سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب ناصرالملک کی سربراہی میں تین جج صاحبان پر مشتمل عدالتی کمیشن 2013ء کے عام انتخابات کا جائزہ لینے کے لئے کارروائی کا آغاز کر چکا ہے۔ اسے 45دن کے اندر اپنا کام مکمل کرنے کا پابند بنایا گیا تھا، لیکن اگر اس دوران ایسا نہ ہو سکا تو اس کی مدت میں توسیع ہو سکتی ہے یا یہ اپنے طور پر اپنا کام جاری رکھ سکتا ہے کہ ہماری آئینی اور قانونی دنیا میں ایسی نظیریں بکثرت موجود ہیں جن کے مطابق ایک مقررہ مدت میں کوئی (عدالتی) کام مکمل کرنے کی ہدایت پر عمل درآمد کو پتھر کی لکیر نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس خصوصی کمیشن کی تشکیل مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے کئی مرحلوں کے بعد ممکن ہوئی تھی۔ اس کے دائرۂ کار کے بارے میں فریقین طویل عرصہ بحث و تمحیص کرتے رہے، بہت کچھ میڈیا کے سامنے یعنی دن دہاڑے ہوا تو بہت کچھ میڈیا کی آنکھ سے چھپ چھپا کر (رات کی) تاریکی میں ہوتا رہا۔ جناب اسحاق ڈار کے بقول اتفاق اسی طور ممکن ہوا کہ میڈیا کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی گئی بہرحال احتیاطیں جو بھی ملحوظ رکھی گئی ہوں، بنیادی بات یہ تھی کہ کمیشن کے قیام اور دائرہ کار پر اتفاق ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) نے پیپلزپارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے لیا اور یوں اس سمت قدم بڑھانا ممکن ہوا، جس سمت جاتے ہوئے بہت سوں کا پتہ پانی ہوتا تھا کہ اگر تحریک انصاف کا نقطۂ نظر تسلیم کر لیا گیا تو وفاقی ہی نہیں صوبائی سطح پر بھی نئے انتخابات کرانا پڑیں گے اور یہ وہ مقام ہے جہاں مسلم لیگ(ن) کا اختیار جزوی ہے۔سندھ اور بلوچستان میں اسے پیپلزپارٹی اور اپنے اتحادیوں کا مرہون منت ہونا پڑے گا۔ کمیشن کے قیام پر دونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے بغلیں بجائیں اور اسے اپنی ایسی کامیابی قرار دیا، جسے اپنے مخالف کی ناکامی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اسحاق ڈار اور جہانگیر ترین نے جس پریس کانفرنس میں اس کامیابی کا اعلان کیا تھا،اس کی وڈیو اگر دوبارہ دیکھی جائے تو دونوں ایک دوسرے کے بارے میں احتیاط کا شدید مظاہرہ کرتے ہوئے پائے (یا پکڑے) جا سکتے ہیں۔
اس کمشن کا قیام پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ یوں تھا کہ عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات تو یہاں بہت لگے ہیں لیکن کبھی اس طرح کی تحقیقات کا اہتمام ممکن نہ ہو سکا تھا یا یہ کہیے کہ کسی ذہن میں اس طرح کی تجویز نہیں آ سکی تھی۔ ہمارے ہاں یہ سیاسی روایت بہت مستحکم ہو چکی ہے کہ ہارنے والے اپنی شکست تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ہر انتخاب میں ہر ہارنے والی جماعت نے دھاندلی کا الزام لگایا، حتیٰ کہ 1988ء میں ابتدائی نتائج کو مرضی کے مطابق نہ پا کر محترمہ بے نظیر بھٹو نے دھاندلی کی دہائی دے ڈالی۔ جوں جوں نتائج آگے بڑھے، ان کی نشستوں میں اضافہ ہوتا گیا، اس کے ساتھ ہی دھاندلی کے الزامات بھی مدہم پڑتے گئے یا یہ کہیے کہ دم توڑ گئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر انتخاب سو فیصد شفاف اور صاف ہوتا رہا ہے، یقینا بہت کچھ ایسا ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا، خاص طور پر ''پری پول رگنگ‘‘ کے حوالے سے کہ تخت پر موجود اصحاب نے قومی وسائل کا اپنے حق میں بے دریغ استعمال کیا، لیکن بہت کچھ ایسا بھی ہوا کہ جس کی وجہ سے نتائج کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا تھا۔1977ء کے انتخابات کے خلاف ایسی تحریک اٹھی کہ (بالآخر) ہر شے کو بہا کر لے گئی۔بعد میں سامنے آنے والی دستاویزات نے یہ واضح کر دیا کہ ان انتخابات میں منظم دھاندلی کا ارتکاب کیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے زیر نگرانی سرکاری افسروں اور وسائل کے استعمال کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ وجہ اس کی یہی بیان کی جاتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کے حصول پر مطمئن نہیں تھے۔ اپنے دو تہائی ارکان کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے دھاندلی کے پاپڑ بیلے گئے تاکہ دستور میں ترمیم کرکے اسے صدارتی قالب میں ڈھالا جا سکے۔
اگراس وقت کسی ذہن میں سپریم جوڈیشل کمیشن کے قیام کی تجویز آ جاتی تو شاید مارشل لاء بہادر کو قدم رنجہ نہ فرمانا پڑتا یا یہ کہیے کہ قدم رنجہ فرمانے کا جواز نہ مل پاتا۔ عمران خان کے ذہن رسا کی داد دیجئے یا کسی اور کو تھپکی کا مستحق جانیے‘ سپریم جوڈیشل کمیشن کے قیام کی تجویز نے ایجی ٹیشن کے آگے بند باندھ دیا۔ عمران خان ہر روز اپنے آزادی مارچ اور اسلام آبادی دھرنے کے سر اس کمیشن کا سہرا سجاتے ہیں، حالانکہ 14اگست کو ان کے مارچ کے آغاز سے ایک دن پہلے ہی وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر کمیشن کے قیام کی گزارش کر دی تھی۔ اگر مارچ اور دھرنا ملتوی کر دیئے جاتے یا ان کو کمیشن کے دائرۂ عمل کے ساتھ منسلک کر دیا جاتا تو کئی ہفتوں پر پھیلی ہوئی دھماچوکڑی کو چند روز میں سمیٹا جا سکتا تھا اور قوم اس کے منفی اثرات سے محفوظ رہ سکتی تھی... لیکن اس وقت سر پر وزیراعظم کے استعفے کا بھوت سوار تھا۔ کمیشن کے قیام کا معاملہ اس مطالبے کی چکاچوند میں کسی کو نظر نہیں آ رہا تھا۔پاکستان ''استعفیٰ بذریعہ دھرنا‘‘ سے محفوظ رہا اور یوں قومی سیاست میں ایک ایسی نظیر قائم نہ کی جا سکی جو آئندہ کسی حکومت کا استقرار ممکن نہ رہنے دے۔ عمران خان کمیشن کے قیام کو اپنی انتہائی کامیابی قرار دینے پر مجبور ہو گئے اور اب بھی اسی سے اپنا اور اپنے بے کنار مداحوںکا دل بہلا رہے ہیں۔
اس کمشن نے یہ طے کرنا ہے کہ آیا 2013ء کے انتخابات میں کسی منظم دھاندلی کا ارتکاب کیا گیا اور آیا منعقدہ انتخابات دستور کے مطابق صاف، شفاف اور منصفانہ تھے۔ کارروائی جاری ہے، گواہ پیش ہو رہے ہیں۔ مختلف جماعتوں کے وکلائے کرام میدان میں ہیں۔ جرح ہو رہی ہے‘ نکتہ سنجیوں اور طرازیوں کا بازار گرم ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا اور اب بھی یہی چاہیے کہ تمام توجہ کمیشن پر مرکوز ہو، اس کی کارروائی کو توجہ سے سنا جائے اور جو کچھ کوئی فریق کہنا چاہتا ہو، کمیشن کے سامنے خود کہے یا اپنے وکلاء کو زحمت دے۔ ہر روز اپنا اپنا نتیجہ نکالنے کے بجائے، فاضل جج صاحبان کو نتیجہ نکالنے دیا جائے، ان کے فیصلے کا انتظار خواہ جتنا بھی دوبھر ہو، کیا جائے۔ لیکن فریقین روزانہ کمیشن کا وقت ختم ہونے کے بعد اپنی اپنی کچہری لگا لیتے ہیں۔ میڈیا ٹاک شوز بھی اس غل غپاڑے میں اضافہ کررہے ہیں۔ اس سے ماحول کا تکدرّنہ صرف برقرار رہتا ہے، بلکہ بعض اوقات اس میں اضافہ ہو جاتا ہے... اگر یہ گزارش کی جائے تو بے جا نہیں ہوگی کہ عظیم رہنما حضرات بلوغت کا مظاہرہ کریں اور اپنے اپنے حامیوں کو کمیشن کے فیصلے کا انتظار کرنے کی تلقین کریں... کہ اب تو جو کرنا ہے کمیشن ہی نے کرنا ہے۔ اس شیر کے سامنے کسی اور کی ہلا شیری کسی کام نہیں آئے گی۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)