کر تا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔لیکن اگر کہیںمعاملہ قانون سے ماورا ہے تو اس کاکھوج لگانا حکومت کا کام ہے۔
سبین کا معاملہ اگر ابہام میں رہا تو شکوک بڑھیں گے اور یوں چہ میگوئیوں کے درواز ے کھلیں گے۔کور کمانڈرز نے جو نشا ند ہی کی ہے،اسے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ لازم ہے کہ معاملہ قیاس سے آگے بڑھے اور مجرموں کا تعین ہو جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved