اس وقت تین گواہ بفضل خدا حیات ہیں۔ ان میں سے ایک تحریک انصاف تھنک ٹینک کے فرید الدین‘ دوسرے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید اور تیسرے تحریک انصاف کے لاہور سے رکن قومی اسمبلی شفقت محمود۔ ان حضرات کو گیارہ مئی 2013ء کی دوپہر تقریباً پونے دو بجے ان کے موبائلز پر اطلاع کر دی تھی کہ بعض اداروں کی جانب سے ملنے والی بارہ بجے تک کی انتخابی صورت حال کی رپورٹس ملنے کے بعد ریٹرننگ افسران کو اپنا کام دکھانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ان رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ سٹیج سے گرنے کے بعد شوکت خانم ہسپتال کے بستر سے عمران خان کے ویڈیو پروگرام نے صورت حال بدل کر رکھ دی ہے اور خواتین اتنی تعداد میں ان کیلئے ووٹ ڈالنے نکل رہی ہیں کہ لاہور کی بمشکل دو نشستیں نواز لیگ کے ہاتھ آ سکیں گی۔ یہ رپورٹ ملنے پر'' انصافی‘‘ پہلے سے بھی زیا دہ حرکت میں آ گئے۔ آپ لوگوں سے اگر ہو سکتا ہے تو اپنا اپنا بندوبست کر لیجئے۔ میری اس اطلاع پر تحریک انصاف کی قیادت سوئی رہی اور صرف شفقت محمود اور میاں محمود الرشید نے اپنے حلقوں کے ریٹرننگ افسران کی گردن پر سواری بر قرار رکھی اور اس وقت تک جگہ نہ چھوڑی جب تک ان سے ہر پولنگ اسٹیشن کے نتائج کی مصدقہ نقول حاصل نہ کر لیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس حلقے کی قومی اور صوبائی دونوں نشستیں تحریک انصاف سے چھینی نہ جا سکیں اور ابھی تک لاہور سے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی یہ د و نشستیں حکمرانوں کو کانٹوں کی طرح چبھ رہی ہیں۔ اپنے ایک سال قبل لکھے گئے ایک کالم میں چاروں صوبوں کے الیکشن کمشنرز کی تعیناتی کی پوری کہانی بیان کی تھی اور تین اپریل2013ء کو ان امریکی اور برطانوی سفارت کاروں کی لاہور میں اندرون خانہ ہونے والی کچھ ملاقاتوں کی بات کی تھی جس کا ذکر اپنے کسی اگلے مضمون میں ایک بار پھر کروں گا تاکہ وہ سچائی اور سازش ایک بار پھر سب کے سامنے آ جائے۔
25 اپریل کو ہونے والے کنٹونمنٹس کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی ناکامی اس تحریک انصاف کی کامیابی ہے جو اس ملک میں تبدیلی کی خواہشمند یوتھ کیلئے بعض جماعتوں اور رہنمائوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اگر کسی ایسے شخص سے‘ جس نے گذشتہ پانچ سال سے اپنا دن رات تحریک انصاف کی کامیابی کیلئے مختص کر رکھا ہو‘ جس نے اسلام آباد میں دیے جانے والے دھرنے میں ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا ہو‘ جب حالیہ کنٹونمنٹ انتخاب میں کسی کی جانب سے تحریک انصاف کا ٹکٹ دینے کیلئے تیس لاکھ روپیہ مانگا جائے تو اس کی کیفیت کیا ہو گی؟۔ اس کارکن نے تیس لاکھ نہ دیے اور وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے محروم کر دیا گیا جس پر اس نے انتقامی طور پر آزادانہ طور پر الیکشن میں حصہ لیا لیکن ساتھ ہی عمران خان کو بھی اس کی با قاعدہ اطلاع کر دی کہ لاہور کے یہ صاحب مجھ سے تیس لاکھ مانگ رہے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف کے سرکاری اور غیر سرکاری امیدواروں کے مشترکہ ووٹ نواز لیگ کے ایک ایم پی اے کے بھائی سے کہیں زیا دہ تھے لیکن تقسیم ہو جانے کی وجہ سے تحریک انصاف یہ نشست ہار گئی ۔
میرے خیال میں حالیہ کنٹونمنٹ انتخابات میں ریل کے محکمے کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور نواز لیگ کی کامیابی میں ریلوے نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جن کی تحریک انصاف کو خبر ہی نہ ہو سکی کہ راولپنڈی سے لے کر بہا ولپور تک ریلوے کی پٹریوں کے ساتھ والی آبادیوں میں ریلوے حکام اور ریلوے پولیس نے ایک ایک گھر کو ایک ٹانگ پر کھڑا کر رکھا تھا کہ اگر ووٹ مسلم لیگ نواز کے علا وہ کسی اور جماعت یا شخص کو دیا تو یہ سب گھر اور دکانیں جو ریل کی پٹریوں کے ساتھ ساتھ غیر قانونی طور پر تعمیر کر لی گئی ہیں گرا دی جائیں گی اور ریلوے کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کرنے والے سب لوگوں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی دیکھتی ہی رہ گئی اور ریلوے ٹریک کے ساتھ ساتھ تعمیر کی جانے والی ان تمام آبادیوں سے کنٹونمنٹ بورڈ کے وارڈز میں مسلم لیگ نواز کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ کاسٹ کرا لئے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ریلوے پولیس نے ان انتخابات میں وہی کردار ادا کیا جو1977ء کے انتخابات میں فیڈرل سکیورٹی فورس نے ادا کیا تھا بلکہ یہاں تک ہوا کہ ریلوے پولیس نے ریلوے ٹریک کے ساتھ تعمیر کی جانے والی نا جائز تعمیرات کی جگہوں پر با قاعدہ اپنی پکٹس قائم کر رکھی تھیں۔
اب ذرا ایک اور پہلو پر بھی غور کیجئے کہ تحریک انصاف لاہور کی جانب سے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا اعلان کر دیا گیا اور ان لوگوں نے اپنے کاغذات نا مزدگی جمع کروا دیے‘ لیکن تیسرے دن ان سے ٹکٹ واپس لے کر اور لوگوں کو ٹکٹ جاری کر دیے گئے۔ الیکشن کمیشن بھی حیران تھا کہ اس نے تحریک انصاف کا انتخابی نشان یعنی بلا کس کو الاٹ کرنا ہے ؟۔ وہ لوگ جنہیں پہلے ٹکٹ دیئے گئے تھے وہ دیکھتے ہی رہ گئے اور تحریک کا انتخابی نشان دوسرے لے گئے اور وہ جنہیں پہلے ٹکٹ الاٹ کئے گئے تھے انہوں نے اسے اپنی بے عزتی جا نا اور دستبردار ہونے کی بجائے خم ٹھونک کر مقابلے پر کھڑے رہے اور ''اپنوں‘‘ کی سازش سے پچیس اپریل کی شام تحریک انصاف کی قیا دت ایک دوسرے کا منہ دیکھتی رہ گئی۔ بڑی قیا دت اور تصویروں میں نمبر بنانے اور دکھانے والے تو ایک طرف ہو گئے لیکن سوشل میڈیا اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں ہونے والی سبکی کے متاثرین وہی بے لوث کارکن ہی رہے ۔ شاید تحریک انصاف کا یہ گروپ نہ تو خود شکست سے سبق سیکھتا ہے اور نہ ہی تاریخ سے اور بد قسمتی سے اس گروپ نے عمران خان کو اس طرح اپنے حصار میں لیا ہوا ہے کہ اسے یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس کا دوست کون ہے اور منا فق کون۔ اور وہ نادان جو انہیں اپنی تحریر یا تدبیر سے کچھ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے ان کی نظروں سے گر جاتا ہے لیکن یہ عقل مند لوگ شاید اتنا بھی نہیں
جانتے کہ سمجھانے والے ایسے بھی کچھ لوگ ہوتے ہیں جنہیں آپ جیسے لوگوں سے ملنا بھی گوارا نہیں ۔ وہ اس تبدیلی کے ساتھ ہیں‘ اس نظریے کے ساتھ ہیں جس کا عمران خان اس قوم کے نو جوانوں اور عوام سے وعدہ کرتا چلا آ رہا ہے... تحریک انصاف میں بیٹھا ہوا ایک طبقہ نوجوانوں کے ان جذبات سے کھیلتے ہوئے‘ ان کے جنون کو استعمال کرتے ہوئے ان کی سادگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ان کے ایثار کو روندتے ہوئے من مانیاں کرنے میں لگا ہوا ہے۔ یہ ایسا طبقہ ہے جسے نہ تو تحریک انصاف کی عزت کا پاس ہے اور نہ ہی عمران خان کی عزت کا۔مجھ سے میڈیا سے متعلق بہت سے لوگوں نے کئی دفعہ شکوہ کیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کا یہ طبقہ ہمیں اپنا غلام سمجھتا ہے جبکہ ہم جیسے لکھنے والے ان کے دروازوں اور ان کی گاڑیوں کے گرد کھڑے ہونا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اگر ہمارے قلم تحریک انصاف کیلئے متحرک رہتے ہیں تواس کی وجہ سوائے نئے اور بہتر پاکستان کے نعرے کے اور کچھ نہیں۔
پشاور ون سے عمران خان کی خالی کی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست‘ جہاں عمران خان نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی‘ چند ہفتوں بعد ہونے والے ضمنی انتخاب میں چھن گئی۔ وجہ اس کی صرف یہ تھی کہ اس نشست پر ایک ایسے غیر مقبول شخص کو ٹکٹ دے دیا گیا جس سے تحریک انصاف کے متحرک کارکن بھی نا واقف تھے ۔یہی کچھ راولپنڈی میں حالیہ کنٹونمنٹ انتخابات میں بھی کیا گیا اور ہر حلقے سے تحریک انصاف میں گھسے ہوئے موقع پرست ہاتھوں کے ذریعے تحریک انصاف ہی ایک دوسرے کے سامنے کھڑی کر دی گئی۔!!