اگر جمہوریت ہوتی۔ اگر پارلیمنٹ ہوتی۔ اگر آزاد میڈیا ہوتا۔ اگر ٹی وی چینلز پر شام کے ٹاک شوزمیں بات کرنا ممکن ہوتا‘ توبابر اعوان کا ایک پروگرام ‘ الیکشن ٹربیونل اور جوڈیشل کمیشن دونوں کا کام آسان کر دیتا۔ جس حکومت کی کارستانی کا یہ عالم ہو ‘ اس کے جائز یا ناجائز ہونے کا سوال بے معنی ہو جاتا ہے۔ اس کی نااہلی شک و شبہے سے بالاتر ہو جاتی ہے۔ سپریم کورٹ ازخود اس انکشاف کا نوٹس لیتی اور پہلی ہی سماعت میں حکومت کو فارغ کر دیتی۔ قطر سے گیس کی خریداری کا معاملہ جس انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا گیا‘ وہ حکومتی کارکردگی کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ ظاہر یہ کیا گیا کہ قطر سے گیس کی خریداری کا معاہدہ ‘موجودہ حکومت توانائی کے شدید بحران سے نمٹنے کے لئے انتہائی جلدی میں کر رہی ہے۔ اس کے سامنے عوام کی تکالیف ہیں۔ وہ انہیں جلد ازجلد دور کرنے کی خواہش مند ہے۔ بیانات بھی اسی قسم کے آ رہے تھے۔ شام کوآٹھ دس بجے جتنے شو لگتے ہیں‘ ان میں حکومت کی نمائندگی کرنے والاہر مقرراپنے اپنے انداز میں ایک ہی بات کہتا کہ جناب وزیراعظم دن رات توانائی کے بحران پر پریشان ہیں۔ ان کی راتوں کی نیند اڑی ہوئی ہے۔ وہ ہر وقت ایک ہی فکر میں رہتے ہیں کہ غریبوں کا چولہا کیسے جلائیں؟ ٹرانسپورٹ کی مشکلات کیسے دور کریں؟ اور پھر احسان جتانے کے لئے ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں بتاتا کہ بہت جلد ایک معجزہ ہونے والا ہے۔ حکومت ایک حیرت انگیز ڈیل کرنے والی ہے‘ جو بہت جلد مکمل ہو جائے گی۔ اس کے بعد ملک میں گیس ہی گیس ہو گی اور وہ دنیا بھر میں سب سے سستی ملا کرے گی۔پاکستان میں اس کی آمد میں بھی تاخیر نہیں ہو گی۔ ایک نجی کمپنی نے اپنے خرچ پر گیس ٹرمینل تعمیر کر دیا ہے۔ معاہدے پر دستخط ہونے کی دیر ہے کہ گیس پہنچنا شروع ہو جائے گی۔
پھر اچانک ڈرامائی انداز میں بتایا گیا کہ گیس پاکستان میں پہنچ چکی ہے۔ فی الحال وہ پنجاب کو مہیا نہیں کی جائے گی۔ یہ ان علاقوں کو دی جائے گی‘ جہاں اس کی شدید قلت ہے۔ اینکر پوچھا کرتے کہ گیس کی خریداری کا معاہدہ کب کیا گیا ہے؟ کیسے کیا گیا ہے؟ کوئی ذمہ دار سرکاری ملازم یہ راز بتانے کو تیار نہیں تھا۔
ان کے انداز ایسے ہوتے‘ جیسے یہ ایٹمی راز کھل گیاتوخدا جانے پاکستان کا کتنا نقصان ہو جائے گا؟ شاہد خاقان عباسی جو کہ پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وزیر ہیں‘ بعض اینکرز نے ہمت کر کے انہیں مدعو کر لیا اور اس سے بھی زیادہ ہمت کر کے پوچھ لیا کہ جناب آپ جو گیس درآمد کر رہے ہیں‘ اس کی شرائط اور نرخ کیا ہیں؟ یہاں آ کے وزیرمحترم کی زبان گنگ ہو جاتی۔ وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے۔یوں ظاہر کرتے‘ جیسے بہت بڑا راز ہو اور ابھی معاملات صیغۂ راز میں ہوں۔ حقیقت یہ تھی کہ گیس پاکستان میں پہنچ چکی تھی اور عوام کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کس معاہدے کے تحت آئی ہے؟ سرکاری خزانے سے اس کی کیا قیمت ادا کی گئی ہے؟ یہ عوام کو کس قیمت پر دی جائے گی؟ حیرت کا مقام تھا کہ وزیرموصوف کو ان میں سے کسی بات کا پتہ نہیں تھا۔ جبکہ گیس کی ایک بہت بڑی کھیپ پاکستان پہنچ چکی تھی۔ دوسری راستے میں تھی۔
اب گیس کی سپلائی شروع ہو چکی ہے‘ تو ظاہر ہے اس کے ریٹ بھی کھل گئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ سارا راز کیوں چھپایا جا رہا تھا؟اس سودے میں پرائیویٹ کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ یہ کمپنیاں کونسی ہیں؟ ان کے مالک کون ہیں؟ عوام کو بتایا گیا ہے کہ گیس کی درآمد نہ صرف نجی شعبہ کرے گا بلکہ وہ پاکستان میں پہنچ چکی ہے اور اب تو وہ ملک بھر میں تقسیم بھی ہونے لگی ہے۔ پاکستان میں اس کی درآمد کیسے ہو رہی ہے؟ یہ الگ کہانی ہے۔ پاکستان میں گیس ذخیرہ کرنے کے لئے ایک ٹرمینل بنایا گیا ہے۔ جس شخص نے 50 ملین ڈالر میں یہ ٹرمینل بنایا ہے‘ ایک خبر کے مطابق وہ اس کا کرایہ اڑھائی سو ملین ڈالر وصول کرے گا اور کہنے والوں نے بتایا کہ ایک سال کا کرایہ ایڈوانس وصول کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چیز عوامی اطلاع کے لئے منظرعام پر نہیں لائی گئی۔یہ باتیں چھوٹے ٹکڑوں میں منظرعام پر آ رہی ہیں‘ تو انہیں ایک ہی بار عوام کے سامنے کیوں نہیں لایا جاتا؟ اس میں چھپانے کی کیا بات ہے؟ آج کے دنیا اخبار میں آپ وہ معاہدہ دیکھ چکے ہیں‘ جو قطر کی حکومت اور پاکستان کی وزارت پٹرولیم کے درمیان ہوا ہے اور یہ آج کی بات نہیں‘ معاہدہ مارچ 2015ء میں ہوا تھا اور ہمیں صرف چند روز پہلے بتایا جا رہا تھا کہ معاہدہ تو ابھی ہوا ہی نہیں۔ گیس کس نرخ پر خریدی جائے گی؟ اس کا ابھی فیصلہ ہی نہیں ہوا اور معاہدہ؟ اس کی ابھی شرائط ہی طے نہیں۔ غضب خدا کا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منتخب وزیر‘ ایک نہیں باربار اور متعدد جھوٹ بول رہے تھے۔ جتنے چینلز پر وہ جاتے ہیں اتنی ہی مختلف باتیں کرتے ہیں اور ابھی تک یہ راز عوام کو نہیں بتایا گیا کہ حکومت پاکستان نے خریداری کا اصل سودا کس سے کیا ہے؟ مارکیٹ میں جو افواہیں پھیلی ہیں‘ ان کے مطابق حکومت پاکستان نے یہ سودا ایک نجی ادارے سے کیا ہے‘ جس کے مالک سیف الرحمن ہیں اور سیف الرحمن کا مالک کون ہے؟ یہ راز ڈھکا چھپا نہیں۔ میرے پاس سرور سکھیرا کی طرح دستاویزات نہیں ہیں۔ اطلاع ہے کہ بابر اعوان کے پاس موجود ہیں۔ مناسب ہو گا کہ خود ہی اس کا انکشاف کر دیں۔ اپنے ٹی وی پروگرام میں انہوں نے اصل کہانی نہیں بتائی۔ بہتر ہو گا‘ وہ بتا دیں۔ رئوف کلاسرا سے اگر یہ کہانی محفوظ رہ گئی ہے‘ تو اسے منظر عام پر لے آئیں۔ یہ بدنصیب قوم حق دار ہے کہ اسے سچائی سے باخبر کیا جائے۔ آخرکار یہ گیس اسی کو خریدنا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان یہ گیس دنیا بھر میں سب سے مہنگی خرید رہا ہے۔ جب قطر سے پاکستان کے مذاکرات ہو رہے تھے‘ تو ہمیں آسٹریلیا‘ انڈونیشیا اور ملائشیا نے اس سے دو تہائی ریٹ پر گیس بیچنے کی پیش کش کی تھی‘ جس میں ہم قطر سے خرید رہے ہیں۔ اس میں کوئی اضافی خرچ نہیں تھا۔ کیونکہ ہمیں جو ریٹ آفر کیا گیا‘ اس ریٹ پر یہ گیس کراچی پہنچ کر ملنا تھی۔ ان دونوں ملکوں کی پیشکشیں کیوں قبول نہیں کی گئیں؟ اور قطر کی مہنگی گیس کیوں خریدی گئی؟ یہ راز سیف الرحمن کے نام سے کھل سکتا ہے۔
اب میرے سوالات یہ ہیں کہ جو معاہدہ مارچ 2015ء میں ہو چکا تھا‘ اس کی خبر پارلیمنٹ کو کیوں نہ ہوئی؟ جو پیشکشیں ملائشیا اور آسٹریلیا سے ہوئیں‘ ان سے پارلیمنٹ کو بے خبر کیوں رکھا گیا؟ یہ معاہدہ‘ جو وزارت پٹرولیم اور قطر کے درمیان ہوا‘ ایک سرکاری دستاویز تھی۔ اسے پبلک کی ملکیت کہا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کو اس کی خبر کیوں نہ ہوئی؟ یہ ڈیل بڑی حد تک میڈیا میں آ چکی ہے۔ اسے پارلیمنٹ میں کیوں نہیں لایا جا رہا؟ یہ سوال بڑے اہم ہیں۔ کیونکہ اس پارلیمنٹ نے دھرنے کے زمانے میں ثابت کیا تھا کہ یہ ایک دم چھلا پارلیمنٹ ہے۔ جب اس پر عوامی دبائو آ رہا تھا‘ تو بجائے اس کے کہ اپوزیشن پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر عوامی شکایات پیش کرتی اور حکومت سے ان باتوں کا جواب مانگتی‘ جو عوام کی طرف سے پوچھی جا رہی ہیں‘ وہ حکومت کے ساتھ مل کر کیوں کھڑی ہو گئی؟ کیا پارلیمنٹ کی اپوزیشن‘ حکومت کی تمام کارستانیوں میں شریک تھی؟ آج بھی اپوزیشن کے سارے طور طریقوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی ساری کارکردگی میں اس کی حصے دار ہے۔ کم ازکم پاکستانی جمہوریت کے منتخب اداروں میں جمہوریت نامی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی۔ اب تو رائو خورشید یا ممتاز تارڑ جیسی اکلوتی آوازیں بھی سنائی نہیں دیتیں۔ ہر ممبرسرکاری ہے۔ جو سکینڈل کل شام دنیا نیوزچینل پہ کھلنا شروع ہوا ہے اور جس کا کچھ حصہ میں نے عوام کے سامنے پیش کیا ہے‘ اس کی باقی چند پرتیں بھی ایک دو روز میں کھلنے والی ہیں۔ اس کے بعد میں انتظار کروں گا کہ کوئی سرپھرا پارلیمنٹ میں ‘ عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کے اس سکینڈل پر آواز اٹھاتا ہے یا نہیں؟ورنہ جمہوریت پر فاتحہ پڑھ کے‘ صبر شکر کر لینا چاہیے۔قطر کی گیس تو قطر کی طرح چھوٹا قصہ ہے۔ بڑے بڑے قصے تو قوم کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ ہماری آنکھ کب کھلے گی؟ جب ہمیں کنگال کرنے والے جا چکے ہوں گے؟