ایک مؤقر سرکاری ادبی جریدے کی حالیہ اشاعت میں ہماری ایک ماضیٔ قریب کی شاعرہ ادا جعفری بدایونی پر ایک گوشے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ قابل ذکر شعراء و ادباء کے بارے میں یہ کام گاہے بگاہے ہوتے رہنا چاہیے لیکن ایسی شخصیات کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنا نہ صرف قاری کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ یہ ادبی تاریخ کو بھی ایک طرح سے مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ شاعری میں اصولی طور پر تذکیر و تانیث میں فرق کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نیز یہ کہ ادبی رائے میں حد درجہ مبالغہ آرائی نہ صرف سطح پر محسوس کی جا سکتی ہے بلکہ رائے دینے والے خود بھی ایکسپوز ہو کر ایک قابلِ رحم صورت حال سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
کئی سال پہلے اس شاعرہ کو اکادمی ادبیات کی طرف سے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ ''کمالِ فن‘‘ سے نوازا گیا تو اکثر لوگوں کو اس پر شدید حیرت ہوئی لیکن بتایا گیا کہ اس کا اصل سبب موصوفہ کا ایک بڑے بیوروکریٹ کی اہلیہ ہونا ہے جبکہ ایک نہایت ایماندارانہ رائے کے مطابق وہ کوئی اوسط درجے کی شاعرہ بھی نہیں ہیں۔ میں شاعری پر بات کرتے ہوئے لگی لپٹی اس لیے بھی روا نہیں رکھتا کہ خود اپنے بارے میں کوئی لگی لپٹی روا رکھے جانے کا طلبگار نہیں ہوں۔ یہ تو طے ہے کہ ہم ایک عہدِ منافقت میں جی رہے ہیں جہاں سچی بات کہنے اور سننے کا رواج ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں ہے کہ اگر کسی ہمعصر شاعر کے بارے میں خصوصی رائے طلب کی جائے تو عموماً اس پر تعریفوں کے پل باندھ دیئے جاتے ہیں کہ یہ ایک اخلاقی تقاضا بھی سمجھا جاتا ہے۔ خود میری شاعری پر دی گئی اکثر آراء‘ بلکہ میری طرف سے دوسروں کے بارے دی گئی ایسی آراء اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں‘ اس لیے درخورِ اعتنا ہونے کا استحقاق نہیں رکھتیں کیونکہ فرمائشی آراء ایسی ہی ہوا کرتی ہیں۔ میرا بنیادی اختلاف انہی لوگوں سے ہے جو موزوں گوئی اور قافیہ پیمائی کو بھی شاعری قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے‘ اور‘ اس میں ان کا کچھ زیادہ قصور بھی نہیں ہوتا کہ وہ بالعموم شاعری اور ناشاعری میں کوئی امتیاز روا رکھنے کی اہلیت ہی سے محروم ہوتے ہیں؛ چنانچہ یہ ان کی مجبوری بھی ہے۔
مذکورہ بالا شمارے میں شاعرہ کے بارے جن اہلِ ادب کے توصیفی مضامین شامل کیے گئے ہیں‘ ان میں امجد اسلام امجد‘ زاہدہ حنا‘ شاہدہ حسن اور کاظم جعفری شامل ہیں۔ ان میں سے کسی نے شاعرہ کو جدید اردو شاعری کی خاتونِ اول قرار دیا ہے تو کسی نے ان کے نثری اظہار پر تعریفوں کے پل باندھے ہیں جبکہ شاعری پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسانے
والوں میں فیض احمد فیضؔ‘ سید ضمیر جعفری‘ ڈاکٹر فرمان فتح پوری‘ میرزا ادیب‘ فتح محمد ملک‘ پروفیسر مجتبیٰ حسین‘ حمایت علی شاعر‘ احمد ہمدانی‘ محسن بھوپالی اور سحر انصاری شامل ہیں۔ ان کے علاوہ شاعرہ کی ایک غزل اور ایک نظم شامل کی گئی ہیں جو بے حد معمولی نوعیت کی ہیں جبکہ شاعرہ کے نثری اظہار کے حوالے سے ان کی کتاب ''غزل نما‘‘ پر مضمون باندھا گیا ہے جس میں مختلف اساتذہ کی شاعری کا جائزہ اور انتخاب شامل ہے‘ جسے کسی طور بھی ایک تخلیقی کاوش قرار نہیں دیا جا سکتا کہ یہ کام ایک معمولی محقق بھی سرانجام دے سکتا تھا‘ نیز ہماری ادبی تاریخ میں پہلے بھی یہ کام وافر مقدار میں ہو چکا ہے۔
موصوفہ کی ایک غزل کا مطلع اس لیے مشہور ہو گیا تھا کہ الیکٹرانک میڈیا پر اسے نہایت فراخ دلی سے گایا گیا‘ ورنہ خوفِ خدا کو پیش نظر رکھ کر بات کی جائے تو موصوفہ سے شعر بنتا ہی نہیں ہے‘ ورنہ کون ہے جو کوئی بھی مضمون باندھ کر طبع آزمائی نہ کر سکتا ہو۔ لوگوں نے شعر اور ناشعر میں فرق کرنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی کیونکہ اگر اس لحاظ سے بھی انصاف سے کام لیا جائے تو اکثر خواتین و حضرات ویسے ہی فارغ ہوتے چلے جائیں جبکہ محبوب خزاں پہلے ہی یہ اٹل فیصلہ دے چکے ہیں کہ شاعر چھوٹا‘ بڑا یا اچھا‘ بُرا نہیں ہوتا بلکہ وہ یا تو شاعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔
جو کچھ میں نے اوپر کہا ہے‘ یا بالعموم کہا کرتا ہوں‘ وہ بدلحاظی‘ بلکہ بدتمیزی کی ذیل میں بھی آ سکتا ہے اور مجھے اس پر کوئی پشیمانی بھی ہرگز نہیں ہے‘ حتیٰ کہ میں گزارے موافق شاعری کو بھی‘ جس کے نمونے اس شاعرہ میں بھی پائے جاتے ہیں‘ تیسرے ہی درجے کی شاعری شمار کرنے پر مجبور ہوں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری شاعری کے روبہ زوال ہونے کی ایک وجہ اس طرح کی تحسینِ ناشناس بھی ہے۔ ہم مکمل طور پر مردہ شاعری کو زندۂ جاوید بنانے کے مرض میں مبتلا ہیں‘ اور نہیں سمجھتے کہ ہمیں اپنے قول و فعل کا حساب آگے چل کر بھی دینا ہے کہ آپ نے اپنی رائے کا کس حد تک ایماندارانہ اظہار کیا ہے! پھر یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کسی نے اپنی اپنی قبر ہی میں جانا ہے اور اپنے اپنے کام کا خود ذمہ دار ٹھہرنا ہے۔
ادب میں اختلاف رائے‘ انتہائی ناپسندیدہ ہونے کے باوجود‘ نہ صرف یہ کہ شجر ممنوعہ نہیں ہے بلکہ اس کے بغیر ادب کی گاڑی چل ہی نہیں سکتی اور اگر اسے اس طرح سے چلانے کی کوشش بھی کی جائے تو نتیجہ وہی نکلے گا جو سب کے سامنے ہے۔ چنانچہ میں نے یہاں اختلاف رائے کے اپنے حق ہی کو استعمال کیا ہے اور آگے اس سے بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے کیونکہ میری رائے غلط بھی ہو سکتی ہے اور میں نے اس کے صحیح ہونے پر کبھی اصرار بھی نہیں کیا ہے۔ ایسے خیالات کی بنا پر اگر میرے کچھ قدردان موجود ہیں تو میں نے زیادہ تر ناراضیاں ہی پال رکھی ہیں جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ ادبی رائے آپ کے پاس ایک امانت ہوتی ہے جس میں خیانت کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی‘ بھلے آپ اس پر کتنے ہی ناپسندیدہ اور معتوب ٹھہریں۔ چنانچہ میں نہایت ادب سے پھر یہ گزارش کروں گا کہ ادا جعفری بدایونی ایک روایتی اور نہایت معمولی شاعرہ کی سطح سے اوپر اٹھ ہی نہیں سکیں اور ان کے کلام میں کسی بھی جدت‘ تازگی یا لطفِ سخن کا کوئی نشان دور دور تک دستیاب نہیں ہے!
آج کا مطلع
نظر کو چھوڑیے‘ صرفِ نظر ہی ممکن ہے
قیام کر نہیں سکتے‘ سفر ہی ممکن ہے