تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     11-05-2015

برطانوی الیکشن میں دھاندلی کے امکانات

''میں صبح دس بجے کے قریب ووٹ ڈالنے گیا تو پولنگ اسٹیشن پر دو لوگ قطار میں کھڑے تھے ، میںبھی اس قطار میں لگ گیا کہ اپنی باری کا انتظار کروں جو تقریباً ڈیڑھ منٹ بعد آئی۔ایک چھوٹے سے کمرے میں میز کے پیچھے بیٹھی ایک خاتون نے مسکرا کر میرا نام پتا پوچھا اور ایک پرچی پر کوئی نمبر لکھ کر دے دیا۔ میں نے وہ پرچی ساتھ بیٹھی ایک دوسری خاتون کو دکھائی تو اس نے اس پر لکھے نمبر کو ووٹر لسٹ کے ایک نمبر سے ملایا جس کے آگے میرا نام اور پتا لکھا تھا۔ اس نے میز پر رکھے ہوئے پیمانے سے میرے کوائف والے خانے پر ایک سرخ لکیر لگائی اور بیلٹ پیپر میرے حوالے کردیا۔ دو قدم کے فاصلے پر ایک بوتھ بنایا گیا تھا جس میں جاکر ووٹر کو ووٹ پر نشان لگانا ہوتا ہے۔ اس بوتھ میں ایک قلم رکھا تھا، میں نے اپنے پسندید ہ امیداوار کے نام کے سامنے کراس لگایا اور ووٹ کو تہہ کرکے پہلے والی خاتون کے ساتھ رکھے ڈبے میں ڈال دیاـ۔ اس سارے کام میں چار نہیں تو ساڑھے چار منٹ لگے ہوں گیــ‘‘، دنیا ٹی وی کا برطانیہ میں نمائندہ اظہر جاوید مجھے چند دن پہلے ہونے والے برطانوی انتخابات میں اپنے ووٹ ڈالنے کی کہانی سنا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے کوئی شناختی دستاویز دکھانے کا ذکر نہیں کیا تو اس نے بتایا کہ ''اس سے کسی نے اس بارے میں کہا ہی نہیں‘ بس جو کچھ میں نے بتایا اسے ہی کافی سمجھا گیا‘‘۔ میرے لیے حیرت کی بات تھی کہ دنیا کی قدیم ترین جمہوریت میں الیکشن کو شفاف بنانے کے لیے کوئی طریقہ اختیار
نہیں کیا گیا اس لیے میں نے اظہر سے پوچھا کہ اگر میں اس کا نام اور پتا بتا کر ووٹ ڈال دوں تو پھر کیا ہوگا۔ ''اول تو برطانیہ میں آپ جتنے ذہین لوگ نہیںرہتے اس لیے وہ اس امکان پر سوچتے ہی نہیں، دوسرے یہ کہ اگر آپ یہ کارنامہ دکھانا ہی چاہتے ہیں تو برطانوی الیکشن کمیشن آپ کی راہ میں حارج نہیں ہوگا‘‘، اظہر بولا۔
''اچھا یہ بتاؤ کہ تم نے انگوٹھا کتنی جگہ لگایا اور دستخط کہاں کہاں کیے‘‘ ، میں نے سوال کیا۔ ''آپ کی تسلی کے لیے عرض ہے کہ کہیں بھی نہیں، ووٹ ڈالنے کے دوران میں نے کہیں انگوٹھا لگایا نہ کہیں دستخط کیے بس ووٹ پر ایک کراس لگایا تھا‘‘ اس نے کہا۔ ''اچھا یہ بتاؤ کہ کوئی امیدوار ووٹوں کے تھیلے کھلوالے اور پھر ایک ایک ووٹ کی تصدیق کرنا چاہے تو یہ کام بغیر انگوٹھے کے نشان کے کیسے ہو گا‘‘، میں نے پوچھا۔ میرا سوال سن کر اس نے قہقہہ لگایااور ہنستے ہوئے کہا'' یہاں عدالتیں اس طرح کے احکامات دیتی ہیں نہ کوئی امیدوار اس طرح کی فرمائش کرتا ہے، یہاں جمہوریت اعتماد کے زور پر چلتی ہے، شک کے ساتھ نہیں‘‘۔
اظہر نے جو کچھ برطانوی طریق انتخاب کے بارے میں بتایا اس کے مقابلے میں پاکستان میں ووٹ ڈالنے کا طریقہ خاصا تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے۔ برطانیہ میں ووٹر کو محترم تصور کرتے
ہوئے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے سچ ہے جبکہ ہمارے ہاں ووٹر ایک ایسا چور ہے جس سے واسطہ پڑتے ہی ریاستی نظام چوکنا ہوجاتا ہے۔ ووٹر کے لیے لازم ہے کہ وہ پولنگ اسٹیشن پر اپنی شناخت ثابت کرے، پھر وہاں موجودگی کا ثبوت دینے کے لیے انگوٹھا لگائے اور یہ سب کرنے کے بعد بھی سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹ اس پر یہ الزام لگا سکتے ہیں کہ وہ جعلی آدمی ہے۔ بظاہر ان پابندیوں کی موجودگی ہی یہ ثابت کررہی ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ بن چکے ہیں جہاں کسی کو دوسرے پر اعتماد نہیں ہے۔ بداعتمادی کی اس فضا نے الیکشن جیسی اہم ترین سیاسی و قومی مشق کو بھی اتنا مشکوک بنا دیا ہے کہ ہم جوڈیشل کمیشن کے ذریعے اس کی چیر پھاڑ کرنے میں مصروف ہیں۔ مہذب ملکوں میں تو معمول یہ ہے کہ الیکشن کو چھیڑنے سے پہلے سو بار سوچا جاتا ہے اور دوبارہ پولنگ یا تھیلے کھولنا تو دور کی بات دوبارہ گنتی کا حکم بھی ہزار بار تول کر دیا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں الاماشااللہ اقتدار کے ایوان ہوں یا سیاستدان الیکشن کو متنازعہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے چاہے اس کے لیے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق نہ ہوسکنے کی کمزور ترین دلیل کا ہی سہارا کیوں نہ لینا پڑے۔
ایک خاص روشنائی سے بیلٹ پیپر کے کاؤنٹر فوائل پر ووٹر کے انگوٹھے کا نشان لگوانا نادرا کے ایک سابق چیئرمین کی پیدا کردہ اختراع ہے۔ یہ اتنی بڑی حماقت تھی کہ یہ صاحب دنیا کے کسی مہذب ملک میں ہوتے تو شاید انہیں جرمانہ کردیا جاتا لیکن یہ پاکستان ہے جہاں پانی سے موٹر چلانے کا دعویٰ بھی قابل قبول سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے سادہ لوح الیکشن کمیشن نے اس تجویز کو نہ صرف قبول کر لیا بلکہ بغیر کسی تجربے کے نافذ بھی کر ڈالا۔ فیصلہ کرتے ہوئے یہ حقیقت نظر انداز کردی کہ مشین صرف اسی نشان کوپڑھ سکے گی جو سو فیصد درست انداز میں لگا ہوگا۔ اب الیکشن کے دن جب ساڑھے چار کروڑ ووٹروں نے بغیر کسی تربیت کے اپنے اپنے انگوٹھے چھاپے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی تصدیق کرنے کی کوشش کا نتیجہ کیا ہوگا۔ اگر یہ صاحب واقعی ایک ذہین و فطین آدمی ہوتے تو یقینا ان پر سازش کا الزام لگتا لیکن ا ن کی جملہ صلاحیتوں کے پیش نظر ان کے اس کارنامے کو حماقت کے درجے سے اوپر رکھنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ مقناطیسی روشنائی اور پھر انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق اتنا پیچیدہ عمل ہے کہ یورپ بھی یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہیں مگر طارق ملک اور ناتجربہ کار الیکشن کمیشن کی وجہ سے ہم نے طویلے کی بلا اپنے سر لے لی جسے دوسال کے بعد بھی بھگت رہے ہیں اور نجانے کب تک بھگتیں گے۔
الیکشن بنیادی طور پر کسی بھی جمہوری معاشرے کی مقدس ترین مشق ہوتا ہے۔ اسی لیے دنیا بھر میں اس کی تقدیس پر سوال اٹھانے والے کو طرح طرح سے پابند کیاجاتا ہے کہ وہ کوئی بات کرے تو پھر اس کا ثبوت بھی دے۔ لیکن پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جہاں ہارنے والا بڑے آرام سے دھاندلی دھاندلی کا شور مچا کر شکست قبول کرنے سے گریز کرتا ہے‘ کیونکہ جمہوری روایات کے مطابق الیکشن ہارنے کی صورت میں اسے قیادت کے دعوے سے دستبردار ہونا پڑے گا جیسے برطانیہ میں کئی پارٹیوں کے سربراہوں کو ہونا پڑا۔ اگر ہارنے والے برطانوی سیاستدان اپنے پاکستانی ہمسروں سے مشورہ طلب کرلیتے تو انہیں اپنی اپنی پارٹیوں کی قیادت سے استعفے نہ دینے پڑتے ۔ وہ دھاندلی کا الزام لگاتے، ووٹوں کی تصدیق کا چکر چلاتے اور آرام سے سیاست سیاست کھیلتے۔ اور اگر وہاں کے قانونی ماہرین پاکستانی ماہرین سے مشورہ کرلیتے تو اور بھی اچھا ہوتا۔ بڑے آرام سے ووٹوں کے تھیلے کھولنے کے احکامات جاری ہوتے اور اپنی آٹھ سو سالہ جمہوری روایات کا بیڑہ غرق کردیتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved