تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-05-2015

یہ دریا اتر نہ جائے کہیں!

آنکھوں کا بھی عجیب معاملہ اور عجیب تر مقدر ہے۔ اگر بالکل خشک ہوں تو طعنہ ملتے دیر نہیں لگتی کہ ان کا پانی مرگیا ہے۔ اور اگر ان میں آنسو بھرے ہوں تو لوگ تنقید کرتے نہیں تھکتے کہ یہ تو ذرا سی بات پر بھر آتی ہیں! آنکھیں خواہ کسی حالت میں ہوں، دنیا والے ان سے مطمئن نہیں ہوتے۔
آنکھوں اور آنسوؤں کا جنم جنم کا ساتھ ہے مگر دنیا کہاں مانتی ہے۔ اسے تو بات کا بتنگڑ بنانے کا شوق ہے اور یہ شوق وہ ہر حال میں پورا کرکے ہی سکون کا سانس لیتی ہے۔ دل پر ڈھائی جانے والی ہر قیامت آنکھوں کے ذریعے سے باہر نکلتی ہے۔ رونے کا فلسفہ یہ ہے کہ دل پر جو بھی بوجھ ہے وہ اتر جائے یا اس میں اتنی کمی واقع ہوجائے کہ سکون کا سانس لینا ممکن ہو۔ کسی بھی صورت حال یا حالات کے جبر کو اگر جھیلنے میں کامیابی نصیب ہو یعنی آنکھوں میں آنسو کی رمق تک نہ پیدا نہ ہو تو سمجھ لیجیے بندے کی شامت آگئی۔ سب سے پہلے تو یہ طعنہ ملتا ہے کہ سینے میں دل نہیں پتھر ہے جبھی تو آنکھوں میں آنسوؤں کا نام و نشان نہیں۔ اور اگر کوئی حالات کے جبر سے پگھل جائے یعنی آنکھوں سے آنسو چھلکیں تو جھٹ فرمان جاری کردیا جاتا ہے کہ آنسو تو کمزوری کی علامت اور ثبوت ہیں۔ آنکھیں کریں تو کیا کریں اور آنسو جائیں تو کہاں جائیں؟ ع
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
بہت سی قومی پالیسیوں کی طرح پاکستان جیسے معاشروں میں آج تک یہ بھی طے نہیں کیا جاسکا کہ آنسو طاقت ہیں یا کمزوری اور رونا کمزوری کی علامت ہے یا احساس کی پختگی کا ثبوت! خوشی کے موقع پر آنکھیں چھلک جائیں تو لوگ داد دینے والی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ذرا سوچیے، خوشی سے آنسوؤں کا کیا تعلق؟ ہاں، دل کو دھچکا لگا ہو، صدمہ پہنچا ہو تو آنکھوں کے جام سے صہبائِ اشک کا چھلک جانا ذرّہ بھر حیرت انگیز امر نہیں۔ مگر طرفہ تماشا ہے کہ غم کا پہاڑ ٹوٹنے پر بھی لوگ چاہتے یہ ہیں کہ بندے کی آنکھیں پرنم نہ ہوں! اب چاہے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش میں بندے کی جان ہی پر کیوں نہ بن آئے۔
ایک بڑی پیچیدگی یہ ہے کہ کوئی اگر دل گرفتہ ہو تو کہاں جاکر روئے، کس طور دل کا غبار نکالے۔ لوگ کہیں بھی چین سے جینے نہیں رہنے دیتے۔ اگر گھر میں روئیے تو اہل خانہ تمسخر اڑاتے ہیں۔ دوستوں میں بیٹھ کر اشک بہائیے تو سب جذباتی اور نفسیاتی ہونے کا طعنہ دینے لگتے ہیں۔ اگر معبد میں جاکر اپنے معبود کے سامنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی غرض سے کچھ دیر روئیے تو لوگ اس عمل کو اداکاری سمجھ کر محظوظ ہوتے ہیں۔ ان پیچیدگیوں کا حاصل یہ ہے کہ بہت سے لوگ شدید غم زدہ ہوکر بھی رونے سے گریز کرتے ہیں اور اپنے ہی دل پر قیامت ڈھاتے ہیں۔ ؎
کیا دل گرفتہ ہم تری محفل سے آئے ہیں
آنکھوں میں اشک بھی بڑی مشکل سے آئے ہیں
کسی بھی صورت حال میں پلکوں کا پرنم ہونا یا نہ ہونا ہر انسان کا خالص ذاتی معاملہ ہے۔ مگر لوگ پرائیویسی کے تمام پہلوؤں کو سمجھتے ہی کب ہیں؟ کسی کی پلکیں بھیگ جائیں تو تماشا اور اگر آنسوؤں کی جھڑی لگ جائے تو ڈراما! خالص ذاتی نوعیت کے معاملات کے لیے بھی اہل جہاں نے اپنی مرضی کے معیارات متعین کر رکھے ہیں!
ایسے میں دکھی دلوں کے لیے جاپان کا ایک ہوٹل پورے خلوص کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ ٹوکیو کے متسوئی گارڈن یوتسویا میں رونے والوں کے لیے بھی کمرے مختص کئے گئے ہیں۔ جو دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہے وہ کمرا کرائے پر لے اور خوب روئے۔ آپ سوچیں گے رویا تو کسی بھی کمرے میں جاسکتا ہے، تو پھر اس ہوٹل میں کیا خاص بات ہے؟ یہ ہوٹل رونے والوں کو موزوں ترین ماحول فراہم کرتا ہے۔ کمرے میں آڈیو، وڈیو سسٹم لگے ہوئے ہیں۔ سسٹم میں ایسی فلمیں رکھی گئی ہیں جن کے دیکھنے سے انسان کا دل بھر آئے اور وہ بے اختیار ہوکر رونا شروع کردے۔ المیہ گیت بھی سسٹم میں بھرے پڑے ہیں۔ یعنی بستر پر سیدھے لیٹ کر جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیجیے، المیہ گیت سنتے جائیے اور آنسو بہاتے جائیے! خصوصی ٹشو پیپرز بھی رکھے گئے ہیں تاکہ آپ کو اپنے قیمتی آنسو پونچھنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میک اپ کو ڈھنگ سے ڈیلیٹ کرنے کا سامان بھی کمرے ہی میں دستیاب ہے تاکہ رونے سے میک اپ خراب ہو نہ میک اپ کے ہوتے ہوئے آنسوؤں کی وقعت میں کمی واقع ہو۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ رونے کے لیے مختص یہ کمرے عمومی طور پر خواتین کے لیے ہے۔ خواتین ہی آتی ہیں، کمرا بک کراتی ہیں، تنہائی میں جی بھر کے روتی ہیں اور دل کا سارا بوجھ ٹشو پیپرز کے حوالے کر جاتی ہیں!
ہم سمجھ نہیں پائے کہ آنسو بہانے کی خاطر بنائے گئے کمرے صرف خواتین کے لیے کیوں مختص ہیں۔ یہ کیوں فرض کرلیا گیا ہے کہ رونے پر صرف خواتین کا اجارہ ہے یا رونا صرف خواتین کو آتا ہے؟ دل تو مردوں کا بھی بھر آتا ہے اور آنکھیں تو ان کی بھی چھلکنے کو بے تاب رہتی ہیں مگر وہ بے چارے مجبور ہیں کہ سب کے سامنے رو بھی نہیں سکتے۔ چار آنسو کیا بہہ نکلیں، لوگ طنز و تشنیع کے تودے لڑھکانا شروع کردیتے ہیں۔ شعراء نے بھی ایسی باتیں کہی ہیں کہ بے چارے مرد سرعام آنسو بہانے سے گریز کرتے ہیں۔ مثلاً احمد ندیمؔ قاسمی فرماتے ہیں ؎
چھپ چھپ کے روؤں اور سرِ انجمن ہنسوں
مجھ کو یہ مشورہ مرے درد آشنا کا تھا!
یعنی دل میں آنسو بھرے بھی ہوں تو آنکھوں تک آنے سے روکیے ورنہ دنیا والے کیا کہیں گے؟ یہ کیا بات ہوئی؟ دوسری طرف احمد فرازؔ جیسے شعراء نے صاف کہا ہے کہ جو کچھ دل میں ہے وہ آنسوؤں کے ذریعے بہا ڈالو ورنہ جان پر بن آئے گی۔ ؎
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا!
رونے کے معاملے میں مرد بہت حد تک ع
''رویم‘‘ مشکل، وگر ''نرویم‘‘ مشکل
کے مرحلے میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ خواتین رونا بھی روتی رہتی ہیں اور رو بھی لیتی ہیں۔ مرد کی آنکھ سے دو آنسو بھی ٹپک جائیں تو قیامت آجاتی ہے، ساری کی ساری ''شانِ مرداں‘‘ داؤ پر لگ جاتی ہے! فلم 'مقدر کا سکندر‘ کا یہ گانا تو سب نے سُن رکھا ہوگا:
روتے ہوئے آتے ہیں سب، ہنستا ہوا جو جائے گا
وہ مقدر کا سکندر جانِ من کہلائے گا!
یعنی مرد کے لیے ہر جگہ ایک ہی آپشن بچا ہے، یہ کہ دل و نظر پر قیامت ہی کیوں نہ گزر جائے اسے آنکھوں کو پرنم ہونے سے بچاتے ہوئے ہونٹوں پر ہنسی سجانی ہے۔ یہ امتیازی رویّہ ہے۔ مرد آخر کب تک خواتین کے لیے ٹشو پیپر کا اہتمام کرنے تک محدود رہیں گے؟ سکون سے مزیّن چند ایک گوشے ایسے بھی ہونے چاہئیں جہاں مرد اپنے روکے ہوئے آنسو آسانی سے بہاسکیں۔ آخر تک کب تک صرف انہی کے لیے رویا جائے گا! انہیں بھی رونے اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ اور ان کے آنسوؤں کو کمزوری کی علامت سمجھنے کا رجحان اب ختم ہونا چاہیے۔
مرد ہوکر بھی ناصرؔ کاظمی نے کیا خوب مشورہ دیا ہے ؎
آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصرؔ
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں!
آج تک یہی ہوتا آیا ہے کہ دریا چڑھا ہوا ہو تو خواتین کچھ دیر روکر کنارے تک پہنچ جاتی ہیں اور مرد اپنی ''شوکتِ مردانہ‘‘ کو تنقید سے بچانے کے لیے آنکھ میں آئے ہوئے آنسو دل پر بہاکر مزید پیچیدگیوں کو گلے لگالیتے ہیں۔ ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی تبدیلی کا وقت آگیا ہے۔ دنیا بھر کے مردوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ احمد فرازؔ اور ناصرؔ کاظمی کے مشورے پر عمل کرکے دل اور آنکھوں کے لیے سکون کا سامان کریں۔ ایک ذرا سا رو لینے سے مرد کی شان کچھ گھٹ نہیں جاتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved