تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-05-2015

بھارت کے پڑوس میں رہنے کے تقاضے

بھارت نے قسم کھا رکھی ہے کہ پاکستان کو سکھ کا سانس نہ لینے دے گا۔ سات دہائیوں سے برقرار پاک بھارت تنازعات اور کشیدگی میں بِس کی گانٹھ یہی ہے ۔ ہندوستان کی تقسیم کو اس نے تسلیم ہی نہیں کیا۔حالات کے جبر اور تحریکِ پاکستان کے پیدا کردہ دبائو کے تحت تقسیم کو وہ روک تو نہ سکا لیکن ساتھ ہی اس نے یہ تہیہ کیا کہ چھوٹے اور نسبتاً کم اثر و رسوخ رکھنے والے ہمسایے کو جینے نہ دے گا۔ ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے یہ میراتعصب نہیں بلکہ تاریخ کی شہادت ہے کہ اکثر وبیشتر پاکستان کا روّیہ بدرجہا بہتر بلکہ بسا اوقات معذرت خواہانہ رہا۔ یہ بھی کہ ایسی یک طرفہ خوش اخلاقی کا جواب ہمیشہ درشت لہجے میں دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دورمیں پاکستان کشمیر میں مسلّح جدوجہد سے دستبردار ہوا۔ تربیتی کیمپ اور مالی مدد بند کر دی گئی ۔اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ردّی کی ٹوکری میں پھینک دی گئیں اور مشترکہ کنٹرول سمیت ہر ممکن تجویز پیش کی گئی ، پاکستان میں جسے ناپسند یدگی سے دیکھا گیا۔ اس سب کے جواب میں بھارت کے چہرے پر آپ کو خشونت اور اس کی آنکھیں باہر کو ابلی نظر آئیں گی۔
پاکستان ہی نہیں ، خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی وہ ایک برا پڑوسی ہے ۔نہ صرف یہ کہ سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی چین کے ساتھ اس کے سرحدی تنازعات برقرار ہیں بلکہ امریکہ و مغرب کی چھتری تلے ، خطے میں وہ چینی اثر و رسوخ محدود کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے ۔ یہ کوشش بے سود ہے کہ عالمی طاقت امریکہ کے سوا‘ ساڑھے آٹھ ہزار ارب ڈالر کی چینی معیشت کے کوئی قریب بھی نہیں۔ چین اگر سری لنکا میں سرمایہ کاری کرے گا تو ایٹمی تعاون
سمیت ، نریندر مودی بھی خوش خبریوں کا ایک ٹوکرا اٹھائے وہاں جا پہنچیں گے ۔ نیپال میں زلزلے کے بعد رپورٹنگ کے لیے جانے والے بھارتی میڈیا نے ایسا متکبرانہ روّیہ اختیار کیا ، گویا کوئی نو دولتیا پہلی بار اپنے غریب رشتے دار کے گھر آیا ہو ۔نتیجہ یہ ہے کہ نیپال میں Go Home Indian Mediaکی مہم شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا یک زبان ہو کر یہ الفاظ ادا کرنے لگا۔ ہم با زآئے محبت سے ، اٹھالو پاندان اپناوالی صورتِ حال ۔
مشرقی پاکستان کیسے وجود میں آیا۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ اور اس کی حکومتوں کے طرزِ عمل نے بنگال میں محرومی کا شدید احساس پیدا کیا ۔یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے فیصلہ کن اکثریت حاصل کرنے والے شیخ مجیب الرحمٰن کو اقتدار کی منتقلی میں پیدا کی جانے والی رکاوٹوں نے تابوت میں آخری کیل کا کام کیا۔اس سب کے باوجود یہ بنیادی سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کس اصول کی بنیاد پر بھارت اور اس کی افواج پاکستان کے اس داخلی مسئلے میں آٹپکیں۔ تامل ناڈو سمیت ، کئی بھارتی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چلتی رہی ہیں‘ کیا پاکستانی افواج کو وہاں جا گھسنا چاہیے؟
کشمیر میں کیا ہو رہا ہے ؟ شادی کے بعد دو سال تک مشعل حسین ملک کو سری نگر کا ویزا جاری نہ کیا گیا۔بالآخر حاتم طائی کی قبر کو لات مارتے ہوئے اجازت نامہ ملا تو اب ایک نیا تماشہ منتظر تھا۔ جب کبھی وہ مقبوضہ کشمیر جاتی ہیں ، یٰسین ملک کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتاہے ۔ وہاں ملاقات کے لیے جائیں تو بد زبانی اور تشدد۔ مشعل حسین ملک کی کلائی پر نشان موجود ہیں ۔ رہے یٰسین ملک تو سر سے پائوں تک ، ان کا بدن تازہ اور مندمل زخموں کی تصویر ہے ۔ جواں عمری میں صحت بگڑ گئی ہے ۔ آدھا وقت جیل اور باقی آدھا ہسپتال میں ۔
انتہا پسند دونوں طرف موجود ہیں۔ پاکستان میں ان کے برسرِ اقتدار آنے کا بہرحال کوئی اندیشہ نہیں ۔ وہاں2002ء کے گجرات فسادات میں مرکزی کردار ادا کرنے والے مہاتما نریندرا مودی حکومت فرما رہے ہیں ، ایک طویل عرصے تک جن کے امریکہ داخلے پر پابندی عائد رہی ۔مودی کے سائے تلے بھارتی انتہا پسندوں نے ہندو مذہب کے فروغ کی مہم شروع کی۔ یا تو ہندو ہو جائیے یا قتل ۔ بھارتی پارلیمنٹ میں کانگریس اور دوسری جماعتوں نے ہنگامہ برپا کیا تو اس جنون میں ایک ذرا کمی واقع ہوئی ہے ۔
افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان دہشت گردی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا تو بھارت نے اسے ایک سنہرا موقع جانا۔پاکستان سے نالاں صدر کرزئی کے ساتھ دوستی کا ڈول ڈالا۔افغانستان میں اپنا عسکری اور معاشی کردار ہر ممکن حد تک بڑھایا اورخود کش حملوں کے شکار پاکستان کی مشکلات میں بھرپور اضافہ کیا۔ اس سب کے باوجود آج کے افغانستان میں اس کا کردار محدود ہے ۔اپنی جگہ یہ بھی ایک بڑا صدمہ ہے کہ برہمن نے اپنی بساط سے بڑھ کر وہاں سرمایہ لٹایا تھا۔
تربت میں 20مزدوروں کی شہادت کے بعد جنرل راحیل شریف نے تنبیہہ کی تھی کہ غیر ملکی ایجنسیاں اور حکومتیں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے سے باز رہیں ۔فوجی قیادت سنبھالنے کے بعد اب دوسری بار انہوں نے مغرب کی آلۂ کار این جی اوزپہ انگلی اٹھائی ہے ۔ ادھر دنیا نیوز کی خبر یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائیاں جلد منظرِ عام پر لائی جائیں گی۔ عالمی نشریاتی ادارے ''رائٹرز‘‘ کا کہنا ہے کہ فوجی قیادت نے پہلی بار ''را‘‘ پر کھل کے الزام عائد کیا ہے ۔
بھارتی بے چینی اور حسدبے وجہ نہیں ۔ اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود، چھ گنا کم دفاعی بجٹ، مختصر سپاہ ، دہشت گردی کی دلدل میں گلے تک اترنے اور افغانستان کے راستے بلوچستان میں بھارتی کارروائیوں کے باوجود پاکستان قائم و دائم ہے ۔ نہ صرف قائم و دائم بلکہ عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے بعد اس کی سخت جانی میں اضافہ ہوا ہے ۔ سوات، جنوبی اور شمالی وزیرستان میں لڑنے والے جوان اور افسر اب لوہے کے چنے ہیں ۔ 46ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کا ایک بڑا حصہ توانائی کے منصوبوں پر مشتمل ہے ۔ صاف ظاہرہے کہ معاشی طور پر پاکستان خود انحصاری کی جانب بڑھ رہا ہے ۔
ان حالات میں بھارت نے اب ایران کی چاہ بہار بندر گاہ کی تعمیر و ترقی کا بیڑہ اٹھایا ہے ۔ کہنا اس کا یہ ہے کہ اس کے ذریعے وہ مشرقِ وسطیٰ تک رسائی چاہتاہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خلیج فارس میں یہ رسائی اسے پہلے ہی حاصل ہے ۔ نقشے میں دیکھیے تو گوادر سے چاہ بہار چند قدم کے فاصلے پر ہے ۔یہی اصل ہدف ہے کہ گوادر کی اہمیت کم کی جائے ۔ دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب آبادی اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کے لیے مشرقِ وسطیٰ تک رسائی کے لیے گوادر سے موزوں اور مختصر اور کوئی راستہ نہیں ۔ان حالات میں چاہ بہار عالمی تجارت کا ایک بڑا مرکز بن بھی جائے تو پاکستان کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کی 250ارب ڈالر کی ننھی سی معیشت 8500ارب ڈالر کے چین سے جڑ نے والی ہے ۔ بھارتی صدمہ ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ لطیفہ یہ ہے کہ وسط ایشیا تک رسائی کے لیے بھارت کے لیے بھی مختصر ترین راستہ پاکستان ہی ہے ۔ یہ بات لکھ لیجیے کہ ایک دن جب جعلی برتری کا خمار اترے گا تو برہمن اس کی التجا کرے گا۔
پاکستان اپنے ہمسایے بدل نہیں سکتا لیکن خود کو بدلا جا سکتاہے ۔ ایسے کمینے دشمن کے مقابل ، سات دہائیوں سے جو اس طرح گھات لگائے بیٹھا ہے جیسے شیطان انسانیت کے خلاف، بھرپور جنگی تیاری کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی معیشت کو سدھارنا چاہیے۔ چینی سرمایہ کاری کو کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کرنے والوں پہ ہمیں گہری نگاہ رکھنا ہوگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved