تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-05-2015

اوراب سیٹ بیلٹ

گلبرگ جانے کیلئے قذافی سٹیڈیم کے اندر سے گزرتے ہوئے جیسے ہی تھوڑا آگے بڑھے‘ دیکھا کہ پولیس کے سات آٹھ جوان ناکہ لگائے کھڑے ہیں۔ انہوں نے گاڑی سے اتار کر مکمل تلاشی لینے کے بعد ڈگی کھولنے کا حکم دیا اور ادھر ادھر ہاتھ مار کر مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ میں جانے لگا تو ایک نو جوان کانسٹیبل میرے پاس آ کر کہنے لگا‘ سر جی آئندہ ڈگی کی تلاشی دور کھڑے ہو کر نہیں بلکہ اپنی نگرانی میں کرایا کریں۔ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا‘ جس پر وہ مسکرا کر بولا: شکر کریں کہ آپ کی ڈگی سے چرس بھرے سگریٹ بر آمد نہیں ہو گئے۔کانسٹیبل نے ایک فقرے میں جو کہنا تھا کہہ دیا‘ جس کا مکمل مفہوم اور اس میں چھپا ہوا پیغام سمجھنے میں مجھے ذرا بھی دیر نہ لگی۔سارا رستہ میں یہی سوچتا رہا کہ اگر ایسا ہو جاتا تو میں کس کس کو بتاتا پھرتا کہ بھئی میں تو سگریٹ پیتا ہی نہیں‘ میں تو ایک عمر رسیدہ شخص ہوں‘ لیکن اس طریقے سے نہ جانے کتنے نوجوانوں سے کیا کچھ نہیں بٹور ا جاتا ہو گا۔اس واقعہ کو کوئی تین ہفتے گذرے ہوں گے کہ اپنے بیٹوں کے ساتھ بھیکے وال چوک سے کریم مارکیٹ کی طرف جا تے ہوئے ناکہ پر ایک اے ایس آئی نے ہم سب کو گاڑی سے اترنے کا حکم دے کر ہماری جامہ تلاشی شروع کر دی۔ ہاتھ اوپر اٹھائے کبھی خود کو اور کبھی اپنے بچوں کی جانب دیکھ کر شرمندہ سا ہو رہا تھا کہ پولیس نے ہم سب کو سڑک پر تماشہ کیوں بنا رکھا ہے۔ جب ہماری جیبوں سے کچھ بر آمد نہ ہوا تو انہوں نے گاڑی کو ادھیڑنا شروع کر دیا۔ کاغذات اور لائسنس مکمل پا کر ان کو بھی مایوسی ہوئی۔ کچھ نہ ملنے پر سیخ پا ہوتے ہوئے انہوں نے بادل ناخواستہ جانے کی اجا زت دے دی۔
یہ صرف ان دو واقعات کا ذکر کیا ہے جو میرے ساتھ پیش آئے۔ لاہور میں گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے والاہر شخص‘ جو اپنی فیملی کے ساتھ کہیں بھی جانے کیلئے گھر سے نکلتا ہے‘ اکثر اسی طرح کے ''حادثات‘‘ کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ آج کل گلی گلی لگے ہوئے پولیس ناکے سوائے لڑکوں سے لائسنس کے نام پر نذرانے لینے کے اور کچھ بھی نہیں کرتے۔
چیف ٹریفک آفیسر نے اعلان کیا ہے کہ لاہور کی ٹریفک پولیس گیارہ مئی سے '' سیٹ بیلٹ‘‘ کے نام سے زبردست چالان مہم کا آغاز کرے گی۔ ترقی یافتہ ملکوں میں سیٹ بیلٹ کے بغیر گاڑی چلانے کا کوئی تصور نہیں۔ جب سے ایس ایس پی ٹریفک کی بجائے چیف ٹریفک آفیسر کا عہدہ تخلیق ہوا ہے ہماری ٹریفک پولیس جدید سے جدید تر ہونے کی کوششوں میں مصروف ہوگئی ہے۔ سیٹ بیلٹ کی پابندی کی طرف ان کا دھیان شاید اس لئے مرتکز ہوا ہے کہ ٹریفک سے متعلق جس قسم کے بھی مسائل لاہور والوں کو درپیش تھے ان سب سے وہ اچھی طرح نمٹ چکے ہیں اور ملک کو جدید ترین خطوط پر ترقی یافتہ ملکوں کے برا بر لانے کیلئے فقط ایک سیٹ بیلٹ کی پابندی کا مسئلہ رہ گیا تھا۔ سیٹ بیلٹ کے ساتھ پابندی کا لفظ صحیح نہیں لگتا کیونکہ یہ ڈرائیونگ کا بنیا دی اصول ہے۔ یقین کیجئے برطانیہ یا امارات میں جب بھی اپنے دوستوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کا اتفاق ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنی سیٹ بیلٹ باندھتے ہیں‘ حالانکہ وہاں ہر قدم پر پولیس کے ناکے نہیں ہوتے اور نہ آپ کو پوری فیملی کے ساتھ گاڑی سے اتار کر پورے جسم کی تلاشی لی جاتی ہے۔ وہاں کسی کو یہ بھی ڈر نہیں ہوتا کہ آ پ کی گاڑی کے ڈیش بورڈ یا ڈگی سے چرس بھرے سگریٹ یا کوئی اور ممنوعہ اور شرمناک اشیاء بر آمد کر لی جائیں گی۔موٹر وے پر جب سیٹ بیلٹ باندھی جاتی ہے تو ڈرائیور کو یقین ہوتا ہے کہ یہ مجھے اپنی منزل پر پہنچنے پر یا اس وقت اتارنی ہو گی جب راستے میں کسی جگہ رکنا پڑے گا‘ نہ کہ جگہ جگہ ناکوں پر اپنی اور ڈگی کی تلاشی دینے کیلئے ۔
ٹریفک پولیس کئی برسوں سے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی غیر نمونہ نمبر پلیٹس کے خلاف مہم چلانے کے اعلانات کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس پر عوام کے ٹیکسوں کا بے تحاشا پیسہ بھی خرچ کیا جاتا رہا۔ شاید حکومت پنجاب اور چیف ٹریفک آفیسر لاہور کو مکمل یقین ہو چکا ہے کہ لاہور کی سڑکوں پر نظر آنے والی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں حکومت کے تجویز کردہ معیار کی نمبر پلیٹس کے عین مطابق رواں دواں ہیں۔ اگر سی ٹی او صاحب لاہور کی کسی بھی سڑک پر صرف ایک
گھنٹے کیلئے کھڑے ہو جائیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ 50فیصد سے بھی زائد وہیکلز کی نمبر پلیٹس یا تو غیر معیاری ہوں گی یا وہ پڑھی ہی نہیں جا سکیں گی۔اگر ایسا ہے اور یقیناایسا ہی ہے تو پھر ممنوعہ نمبر پلیٹس کے خلاف مہم کا کیا ہوا؟ ہر وارڈن کے سامنے ، پولیس ناکے والوں کے سامنے سے یہ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں گذرتی ہیں۔ کوئی انہیں روکنے اور پوچھنے والا نہیں۔ کوئی حادثہ یا واردات کرنے کے بعد موقع سے بھاگنے والی کسی گاڑی کی اگر کوئی نمبر پلیٹ ہی نہیں پڑھ سکتا تو مجرم کیلئے فرار کا محفوظ راستہ تو خود بخود ہموار ہو گیا اور یقینا وہ پھر کسی دوسری واردات کی تیاری کیلئے کمر باندھے گا۔
لاہور ٹریفک پولیس کی جانب سے بار بار لین اورلائن کی پابندی کی زبردست مہم چلائی گئی۔ کیا لاہور ٹریفک پولیس مطمئن ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو لین اور لائن کا پابند بنا چکی ہے؟
لاہور سمیت ملک کے ہر حصے میں گاڑیوں کیلئے ایک مقررہ رفتار مقرر ہے۔ کیا سی ٹی او لاہور کو اس بات کا مکمل یقین ہو چکا ہے کہ انہوں نے سڑکوں پر مقررہ حد رفتار کی پابندی کرا لی ہے؟۔ اگر نتیجہ دیکھنا ہے تو کینال روڈ سے گزرنے والی گاڑیوں کی رفتار چیک کر لیں‘ جہاں پانچ پانچ ٹریفک وارڈنز کا گروہ سوائے پک اپ والوں سے وصولیاں کرنے کے‘ کچھ بھی کرنے کے موڈ میں نہیں ہوتا۔اس وقت لاہور میں جس تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلائی جا رہی ہے اس کی مثال
کہیں اور نہیں ملتی اور اگر حادثات کا تناسب دیکھیں تو موٹر سائیکلوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا کسی بھی گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے والے کے دل میں ٹریفک پولیس یہ خوف یا احساس بٹھا سکی ہے کہ خلاف ورزی کرنے والا چاہے کوئی بھی ہو‘ کہیں بھی ہو وہ قانون کی پکڑ سے نہیں بچ سکے گا؟
کسی بھی ملک کی ٹریفک کو بہتر طریقے اور خوش اسلوبی سے رواں دواں رکھنے کیلئے ٹریفک سگنلز کی پابندی بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور لاہور کی سڑکوں پر لین اور لائن کے احترام اور ٹریفک سگنلز کو توڑتے ہوئے جس طرح ان بنیادی اصولوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے وہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے بلکہ یقین جانئے کہ اب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو اشارہ کھلنے پر اپنی گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ نہ جانے کدھر سے کوئی گاڑی اشارہ توڑتے ہوئے اسے اپنے نشانے پر لے لے۔
کیا چیف ٹریفک آفیسر لاہور کو کبھی آٹھ بجے رات کے بعد صوبائی دارلحکومت کی سڑکوں پر چلنے والی ٹریفک کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے کہ ہر گاڑی والاکس بے رحمی سے فل لائٹس دے رہا ہوتا ہے؟ مجال ہے سامنے سے آنے والے کو کچھ بھی دکھائی دے۔ پہلے آپ تیز رفتاری، ٹریفک سگنل، ہیلمٹ کے استعمال، ویگنوں اور بسوں کو مقررہ بس سٹاپ کا پابند، سڑکوں پر لین اور لائن اور فلش لائٹ مارتے ہوئے سامنے سے آنے والوں کو اندھا کرنے جیسے مسائل پر قابو پا لیں پھر بے شک سیٹ بیلٹ کی طرف بھی قدم بڑھا لیں۔ اگر کچھ کرنا ہی تو سب سے پہلے ''رات کو روشنیاں مدھم رکھوائیں‘‘!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved