تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-05-2015

نو ٹینشن، پلیز!

جب بھی کوئی ہمارے سامنے ذہنی تناؤ یا دباؤ کی بات کرتا ہے تو یقین جانیے ہم نہ چاہتے ہوئے بھی بے اختیار ہنس پڑتے ہیں۔ ہنسی کیوں نہ آئے؟ اس ملک میں اب ذہن ہی نہیں بچا ہے تو ذہنی تناؤ چہ معنی دارد! ہاں، دماغ رہ گئے ہیں اس لیے ذہنی تناؤ کی جگہ دماغی تناؤ کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔
دنیا بھر میں رات دن تحقیق کا بازار گرم ہے کہ ذہنی تناؤ یعنی ڈپریشن یا ٹینشن کس طور کم کیا جائے۔ لوگ ذہنی سکون کا گراف بلند کرنے کے فراق میں رہتے ہیں۔ جس سکون کی خواہش ہوتی ہے لوگ اسی سکون کے بارے میں سوچ سوچ کر بچا کھچا یا رہا سہا سکون بھی غارت کرتے رہتے ہیں! اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹینشن دور کرنے کے معاملے میں عام آدمی وہ صیّاد ہے جو بار بار اپنے ہی دام میں آنے کو تیار رہتا ہے!
تحقیق کرنے والوں کے ہاتھوں اس دنیا کو کچھ زیادہ سکھ نہیں ملا۔ جب بھی کسی معاملے میں تحقیق طول پکڑتی ہے، لوگوں کو ایسی عجیب باتیں جاننے یا پڑھنے کو ملتی ہیں کہ وہ حیران رہ جاتے ہیں اور پریشان ہو اٹھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تحقیق کی دنیا نے طے کر رکھا ہے کہ باقی دنیا کو کسی نہ کسی طور پریشان رکھنا ہے۔ مگر اللہ چاہے تو ہر دکھ کے پہلو میں تھوڑا بہت سکھ بھی پایا جاسکتا ہے۔ تحقیق کرنے والوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ محققین کی واحد اچھی عادت یہ ہے جب کسی چیز کے منفی اثرات سے نجات پانے کے طریقے سوچ نکالنے میں ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں تو اس چیز کو مثبت اثرات کی حامل قرار دینے لگتے ہیں۔ ع
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں!
ایک زمانے سے ذہنی تناؤ یعنی ڈپریشن اور ٹینشن سے نجات پانے کے حوالے سے تحقیق اور تفکر کا بازار گرم ہے۔ عشروں سے دنیا بھر کے ماہرین ٹینشن کے بارے میں طرح طرح کے نظریات پیش کرتے آئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر نظریات بالعموم مزاح کی کمی کو پورا کرنے کا اور کبھی کبھی مزاح کی فاضل پیداوار کا ''وسیلہ‘‘ ثابت ہوئے ہیں! ٹینشن کے بارے میں پائے جانے والے نظریات پڑھ یا سن کر عام آدمی کے ٹینشن میں کبھی کبھی اتنا اضافہ ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی ٹینشن بھول کر ان نظریات کے جنتر منتر میں کھویا ہوا پایا گیا ہے!
جب کبھی کسی معاملے میں لوگ زیادہ پریشانی سے دوچار ہوتے ہیں تو ماہرین اور محققین کو کچھ رحم آجاتا ہے اور وہ تھوڑی بہت کامیڈی بھی فرماتے ہیں تاکہ بجھتے اور ڈوبتے دلوں کی کچھ ڈھارس بندھے۔ ایک معروف ماہر نفسیات نے، تحقیق کی روشنی میں، پژمردہ دلوں کو نئی زندگی دینے کے خیال سے ''انکشاف‘‘ کیا ہے کہ کسی بھی طرح کا ذہنی تناؤ یعنی ٹینشن کوئی ایسی حقیقت نہیں جس کے حوالے سے تشویش میں مبتلا یا مایوس ہوا جائے۔ جو لوگ کسی نہ کسی ٹینشن کے باعث ہر وقت سر پکڑے بیٹھے رہتے ہیں وہ دل مزید چھوٹا نہ کریں، سکون کا سانس لیں اور خود کو ذرا ڈھیلا چھوڑ دیں۔ امریکی ماہر نفسیات کیلی مک گونیگل کہتے ہیں کہ ٹینشن کا صرف یہ مطلب نہیں کہ آپ پریشان یا الجھے ہوئے ہیں بلکہ یہ زندگی میں مقصدیت کی علامت بھی ہے۔ یعنی یہ کہ ٹینشن میں عموماً وہی لوگ مبتلا رہتے ہیں جو بامقصد زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ کیلی مک گونیگل کہتے ہیں کہ ٹینشن کی حالت میں ہونے کا ایک لازمی مفہوم یہ بھی ہے کہ آپ زندگی کے کسی مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کیلی مک گونیگل کی رائے پڑھ کر خیال آیا کہ ٹینشن کو بامقصد زندگی کی علامت یا اشارا سمجھ کر قبول کیا جائے تو پاکستان میں سب سے زیادہ بامقصد زندگی بسر کرنے والوں میں مرزا تنقید بیگ یقیناً ٹاپ ٹین میں شامل ہوں گے۔ ہم نے انہیں اکثر ٹینشن کے آستانے پر سجدہ ریز دیکھا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ مرزا کو دیکھ کر بہت سوں کا یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ٹینشن بھی زندگی کی ایک ٹھوس حقیقت ہے اور کسی نہ کسی حد تک اپنانی بھی چاہیے۔
ٹینشن کے معاملے میں مرزا نے خود کو سچا پاکستانی ثابت کیا ہے۔ بیشتر ہم وطن رات دن کسی نہ کسی معاملے میں ٹینشن کے اسیر رہتے ہیں۔ مرزا کے بچے جوان بلکہ گھر بار والے ہیں۔ پالنے کے لیے گھر میں کوئی بچہ تو ہے نہیں اس لیے مرزا نے چند معاملات میں ٹینشن پال رکھی ہے۔ ویسے تو خیر کون سی بات ہے جس کا مرزا کو غم نہیں مگر چند موضوعات ان کے لیے لاڈلی اولاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثلاً جمہوریت کے حوالے سے جتنی ٹینشن مرزا کو ہے اتنی سیاسی کارکنوں کو ہے نہ ان کے قائدین کو! شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک مرزا ٹی وی پر سیاسی تجزیوں اور مباحثوں کے پروگرام دیکھتے رہتے ہیں اور ٹینشن کو ہائی ٹینشن لائن میں تبدیل کرتے رہتے ہیں!
جب ہم نے مرزا کو ذہنی تناؤ یا ٹینشن کے حوالے سے امریکی ماہر نفسیات کی رائے سے آگاہ کیا تو انہوں نے سکون کا خاصا گہرا سانس لیا۔ شاید وہ یہ سوچ کر روح کی گہرائی تک اطمینان محسوس کر رہے تھے کہ اب بھابی کو بتاسکیں گے کہ انہوں نے جس ٹینشن کو بہت پیار سے پالا ہے وہ بامقصد زندگی کی علامت ہے۔ بھابی اب تک یہ الزام تواتر سے لگاتی آئی ہیں کہ مرزا کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں اور وہ مقصد کے بغیر جینے ہی کو زندگی کا مقصد قرار دے بیٹھے ہیں!
عام طور پر جب ہم کسی محقق کی کوئی انوکھی بات مرزا کے گوش گزار کرتے ہیں تو وہ خاصے خشو ع و خضوع سے محقق اور تحقیق دونوں پر لعن طعن فرماتے ہیں۔ اس بار چونکہ تحقیق مرزا کے حق میں تھی اس لیے انہوں نے محققین اور تحقیق کے بارے میں اپنے فطری رجحان کو نہ صرف قابو میں رکھا بلکہ اس کے خلاف جاکر کیلی مک گونیگل پر تحسین کے ڈونگرے بھی برسائے! ان کا کہنا تھا کہ پہلی بار کسی امریکی نے کوئی ڈھنگ کی بات کہی ہے! مرزا ہوں، ہم آپ یا ایوان اقتدار کے ''بگ پلیئرز‘‘ ... سبھی نظریۂ ضرورت کے آستانے سے تعویذ لیتے ہیں!
مرزا تو ٹینشن سے متعلق کیلی مک گونیگل کی رائے پر فدا ہوگئے۔ اب کے تنقید کے ڈونگرے برسانے کی باری بھابی کی تھی۔ انہوں نے امریکی ماہر نفسیات کی رائے مسترد کرتے ہوئے اسے غائبانہ طور پر کھری کھری سنائیں! بھابی کا استدلال یہ تھا کہ محققین جب کسی مسئلے کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو مسئلے کو زندگی کا حصہ بنانے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے، دل کو بے سبب قرار آجائے! گویا ع
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے!
بھابی نے ذہنی تناؤ کو کسی مقصد کی علامت قرار دیئے جانے کو فرار پسند ذہنیت قرار دیتے ہوئے مرزا کو اس سوچ کا سرکردہ نمائندہ قرار دیا!
ہمارے لیے اشارا کافی تھا۔ ہمیں معلوم تھا کہ بھابی کی طرف سے مرزا پر ڈائریکٹ اٹیک کے بعد گھر میں ٹینشن کے گراف کا بلند ہونا فطری، بلکہ لازمی امر تھا! ماہرین ٹینشن کو لاکھ کسی مقصد کی علامت قرار دیتے پھریں، ہم جانتے ہیں کہ بیشتر پاکستانیوں کی طرح مرزا کے گھر میں بھی کسی ٹینشن کی پشت پر کوئی مقصد نہیں پایا جاتا۔ ہاں، ان کی زندگی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کسی نہ کسی ٹینشن کو ضرور زندگی کا حصہ بناکر رکھا جائے، پالا جائے!
کیلی مک گونیگل اور ان کے قبیل کے دوسرے ماہرین برسوں کی تحقیق کے بعد جو کچھ فرماتے ہیں اسے ہم ''دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے‘‘ کے ذیل میں لیتے رہیں گے۔ ٹینشن میں مقصدیت محسوس کرنا تو بعد کا مرحلہ ہے۔ پہلے ہم ٹینشن کو زندگی کا مقصد سمجھنے کی منزل سے تو آگے بڑھیں! تب تک لاکھ ٹینشن سہی مگر پھر بھی نو ٹینشن، پلیز!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved