تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-05-2015

آلودہ پانی اور دیگر آلودگیاں

اخبار کے اندرونی صفحے پر چھپی ایک خبر کی سرخیاں کچھ اس طرح سے ہیں:
آلودہ پانی کے باعث گیسٹرو کے مریضوں میں اضافہ‘ سرکاری ہسپتالوں میں ابھی تک گیسٹرو سے بچنے کی احتیاطی تدابیر اور معلوماتی کائونٹر قائم نہیں کیے گئے‘ دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کو ایمرجنسی میں بیڈز کی کمی کا سامنا‘ یومیہ 3 ہزار سے زائد مریض علاج کے لیے آتے ہیں جن کو ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں صرف ڈرپ لگا کر واپس بھیج دیا جاتا ہے‘ شہر کی 60 فیصد آبادی آلودہ پانی پینے پر مجبور۔
یہ صرف لاہور کی صورت حال ہے جو نہ صرف صوبے کا دارالحکومت ہے بلکہ اسے پنجاب کا دل بھی کہا جاتا ہے اور جسے خوشنما بنانے کے لیے صوبے کے دوسرے شہروں کے حصے کے فنڈز بھی بیدردی سے خرچ کیے جاتے ہیں۔ صوبے کے باقی شہروں کی اس حوالے سے صورت حال کیا ہوگی‘ اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ گویا اگر لاہور جیسے شہر کے 60 فیصد باسی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں تو کم ترقی یافتہ شہروں میں ایسا پانی پینے والوں کی اوسط نکالنے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہیے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آئے دن کی لیبارٹری رپورٹوں میں منرل واٹر تیار کرنے والی کئی کمپنیوں کا پانی بھی آلودہ اور مضر صحت قرار دیا جاتا ہے‘ لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
حکومت تعلیم پر جو خرچ کرتی ہے وہ جی ڈی پی کے 2 فیصد سے بھی کم ہے جس سے صحت پر اٹھائے جانے والے اخراجات کا تخمینہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ آلودہ پانی تو ایک طرف رہا‘ دیگر اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کا تناسب بھی ہوش ربا ہے جس میں دودھ اور مصالحہ جات بطور خاص شامل ہیں‘ حتیٰ کہ بقول شخصے‘ ملک میں خالص زہر بھی دستیاب نہیں۔ اکیلے پانی ہی کی صورت حال یہ ہے کہ اس میں اکثر رپورٹوں کے مطابق گٹر کا پانی بھی شامل ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں فلٹریشن پلانٹ کا کوئی رواج ہی نہیں ہے۔ سو‘ جہاں قوم ملاوٹ کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی‘ وہاں اس کی نگرانی کے ذمہ دار سرکاری اہلکار یعنی فوڈ انسپکٹرز وغیرہ بالعموم اپنی منتھلیاں کھری کرنے ہی میں مصروف رہتے ہیں۔ باقی اشیاء تو الگ رہیں‘ خالص گوشت کا دستیاب ہونا بھی روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پانی بھرے گوشت کی شکایت تو پہلے ہی عام تھی‘ اب مردہ جانوروں اور مرغیوں کا گوشت قوم کو کھلایا جا رہا ہے‘ حتیٰ کہ آئے دن گدھے کا گوشت بیچنے والوں کے حوالے سے بھی کوئی نہ کوئی خبر اخبار کی زینت بنی نظر آتی ہے۔ چونکہ اس سلسلے میں کوئی مؤثر انسدادی قانون نہ ہونے کے برابر ہے‘ اس لیے پکڑے جانے والے عبرت ناک سزا کی بجائے معمولی جرمانہ ادا کر کے سرخرو ہوجاتے ہیں۔ ایسا ناقص اور مضرِ صحت گوشت زیادہ تر ہوٹلوں میں کھپایا جاتا ہے جہاں سے یہ قوم کے معدوں میں اُترتا ہے۔
سرکاری سلاٹر ہائوسز کی صورت حال مزید ناگفتنی ہے جہاں صفائی ستھرائی کے فقدان کے علاوہ نگرانی کا انتظام بھی دیگر محکموں کی طرح انتہائی ناقص ہے اور لاغر اور بیمار جانوروں کا نکاس بھی ایک معمول کی بات ہے۔ چنانچہ صحت اور اس سے متعلقہ اداروں کی کارکردگی جس قدر مایوس کُن ہے‘ اسی قدر حکومت کی ترجیحات کا بھی تخمینہ لگایا جا سکتا ہے جن کے حوالے سے عوام کو پہنچائی جانے والی سہولیات صاف نظر بھی آتی ہیں اور مسائل کے حل کے حوالے سے حکومتی دعووں اور دلیلوں کی قلعی بھی کھلتی ہے کہ ان میں اصلیت کتنی ہے اور لفاظی کا تناسب کیا ہے۔
جہاں تک پانی کی صورت حال کا تعلق ہے تو ایک حقیقت ایسی ہے جس کا نہ کسی کو ادراک ہے نہ احساس۔ اور وہ یہ ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح روز بروز نیچی ہوتی چلی جا رہی ہے اور جس کی ایک وجہ ہمارے ہاں میٹھے پانی کا بے دریغ استعمال بھی ہے۔ اسی سے ہم فرش بھی دھوتے ہیں اور گاڑیاں بھی۔ حتیٰ کہ ہماری خواتین برتن وغیرہ صاف کرتے وقت پانی جس بیدردی سے استعمال کرتی ہیں‘ وہ ایک الگ عبرت انگیز مقام ہے۔ اور‘ اگر یہی صورت حال رہی تو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ زیر زمین پانی جواب ہی دے جائے اور ہم پانی کے ایک قطرے کے لیے ترستے رہ جائیں جبکہ دریائوں اور سیلابوں کا پانی ہماری بے تدبیری کی بدولت سارے کا سارا سمندر میں جا گرتا ہے اور ہماری کسی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ بڑے نہیں تو چھوٹے ڈیم ہی تعمیر کر کے اس انتہائی قیمتی شے کا ذخیرہ کرنے کی کوئی صورت نکل سکے۔ ابتدا میں درج رپورٹ کے مطابق عوامی صحت کے بارے حکومتی ترجیح کا کچا چٹھا کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ ہماری کیا صورت حال ہے اور ہمارے بچوں کی قسمت میں کیا لکھا ہے کہ قوم کی تعمیر کا یہ بنیادی پتھر ہے جو اپنا حالِ زار خود ہی بیان کر رہا ہے‘ حالانکہ حکومت کو کم از کم یہ تو سوچنا چاہیے کہ جن لوگوں سے اس نے ہر پانچ سال بعد ووٹ حاصل کر کے اپنے اقتدار کی گاڑی کو آگے چلانا ہے‘ اسے کم از کم بنیادی طور پر صحت کی سہولیات تو مہیا کی جائیں‘ لیکن ایسے معاملات حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں۔ اس کی ترجیحات ہیں میگاپروجیکٹس‘ وہ موٹروے ہو‘ میٹرو بس ہو یا اورنج ریلوے۔ اور‘ وہ صرف دور سے نظر آنے چاہئیں‘ صحت اور تعلیم کے مسائل کو اگر حل کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو وہ نظر کہاں آتے ہیں اور وہ ترجیحات میں شامل کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ اکثر ایسے پروجیکٹس محض دور ہی کا جلوہ ثابت ہوتے ہیں جن میں تازہ ترین قائداعظم سولر پروجیکٹ ہے جس کی اصلیت ہمارے دوست خالد مسعود خان نے اپنے کالم میں کھول کر بتا دی ہے۔ اور‘ جہاں تک آلودہ پانی کا تعلق ہے تو یہ حکمرانوں کو کبھی خود بھی پی کر دیکھنا چاہیے!
آج کا مطلع
یوں بھی نہیں کہ میرے بُلانے سے آ گیا
جب رہ نہیں سکا تو بہانے سے آ گیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved