تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     12-05-2015

حکومت یہی رہے گی

اسے کہتے ہیں‘ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ کل تک ذرا ذرا سی بات پر حکومتی وزیر بیان جاری کرتے تھے کہ فلاں بات سے ثابت ہو گیا‘ عمران خان کے الزام غلط تھے۔ ووٹوں کی گنتی میں فلاں غلطی تھی۔ تحریک انصاف والوں کا یہ الزام غلط نکلا۔ ان کی فلاں بات غلط ثابت ہو گئی۔انہیں بات بات پر طعنے دیئے جاتے کہ ان کے الزام جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر روز وہ ٹربیونل کے باہر خود تماشے لگاتے تھے۔ اب اچانک انہیں تکلیف شروع ہو گئی اور ٹربیونل کے ججز سے اپیلیں کررہے ہیں کہ وہ تماشے لگانے والوں کو شٹ اپ کال کیوں نہیں دیتے؟ کل تک جو باتیں ان کے لئے جائز تھیں‘ آج انہی پر شٹ اپ کال دینے کی فرمائشیں ہو رہی ہیں۔ اس لئے کہ تحریک والے اب جو حقائق پیش کر رہے ہیں‘ انہیں جھٹلانا محال ہو گیا ہے۔ کل تک ان کا ہر دعویٰ غلط تھا اور اس پر طنزومزاح کے تیر برسائے جاتے تھے۔ آج سچائی واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے‘ تو مطالبے شروع ہو گئے کہ تحریک والوں کی زبانیں بند کرائو۔ لیکن حقائق کب چھپتے ہیں؟ اب کہا جاتا ہے ‘ دھاندلیوں کا فیصلہ نادرا یا میڈیا ٹرائل کو نہیں کرنا۔ کیا بے بسی پر مبنی دلیل ہے۔ حقائق نادرا ہی کو بتانا ہیں۔ سچی خبریں‘ میڈیا ہی کو شائع کرنا ہیں۔ کل جب یہی وزراء تحریک انصاف کے دعوئوں کی بھد اڑاتے تھے‘ تو کیا ان کے پاس خفیہ ذرائع سے خبریں آتی تھیں؟ جن پر وہ تبصرے کرتے تھے‘ کیا وہ میڈیا سے نہیں لی جاتی تھیں؟ جب تک ان کے حق میں بات کرنے کی گنجائشیں تھیں۔ جب انہیں سچائی کو بگاڑنے کی گنجائش ملتی تھی‘ تو وہ یہی تماشے ٹربیونل کے باہر لگایا کرتے تھے۔ آج سچائی ناقابل تردید ہو گئی ہے۔ اسے مسخ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی۔ حقائق نے انہیں لاجواب کر کے رکھ دیا ہے‘ تو جھنجھلاہٹ کے عالم میں کہہ رہے ہیں‘ ٹربیونل کے ججز تماشے لگانے والوں کو شٹ اپ کال کیوں نہیں دیتے؟ محترم وزرائے کرام! جب خود تحریک انصاف کے لیڈروں کا اخباری خبروں کی بنیاد پر تمسخر اڑاتے تھے‘ توکیا ججز صاحبان کے لئے ضروری نہیں تھا کہ وہ وزراء کو شٹ اپ کال دیتے؟
ٹربیونلز کا دائرہ تو محدود ہے۔ ان کی کارروائی کا دائرہ بھی تنگ ہے۔حکومت کا اس وقت کیا بنے گا؟ جب جوڈیشل کمیشن کی کارروائی آگے بڑھے گی۔ ابھی تو صرف بیانات آ رہے ہیں‘ جب شواہد سامنے آئیں گے‘ تووزراء کا کیا بنے گا؟جوڈیشل کمیشن تو سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ہے۔ انہیں شٹ اپ کال دینے کے لئے کون کہے گا؟ یہی باتیں جو ٹربیونل کے سامنے آئی ہیں‘ چند روز بعد واضح شہادتوں کے ساتھ جوڈیشل کمیشن کے سامنے آئیں گی۔تب وزیروں کا کیا بنے گا؟ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور بقول چند سیاستدانوں کے دھاندلا ہوا ہے۔ دھاندلی کے جو ثبوت سامنے آنے والے ہیں‘ انہیں میڈیا میں آنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔ یہ بات خود حکومت کو بھی معلوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے کمیشن کے دائرہ کار کو محدود کرتے ہوئے‘ براہ راست دھاندلی کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا۔ کمیشن کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ نتائج کو (Manipulate)توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔حکومت توابھی تک جو حقائق سامنے آئے ہیں‘ انہیں دھاندلی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ مثلاً ہزاروں ووٹ غیرتصدیق شدہ ہیں۔ حکومت اسے غلطی نہیں مان رہی۔ بے ضابطگیوں کا شمار نہیں۔ حکومت انہیں بھی دھاندلی نہیں مان رہی۔ وزیرحضرات خود تسلیم کر رہے ہیں کہ اندراجات میں غلطیاں ہو گئیں۔ مگر وہ اسے بھی دھاندلی نہیں مانتے۔ جو ریکارڈ تھیلوں میں بند کر کے محفوظ کیا گیا‘ اس کے اندر سے ردی نکل رہی ہے۔ اسے بھی دھاندلی تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ چوہدری اعتزاز احسن جیسے اعلیٰ پائے کے بیرسٹر نے دھاندلیوں کے ثبوت بوریوں کے حساب سے جمع کر کے پیش کر دیئے ہیں۔ حکومت انہیں بھی نہیں مان رہی۔اصولی طور پر کمیشن کے ذمے کوئی کام ہی نہیں۔ سارے گورکھ دھندے کے بعد ایک رپورٹ تیار کر کے‘ حکومت کو پیش کر دی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کمیشن کے پاس وہ کونسے الفاظ ہیں؟ جن میں وہ حکومت کو انتخابات میں دھاندلی قبول کرائے گی۔ کمیشن کے مینڈیٹ میں دھاندلی یا رگنگ کا لفظ ہی موجود نہیں۔ کمیشن کو صرف یہ دیکھنا ہے کہ Manipulation کی گئی ہے یا نہیں؟ یعنی انتخابی نتائج میں توڑمروڑ ہوا ہے یا نہیں ؟ دنیا بھر کے وکلا کو جمع کر لیں اور وہ ثابت کر کے دکھا دیں کہ انتخابی نتائج میں Manipulation ہوئی ہے؟ پاکستان کی جمہوریت انجام کو پہنچ جائے گی‘ Manipulation کا فیصلہ نہیں ہو گا۔
خدا جانے تحریک انصاف کی ٹیم نے دھاندلی کی جگہ Manipulated کا لفظ کیسے قبول کر لیا؟تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم ایجاب و قبول کے جس موڈ میں تھی اگر ن لیگ کی ٹیم چاہتی ‘ تولگے ہاتھوں معاہدے میں یہ شرط بھی منوا لیتی کہ ''جب تک جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر اتفاق رائے نہیں ہو جائے گا‘ اس وقت تک آئندہ انتخابات ملتوی رہیں گے۔‘‘ن لیگ والوں نے تحریک کی مذاکراتی ٹیم کے موڈ کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ اتنا فائدہ تو بہرحال وہ اٹھا گئے کہ تحریک والوں نے دھاندلی دھاندلی کا جو شور مچا رکھا تھا‘ وہ تو جوڈیشل کمیشن کی کارروائی کے دوران ہی ٹھنڈا پڑ جائے گا۔البتہ عمران خان اپنے آپ کو تسلی دیتے رہیں گے کہ وہ سچے ثابت ہو گئے۔ خانصاحب کو کون سمجھائے؟ پاکستان میں سچا ہونے کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔بعض حلقوں میں تو سچے کو ''ناموزوں‘ ان فٹ‘ بھوندو‘‘ جیسے بے شمار ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔
فرض کریں‘ جوڈیشل کمیشن کی کارروائی مکمل ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی رپورٹ تیار کر کے‘ حکومت کے سپرد کر دیتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا جاتا ہے کہ اپوزیشن کے الزامات میں کسی حد تک سچائی پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ کہیں ثابت نہیں ہوتاکہ انتخابی نتائج کو کہیں بھیManipulate کیا گیا ہے۔ فرداً فرداً قریباً 90فیصد نشستوں پر دھاندلیاں ثابت ہوئی ہیں‘ لیکن مجموعی طور پرManipulation کے ثبوت نہیں ملے۔ یہ رپورٹ حکومتی سردخانے میں جا کر بند ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے‘ اسے خفیہ دستاویز قرار دے دیا جائے تاکہ مستقبل میں کبھی بھی اسے استعمال کر کے‘ 2013ء سے 2018ء تک کی حکومت کو ناجائز قرار دے کر ریکارڈ میں رکھ دیا جائے۔ امکان غالب تو یہ ہے کہ یہ رپورٹ جوں کی توں بند کر دی جائے گی۔ اگر چوہدری اعتزاز احسن اور حفیظ پیرزادہ جیسے سرپھروں نے زیادہ شور مچایا‘ تو آئندہ کے انتخابی قوانین میں تھوڑی بہت ردوبدل کر کے‘ان بے قاعدگیوں کا راستہ بند کر دیا جائے گا‘ جو 2013ء کے انتخابات میں ہوئیں اور نئی بے قاعدگیوں کا راستہ کھول دیا جائے گاتاکہ ن لیگ کے لئے کامیابی کے راستے بھی کھلے رہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انتخابات جیسے بھی ہوں‘ حکومتیں آئندہ ن لیگ کی ہی بنیں گی۔ حمزہ شہباز میدان میں آ چکے ہیں۔ آنے والے 20 سال کے لئے تو انشاء اللہ قوم کو نوازشریف کی رہنمائی ہی میسر رہے گی۔ اس کے بعد اگر دونوں بھائیوں نے ریٹائرمنٹ کا موڈ بنا لیا‘ تو ہمارے نصیب‘ ورنہ حمزہ شہبازمیدان میں آ چکے ہیں۔ آنے والے تین چار عشرے وہ سنبھالیں گے۔ جبکہ صوبے میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے انشاء اللہ مریم نوازتیار ہو چکی ہوں گی۔ ویسے بھی وفاقی حکومت کو بہت عرصے تک نوازشریف نے سنبھال لیا ہو گا اور صوبائی حکومت کے لئے مریم نواز کی باری آ جائے گی۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے۔ ایک بھائی نے وفاق سنبھالا۔ دوسرے نے صوبہ۔ اصولی طور پراب چھوٹا بھائی وفاق سنبھالے گا اور بڑا بھائی صوبہ۔ اگلی نسل کی دونوں حکومتیں انشاء اللہ زیادہ عرصہ نکالیں گی۔ اس میں شک و شبہے کی گنجائش ہی نہیں کہ حمزہ کے ساتھ پرویزرشید ہوں گے اور مریم نواز کے ساتھ شعیب بن عزیز۔
طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ نلتر میں گرنے والے ہیلی کاپٹر کو انہوں نے تین کلومیٹر کے فاصلے سے ٹیل پر میزائل سے نشانہ لگایا ‘ جس سے سات افراد ہلاک ہوئے۔ واشنگٹن پوسٹ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved